ابن انشا کا خط خلیل الرحمن اعظمی کے نام

22/1/57

جانِ من، رات کے ساڑھے نو بج رہے ہیں۔ بس یہ پیار کا خط اس اداس رنگ کاغذ پر تمھارے نام اپنے بستر میں بیٹھا لکھ رہا ہوں۔

میرا حال سنو۔ ہر دو جہاں کا دھتکارا ہوا نکما آدمی ہوں۔ دوست کوئی نہیں کہ چاند کے تمنائی والی راتوں میں ابتدائے سرما کی چاندنی میں اس لاکھوں کے شہر کی گلیوں میں ساتھ گھوم سکے۔ تمھیں اپنی نامرادی (جذباتی) کا قصہ سنانے کو جی چاہا۔ پھر یاد آیا۔۔۔۔۔۔

آہ نہ کر لبوں کو سی۔۔۔۔۔عشق ہے دل لگی نہیں۔

سو میرے پیارے۔۔۔۔۔۔۔اب کے بھی تم میرا حال پوچھنے کے جتن نہ کرنا۔ 10 ستمبر کی رات جب روح کا دیپ بجھ رہا تھا۔ آخری شعر یہ کہے تھے۔

اب ہم کو اجازت کہ ہوا __ وقت ہمارا
محفل سے کریں اہلِ محبت تو کنارا

اس گھر کے الٰہی__ در و دیوار سلامت
اس گھر میں کیا تیس برس ہم نے گزارا

انشا کو مری جان بہت یاد کرو گی
جاتا ہے فقط دل پہ لیے داغ تمھارا

کہے نہیں تھے۔ وفورِ جذبات میں بے اختیار زبان پر آ گئے تھے۔

اس قصے پر خاک۔ ایک دو نظمیں سنو۔

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو، کیا انشا جی سودائی ہیں

ہیں لاکھوں روگ زمانے میں، کیوں عشق ہے رسوا بیچارا
ہیں اور بھی وجہیں وحشت کی، انسان کو رکھتیں دکھیارا

ہاں بے کل بے کل رہتا ہے، ہر پیت میں جس نے جی ہارا
پر شام سے لے کر صبح تلک، یوں کون پھرے گا آوارا

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو، کیا انشا جی سودائی ہیں؟

(لوگ آ کر کہتے ہیں کہ انشا کا یہ حال عشق کی وجہ سے ہے۔ جیسے عشق کے علاوہ اور کوئی روگ وجہ آوارگی نہیں ہو سکتا۔)

یہ باتیں عجیب سناتے ہو وہ جینے سے بے آس ہوئے
اک نام سنا اور غش کھایا، اک ذکر پہ آپ اداس ہوئے

وہ علم میں افلاطون سنو، وہ شعر میں تلسی داس ہوئے
وہ کالج والج چھوڑ چکے، وہ بی اے، ایم اے پاس ہوئے

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو، کیا انشا جی سودائی ہیں؟

(پھر انشا جیسے پڑھے لکھے بہلول دانا پر ایسی وارستگی کی تہمت)

گر عشق کیا ہے تب کیا ہے، کیوں شاد نہیں، آباد نہیں
جو جان لئے بن ٹل نہ سکے، یہ ایسی تو افتاد نہیں

کیا ہجر کا دارو عنقا ہے؟ کیا وصل کے نسخے یاد نہیں؟
یہ بات تو تم بھی مانو گے، وہ قیس نہیں فرہاد نہیں

یہ باتیں (خیر اگر یہ سچ بھی ہے؟then what)

وہ لڑکی اچھی لڑکی ہے، تم نام نہ لو ہم جان گئے

وہ جس کے لانبے گیسو ہیں، پہچان گئے پہچان گئے
ہاں ساتھ ہمارے انشا بھی، اس گھر میں تھے مہمان گئے

پر اس سے تو کچھ بات نہ کی، انجان رہے انجان گئے

یہ باتیں تم انشا جی کا نام نہ لو (ارے یہ بات ہے لیکن بھائی اس لڑکی کے پیچھے یہ وحشت؟ بات جچتی نہیں)

جو ہم سے کہو ہم کرتے ہیں، کیا انشا کو سمجھانا ہے؟
اس لڑکی سے بھی کہہ لیں گے، گو اب کچھ اور زمانہ ہے

یا چھوڑیں یا تکمیل کریں، یہ عشق ہے یا افسانا ہے
یہ کیسا گورکھ دھندا ہے ____ یہ کیسا تانا بانا ہے

یہ باتیں کیسی باتیں ہیں، جو لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشا جی کا نام نہ لو، کیا انشا جی سودائی ہیں؟

لو جی گہری ہو چلی اب کوئی کتاب پڑھوں گا۔ سوؤں گا ڈیڑھ بجے۔ ہائے ہائے ہائے۔ اچھا میاں سستا لے۔

یہ میں تم سے نہیں دل سے کہہ رہا ہوں۔

سستا لے، اور سستاجی لے۔

وہ شخص چند روز اور ہے۔ پھر تو اس کا چہرہ نہ دیکھے گا۔ اس کی کھنکتی آواز بھی نہ سنے گا۔ بارِ الٰہا تو نے میری چیز دوسرے کو دے دی۔

تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ۔
زندگی جس کے تصور____میں لٹا دی ہم نے

یہ بات نہ اعظمی سے ہے نہ دل سے نہ اپنے آپ سے۔ اس سے آگے کچھ کہنا لکھنا غلط ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ابن انشا!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply