پی 3 سی اورین اہم کیوں ہے؟۔۔۔سید شاہد عباس کاظمی

 آپ کو یاد ہو گا کہ پی این ایس مہران پہ ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں دو طیاروں کو نشانہ بنایا گیا  ۔ یہ دونوں طیارے پی 3 سی اورین تھے۔ اور اس وقت ہم میں سے بہت کم لوگ ایسے تھے  یہ جانتے تھے کہ یہ دو طیارے نشانہ بننے پہ اس حملے سے ہونے والے نقصان کو بہت زیادہ کیوں گردانا جا رہا ہے۔ اور شاید اس حملے سے قبل اس مخصوص طیارے کا نام بھی کم لوگوں نے سنا ہو گا۔ لیکن دشمن ہوا میں تیر نہیں چلاتا۔ اُس نے چن کے اس مقام پہ نشانہ بنایا  جہاں یہ طیارے موجود تھے۔ یہ طیارے کرتے کیا ہیں۔ ان طیاروں کی اہمیت کیوں ہے۔ ان طیاروں میں ایسا خاص کیا ہے۔

پاکستانی پانیوں کے قریب آنے والے بھارتی آبدوز کا پاک بحریہ نے نہ صرف سراغ لگایا ہے بلکہ اُسے واپس جانے پہ بھی مجبور کر دیا ہے۔ اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جس طرح بھارت نے بالاکوٹ کی فرضی سرجیل اسٹرائیک کو اپنی کامیابی سے تعبیر کیا تھا ویسا ہی طرز عمل یہاں بھی اختیار کیا جانا تھا۔ بالاکوٹ کی فرضی سرجیل اسٹرائیک میں گرا پے لوڈ لیکن پاکستان کی فضائی حدود میں کچھ وقت گزار کے واپس چلے جانے کو بھی بھارت نے اپنی کامیابی سے تعبیر کیا (بے شک پاک فضائیہ نے ان کو نشانہ نہیں بنایا اور انہیں واپس جانے پہ مجبور کیا)۔ پاکستان نے حالات میں مزید بگاڑ سے بچنے کے لیے بھارتی فضائی طیاروں کو نشانے پہ ہونے کے باوجود نشانہ نہ بنایا۔ لیکن اسے پاک فضائیہ کی صلاحیت پہ سوال اُٹھانے کے لیے استعمال کیا۔ جس کا جواب کچھ دن بعد دوبارہ دے دیا گیا۔ یعنی بالاکوٹ میں کچھ لمحے پاکستان کی فضائی حدود میں رہنا بھی دشمن کی کامیابی تھی۔ مصلحت کوئی بھی تھی نشانہ نہ بنانے کی لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ جو واویلا انہوں نے کیا وہ اُن کا بھی حق تھا۔ پاک بحریہ نے اپنی سمندری حدود کے قریب بھارتی آبدوز کا نہ صرف سراغ لگایا بلکہ اُس کو واپس جانے پہ بھی مجبور کر دیا۔

یاد رہے کہ اطلاعات کے مطابق بھارتی آبدوز نے خود کو چھپانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی لیکن اس میں اُسے ناکامی ہوئی۔ معلومات کا حصول یقینی طور پر بھارتی آبدوز کا مشن تھا۔ اور خاموشی سے  واپس چلے جانا اُس کی کامیابی ہوتی۔ لیکن پاک بحریہ نے ایسا نہ ہونے دیا اور بھارتی بحریہ کی یہ ناکامی ہے کہ جدید آلات سے لیس آبدوز بھی پاک بحریہ کی نظروں سے اوجھل نہ رہ سکی۔ فضائیہ نے چھ ٹارگٹس لاک کیے ان کو انگیج نہیں کیا۔ یہ لاک کرنا مائرین کے مطابق انگیج کرنے سے بڑی کامیابی ہے۔ اسی طرح آبدوز کا سراغ لگا لینا اس کو نشانہ بنانے سے بڑی کامیابی ہے کہ ان کو مخالف بحریہ کی صلاحیت کا اندازہ ہو گیا ہو گا۔ اب واپس آتے ہیں پی 3 سی اورین اور بھارتی آبدوز کی جانب۔ اسی طیارے نے ہوائی جائزے کے دوران اس آبدوز کو ڈھونڈا۔ اور یہ طیارے سمندری حدود کی حفاظت کے لیے بطور خاص زیادہ وقت کے لیے اڑان بھرنے کی خصوصی صلاحیت رکھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب آپ دماغ میں پی این ایس مہران حملے کو یاد کیجیے جہاں یہی دو طیارے نشانہ بنے تھے۔ تو آپ کے لیے گتھیاں سلجھانے میں وقت نہیں لگے گا کہ ان دو طیاروں کو ہی کیوں نقصان پہنچانا مقصد تھا۔ وجہ یہی تھی کہ ہماری سمندری حدود کی حفاظت میں دراڑ ڈالی جا سکے۔ جو کہ ممکن نہیں ہو پایا۔ دشمن ایک دن میں فیصلہ نہیں کرتا چال چلنے گا۔ بلکہ وہ سالوں پہلے منصوبہ بندی کرتا ہے بات صرف ایک پی این ایس مہران حملے کی ہی نہیں ہر دہشت گردانہ حملے کے پیچھے ایک مکمل سوچ کارفرما ہے۔ لیکن ہمیں اپنے اداروں پہ بھروسہ ہے۔ اپنی افواج پہ یقین ہے کہ انہوں نے نہ صرف ہماری حفاظت کو یقینی بنایا ہے بلکہ ان میں صلاحیت ہے کہ وہ مشکل سے مشکل دشمن سے ٹکر لے سکیں۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply