اُردو ہے جس کا نام۔۔انجینئر عمران مسعود

25 فروری 1948 میں پاکستان کی قومی زبان اردو کو تسلیم کر لیا گیا۔ لیکن آج تک بطور سرکاری زبان رائج نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی نصاب کو اس کے مطابق مرتب کیا گیا۔ دوسری جانب ہر سال بھارت میں عالمی یوم ِ اُردو 9 نومبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ تاریخ اردو کے مشہور شاعر اور برصغیر کے فلسفی علامہ محمد اقبال کا یوم پیدائش ہے۔ کچھ لوگ اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان بتانے کی مخالفت کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ اردو تقاریب میں غیر مسلم اردو شاعروں، مصنفوں، مدرسوں اور دیگر محبان اردو کی کوششوں کو سراہنے اور آگے کرنے کی ضرورت ہے۔ ان ہی میں سے کچھ پروفیسر جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سنٹر فار انڈین لینگویجز اور آل انڈیا ایسوسی ایشن آف اردو ٹیچرز آف کالجز اینڈ یونیورسٹیز نے مطالبہ کیا ہے کہ 31 مارچ کو یوم اردو منانا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن پنڈت دیو ناراین پانڈے اور جے سنگھ بہادر نے اردو کے حقوق کے لیے لڑتے ہوئے اپنی جانیں دیں۔ اقبال کے برعکس یہ دو حضرات اردو کے شاعر نہیں تھے۔ یہ لوگ اردو محافظ دستہ کے حامی تھے جس نے بھوک ہڑتال کی تھی تاکہ اردو کو اتر پردیش جیسی ریاستوں میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔ پانڈے بھوک ہڑتال پر 20 مارچ، 1967ء پر کانپور میں کلکٹر کے دفتر کے رو بہ رو بیٹھے تھے جب کہ سنگھ ایک گروہ کا حصہ تھے جس نے لکھنؤ میں قانون ساز اسمبلی کے رو بہ رو دھرنا دیا۔ پانڈے 31 مارچ کو وفات پا گئے جب کہ سنگھ نے اس کے کچھ دنوں بعد اردو کی راہ اپنی جان کی قربانی دی۔

قیامِ پاکستان کے بعد، پاکستانی قومیت کے تصّور کے فروغ نہ پا سکنے کی جہاں دیگر سیاسی، مذہبی، معاشی وجوہ تھیں ،وہیں تہذیبی اور ثقافتی حوالوں سے بھی کئی تضادات اور اختلافات موجود تھے۔ یہ اختلافات حکومتی سطح پر بھی تھے اور پاکستانی معاشرہ کے مختلف طبقات میں بھی گہرے اور واضح تھے ۔پاکستان کی 7۔57 فیصد آبادی کی مادری زبان اردو ہے۔ تاہم قیامِ پاکستان کے فوری بعد بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی پُرخلوص وضاحت اور پاکستان کی تمام صوبائی زبانوں کے حقوق کی 21 اور 24 مارچ 1948ء کو ڈھاکہ میں دی گئی ان کی ضمانت کے باوجود بعض طبقات کی جانب سے لسانی مفاہمت کی بجائے مخاصمت پر مبنی پروپیگنڈہ جاری رہا۔

اس کے ردِ عمل میں حکومتی سطح پر بعض ایسے انتظامی اقدامات کیے گئے جس کی وجہ سے پسِ پردہ قوتیں پاکستان میں اُردو زبان کو متنازع اور اسے دیگر علاقائی زبانوں، خصوصاً بنگلہ زبان، کی حریف اور مدِ مقابل بنا کر پیش کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اسلام کے نظریہ قومیت سے قطع نظر، پاکستان ایک کثیر القومی ملک ہے۔ 1947ء سے 1955ء کے دوران، پاکستان کے دونوں حصوں میں بسنے والی مختلف لسانی قومیتوں کی زبانوں کو ہائی  سکول کی سطح تک ذریعہ تعلیم بنایا گیا ،جبکہ اُردو کو لازمی مضمون کے طور پر پانچویں جماعت سے شروع کیا گیا۔1956ء میں مملکت کے پہلے آئین میں اُردو اور بنگلہ ہر دو، زبانوں ،کو قومی زبانیں تسلیم کر لیا گیا۔ یہ آئین پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ نے ہی دیا۔ یوں مسلم لیگ اپنے تاریخی مؤقف سے ہٹ گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس سے قومی زبان کا مسئلہ حل تو نہ ہوا لیکن نئے لسانی مسائل ضرور پیدا ہو گئے۔ 1955ء سے 1968ء کے دوران میں بلوچستان، شمال مغربی سرحدی صوبہ( اب صوبہ خیبر پختونخوا) اور پنجاب میں اُردو کو پرائمری سے ذریعہ تعلیم بنایا گیا۔ تاہم صوبہ سندھ اور بنگال ( اب بنگلہ دیش) میں یہ پانچویں جماعت سے ذریعہ تعلیم بنائی گئی۔ 1968ء سے 1977ء کے دوران میں اُردو کو قومی زبان کا درجہ ملا مگر ساتھ ہی دیگر علاقائی زبانوں کی بھی اس طرح سرپرستی کی گئی کہ وہ اپنے اپنے حلقۂ اثر میں مقامی سطح تک ذریعہ تعلیم بن سکیں۔ تاہم صوبہ پنجاب کے علاوہ دیگر تینوں صوبوں میں یہ یونیورسٹی کی سطح تک بھی ذریعہ تعلیم بنی رہیں۔ 1977ء کے بعد، اُردو کی بطور قومی زبان تمام صوبوں میں تعلیم و تدریس ہوتی رہی ،تاہم دیگر علاقائی زبانیں بھی پرائمری کی سطح تک پڑھائی جاتی رہیں۔ بلوچستان واحد صوبہ تھا جہاں اُردو کو پہلی جماعت سے ہی لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جانے لگا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply