پانی کی صورت میں زندگی کا بحران۔۔نادر گوپانگ

کائنات میں یوں تو بے بہا چیزیں ایسی ہیں جو زندگی کےلئے بہت ضروری ہیں لیکن پانی وہ چیز ہے جس سے زندگی کی ابتداء ہوئی، لمحہ ابتداء سے لیکر آج تک پانی زندگی کا استعارہ بن چکا ہے، گویا اس کے بغیر زندگی کا وجود ممکن نظر نہیں آتا، ماحولیاتی عوامل سے لیکر لہلہاتی فصلوں، درختوں اور جانوروں سے لیکر انسانوں تک، غرض یہ کہ ہر ایک زندگی اسی کی مرہون منت ہے. پانی کی اہمیت و ضرورت سے کوئی بھی انسان انکار کا سوچ بھی نہیں سکتا. انسانی تہذیبوں کی شروعات بھی پانی کے آنگن سے ہوئی  اور یہی پانی ہی تھا جس کے بحران اور بارشوں کی کمی کی وجہ سے برپا ہونے والے قحط بھی انسانوں کےلئے بڑے پیمانے پر جان لیوا ثابت ہوئے اور دوسری طرف سیلابوں اور طوفانوں نے آج تک انسان کی ناک میں دم کر کے رکھا ہوا ہے!

موجودہ عہد کے انسان نے جدید ترقی کی بنیاد پر قدرتی وسائل پر ملکہ تو حاصل کر لیا ہے اور انہیں انسانی مفاد کےلئے قابل عمل بنانے کا گر بھی سیکھ لیا ہے لیکن تمام ذرائع پیداوار پر چند لوگوں کا قبضہ ہونے کی وجہ سے فطرت کے ان تحائف کا بھونڈے طریقہ کار کے تحت بےدریغ استعمال کیا جارہا ہے، جس کا مقصد نسل انسانی کو سہل کرنے کی بجائے دولت کے انبار لگانا ہے، اس گھناونے کھیل میں ایک طرف تو انسانوں کی زندگی بدتر ہوتی جا رہی ہے. خود کو جدید انسان کے طور پر روشناس کرانے کی خاطر اس اہم ترین مسئلے پر کھوکھلی نعرہ بازی نظر آتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ لوٹ کھسوٹ کو بھی عیاری کے ساتھ جاری   و ساری رکھا جاتا ہے.

عالمی افق پر پانی کا بحران ایک بہت بڑے مسئلے کے طور پر سامنے آیا ہے، دنیا کے کئی   ملکوں میں پینے کا پانی کولڈ ڈرنک سے بھی مہنگا ہے، کئی  ایسے ممالک ہیں جو آنے والی  دہائیوں میں پانی کے شدید بحران کا شکار ہوں گے جن میں پاکستان بھی شامل ہے. قیام پاکستان کے وقت ہر ایک پاکستانی کےلئے پانچ ہزار کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جو 2011 میں کم ہو کر 1394 کیوبک میٹ فی کس رہ گیا ہے. وزارت منصوبہ بندی کے سالانہ پلان 2013-14 میں کہا گیا کہ پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 9 فیصد ہے جب کہ دنیا بھر میں یہ شرح 40 فیصد ہے. پانی کےلئے مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے 1947 سے لیکر اب تک 21 چھوٹے، بڑے سیلابوں کی تباہی کی وجہ سے کم ازکم 37 بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے. پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورسز کے مطابق یہاں کی 62 فیصد شہری او ر 82 فیصد دیہی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے. عالمی سطح پر صاف پانی کی کمی والے دس ممالک میں پاکستان کا شمار ہوتا ہے. تھرپارکر کی 12 لاکھ تک آبادی کا زیادہ تر انحصار مون سون میں ہونے والی بارشوں پر ہے، کراچی ہو، گوادر ہو، جنوبی پنجاب ہو یا کوئی  بھی شہر ہو، قصبہ ہو، دیہات ہو، صاف پانی کی ایک ایک بوند کےلئے ترس رہے ہیں.

ہسپتالوں میں 20 -40 فیصد بیڈز پر گندہ پانی پینے کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں ( ٹائفائیڈ، ہیضہ، ہیپاٹائٹس، پیچس، گردے اور مثانے میں پتھری وغیرہ) سے متعلق مریضوں پر مشتمل ہیں. تمام اموات کے ایک تہائی  کی وجہ یہی ہے. ہزاروں بچے سالانہ ہیضے کی وجہ سے مرتے ہیں اور لاکھوں لوگ گندے پانی سے متعلق بیماریوں میں مبتلاء ہوتے ہیں.

مذکورہ بالا اعداد و شمار سے لگتا نہیں ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے  ہیں. کیا ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ نہیں ہے کہ پانی کو پینے کے قابل بنایا جا سکتا ہو؟ اس کا جواب ہمیں منرل واٹر کے نام پر بکنے والے پانی کی بھرمار دیکھ کے واضح ہوتا ہے. جہاں آبادی کی اکثریت کے پاس صاف پانی تک رسائی  نہیں ہے وہاں پر منرل واٹر کی سینکڑوں کمپنیاں بھانت بھانت کے ناموں سے “معیاری پانی” کے نام پر لوگوں کو لوٹ رہی ہیں، دکانوں پر، لاری اڈوں پر اور مختلف تفریحی مقامات پر منرل واٹر کی لاتعداد کمپنیوں کا پانی اور نام دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، ان میں سے زیادہ تر کا پانی مقامی سطح پر تیار کیا جارہا ہے جو صاف پانی کے معیار پہ پورا نہیں اترتا، لیکن اس پانی کی قیمت اتنی ہی ہے جتنی کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے پانی کی. آبادی کی اکثریت تو ویسے بھی پانی کو خریدنے کے قابل نہیں ہے اس لئے بیماریاں اور اموات ان کا مقدر بن جاتا ہے. ان کمپنیوں کے معیار کو جانچنا، قیمتوں کا تعین اور اس حوالے سے اقدامات کرنا کس کا کام ہے، کہیں یہ کسی بیرونی ملک کی سازش تو نہیں ہے؟

صرف انسان نہیں بلکہ جانور بھی اس مسئلے سے دوچار نظر آتے ہیں، نہری نظام اس حد تک بوسیدہ ہو چکا ہے کہ فصلوں تک پہنچنے سے پہلے پانی کی خطیر مقدار راستے میں ہی ضائع ہو جاتی ہے اور الٹا کچھ علاقوں کےلئے نقصان کا باعث بنتی ہے، نہروں، نالوں اور پانی کے دوسرے ذرائع پر بڑے جاگیرداروں کی اجارہ داری کا نتیجہ غریب کسانوں کےلئے فاقوں کی صورت میں نکلتا ہے.

پانی کے آلودہ ہونے کی وجوہات پر غور کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ فیکٹریوں، ہسپتالوں اور گھروں کا فضلہ بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے کھلے پانی میں یا زیر زمین پانی کے اندر ڈالا جاتا ہے. فیکٹریوں کے فضلہ میں لیڈ، مرکری، ایسبسٹاس، نائٹریٹس اور سینکڑوں ایسے زہریلے کیمیکل ہوتے ہیں جو پانی کو خطرناک حد تک نقصان دہ بنادیتے ہیں. پلاسٹک کے لفافے اور دوسری مصنوعات بھی کوئی  کسر نہیں چھوڑتیں، نکاسی آب کے لئے بہتر طریقہ کا نہ ہونے کی وجہ سے بھی زیر زمین پانی بری طرح متاثر ہوتا ہے، مختلف دھاتیں جن میں آرسینک، آئرن، وغیرہ اور بیکٹیریا جیسے چھوٹے جاندار بھی پانی کو پینے کے قابل نہیں چھوڑتے.

پاکستان میں موجودہ سیاست کا محور عوامی مسائل کی بجائے شخصیات کی بے ہودہ مفاد پرستی اور نان ایشوز ہیں، بجٹ کا بہت بڑا حصہ بیرونی قرضوں اور سیکورٹی کے نام پر ہڑپ کر لیا جاتا ہے، باقی ماندہ حصے کو نمائشی ترقی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے، اسی طرح ہر آنے والی حکومت، عوام کو محرومیوں،پسماندگی اور غربت میں دہکیل دیتی ہے اور سارے مسائل کی وجہ دوسری سیاسی جماعتوں کو گردانتی ہے، ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ان تمام مسائل کی بنیادی وجہ اس سرمایہ دارانہ نظام کا بحران ہے جس کو بچانے کےلئے یہ مقامی سیاستدان اپنے عالمی آقاوں کا راگ الاپتے ہیں کیونکہ اس نظام کے ساتھ ان کے طبقے کے ذاتی مفاد جڑے ہوئے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors london

پانی کے بحران کو حل کرنے کےلئے بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، زراعت کے پانی سے لیکر پینے کے پانی کےلئے ٹھوس اقدامات ہونے چاہیں، دیوہیکل پیمانے پر انفراسٹرکچر کی تعمیر ضروری ہے، پانی کو گندہ ہونے سے بچانے کےلئے آلودگی کو کنٹرول کرنا پڑے گا، جس کےلئے بہت زیادہ سرمایہ درکار ہے جو چند لوگوں یا خاندانوں کے پاس مرتکز ہوتا جارہا ہے، ان تمام مسائل کا حل اس خونی نظام کے خلاف سیاسی جدوجہد میں مضمر ہے تاکہ ایک منصوبہ بند معیشت کی بنیاد رکھی جاسکے جو عوام کی بنیادی ضروریات کی ضامن ہو.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply