• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • امروز- محبت کا لوک گیت جسے نام کی ضروت نہیں ۔۔سلیم پاشا/انٹر ویو،آخری حصہ

امروز- محبت کا لوک گیت جسے نام کی ضروت نہیں ۔۔سلیم پاشا/انٹر ویو،آخری حصہ

میرے خیال میں اس جہاں میں تمام تخلیق کار Misfit ہیں یہ کسی اور نگر کے، کسی اور جہاں کے باشندے ہیں یا کسی اور فضا کے پرندے ہیں جو غلط جگہوں اور نامناسب ماحول میں اُتار دیے گئے ہیں۔ موت ہی ان کو نجات دلاتی ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ خیال غلط ہے کہ “ناگ منی” نے شِوکماربٹالوی کو متعارف کرایا۔ وہ تو پیدائشی طور پر بڑا شاعر تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ “پریت لڑی” سے ناراض ادیبوں نے “ناگ منی” کا رخ کیا جن میں شِوکمار بھی تھا۔ اس کو تو وہاں پر دل کی چوٹ لگی تھی وہ بھلا وہاں کیسے ٹھہرتا۔ شِوکمار اس گھر میں آ کر رہتا۔ اپنی نظموں اور گیتوں کونچی آواز میں گاتا رہتا۔ ایک بار امرتا نے کہا: چپکے سے اس کو ریکارڈ کر لو۔ میں نے ٹیپ ریکارڈر کا ریکارڈنگ بٹن دبایا مگر کچھ خرابی کے باعث ریکارڈنگ نہ ہو سکی۔ شاید اس کی آواز ریکارڈ کرنا ہمارے مقدر میں نہ تھا۔ پھر ہم اُس کو صرف سننے لگے۔ آج بھی جب اُس کی یاد آتی ہے تو اپنے دل کے بٹن کو دبا کر اُس کی آواز کو سن لیتا ہوں۔ ہمارے گھر کے دروازے پر اُس نے لکھا تھا۔
“اَج دن چڑھیا تیرے رنگ ورگا”
ہندی کی مشہور ادیبہ مہادیوی ورما ایک بار ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں سفر کر رہی تھی۔ اُس نے ایک ادیب کو دیکھ کر منہ دوسری جانب کر لیا کہ کوئی دیکھ نہ لے اتنی بڑی ادیبہ تھرڈ کلاس میں بیٹھی ہے۔ مگر امرتا کو کبھی اس بات کا complex نہیں رہا۔ اُس نے میرے ساتھ فٹ پاتھ پر بیٹھ کربھی چائے پی۔ بسوں میں سفر کیا۔ حالاں کہ وہ اس جدوجہد کے دور میں بھی ایک بہت بڑی ادیبہ کے طور پر خود کو منوا چکی تھی۔
پنجابی کے اکثر لکھاری اپنی کتاب چھپوانے کے لیے پبلشروں کی منتیں کرتے پائے جاتے ہیں، رائیلٹی تو بہت دور کی بات ہے۔ مگر امرتا اپنی کتاب چھپنے سے پہلے اس کی رائیلٹی کی بات کرتی تھی۔ میں نے آج تک امرتاکے منہ سے لفظ سوری نہیں سُنا۔ اُس نے زندگی بھر ایسا کام کیا ہی نہیں جس پر اُسے سوری کہنا پڑے۔ البتہ بہت سے لکھاریوں کو امرتا سے سوری کہتے میں نے کئی بار دیکھا۔
خوشونت سنگھ نے ایک بار کہیں لکھا۔ امرتا نے پوری زندگی میں ایک ہی نظم لکھی ہے “اج آکھاں وارث شاہ نوں”۔ تو کیا باقی ساری زندگی امرتا نے کچھ نہیں لکھا۔ وہ تو یہ بھی کہتے تھے امرتا کی ساری زندگی کی کہانی بس اتنی ہے کہ ایک چھوٹے سے “رسیدی ٹکٹ” پر آ جائے۔ امرتا نے خوشونت سنگھ کی اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی سوانح عمری کا نام “رسیدی ٹکٹ” رکھاکیوں کہ اسے اپنے تخلیقی وجود پر اعتماد تھا۔
دیوندرستھیارتھی بزرگ لکھاری ہیں۔ انہوں نے ایک بار کسی جگہ لکھا۔ امرتا اپنے بیٹے کی عمر کے بندے کے ساتھ اکیلی رہتی ہے۔ وہ لکھ کر بھول گیا یا پھر “ناگ منی” کی کشش اُسے ہمارے دروازے تک لے آئی۔ امرتا نے وہ پڑھ کر خاموشی اختیار کی اور ہمیشہ کی طرح کوئی جواب نہ دیا کیوں کہ “انڈین” اور “واہگہ چار” کے لکھاری امرتا اور میرے تعلق پر اس طرح کی باتیں اکثر لکھتے اور چھاپتے رہتے تھے۔ ہمارادروازہ چوں کہ کھلا رہتا تھا، وہ صاحب سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ رہے تھے کہ امرتا نے آتے دیکھ لیا۔ امرتانے پوچھا، کیوں آئے ہو؟ اُس کو اپنا کہا یاد آ گیا۔ فوراً بولا معافی مانگنے آیا ہوں۔ امرتا نے جواب میں اتنا کہا یہ معافی کی جگہ نہیں۔ تم وہیں پر جا کر معافی مانگو جہاں تم نے جرم کیا تھا۔ وہ الٹے قدموں لوٹ گیا۔
پنجابی کا کوئی اخبار رسالہ ایسا نہیں تھا جس میں ہمارے متعلق کچھ نہ کچھ زہر نہ اگلا گیا ہو۔ میری کوشش ہوتی کہ اس میں سے یہ سب کچھ امرتا کے دیکھنے سے پہلے نکال کر پھاڑ دوں۔ امرتا کے خلاف تو ادیبوں نے ایک محاذ تو ہمیشہ سے کھڑا کیا ہوا تھا اور اس کی وجہ صرف امرتا کا تخلیقی ذہن تھا۔ یہ بات اُن کے حلق سے کبھی نہ اُتری کہ ایک عورت اُن سے بڑھ کر لکھے اور جانی جائے۔ یہاں پر پنجابی کے ایک بڑے لکھاری بلونت گارگی کی مثال دیتا ہوں۔ اُس نے بہت سے ادیبوں شاعروں کے خاکے لکھے ہیں۔ کئی بارہ اُس نے امرتاکے بارے میں بھی برا لکھا اورہربار ہمارے ہاں آ کر معافی بھی مانگی۔
اندرجیت گجرال جو کہ ہمارے سابقہ پردھان منتری بھی رہے اُن کے چھوٹے بھائی ستیش گجرال جو کہ ایک بڑے اچھے مصور ہیں انہوں نے دہلی میں اپنی تصویروں کی نمائش کا اہتمام کیا۔ مختلف شعبوں کے بڑے بڑے لوگ اس نمائش میں موجود تھے۔ بلونت گارگی اور اجیت کور بھی تھے۔ ایک خوب صورت لڑکی نے مصور کے پاس آ کر کہا کہ مجھے آپ کی فلاں تصویر بہت اچھی لگی ہے۔ کیا آپ وہ پینٹنگ مجھے دے سکتے ہیں۔ آرٹسٹ گڑبڑا گیا۔ ہر تخلیق کار تھوڑاسا کنجوس بھی ہوتا ہے۔ تاہم اس نے خود کوسنبھالااورشرارتاً کہا، ہاں بے شک لے جاؤ لیکن تمھیں اپنے تمام کپڑے اُتار کر اُس تصویر تک جانا ہو گا اور اسی حالت میں تصویر کو دیوار سے اُتار کر لے جانا ہو گا۔ لڑکی نے ایک نظر مصور کے چہرے پر ڈالی اور پھر یک بہ یک اُس نے اپنے تمام کپڑے اُتار دیے۔ ننگی حالت میں پینٹنگ کی جانب چلتی گئی اور سٹول پر چڑھ کرتصویر اتارلی، کپڑے پہنے اور تصویر لے کر گھر چلی گئی، ساری محفل ہکا بکا کھڑی رہ گئی۔
اس واقعے کو دونوں لکھاریوں نے اپنے اپنے انداز میں لکھا ہے۔ اجیت کور نے لکھا کہ وہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ اُس لڑکی کے گھر تک گئی۔ وہ سہیلی اُس پینٹنگ کو خریدنا چاہتی تھی۔لیکن وہ لڑکی بالکل گنگ تھی۔ اب وہ پہلے والی شوخ اور مسکراتی ہوئی لڑکی نہ تھی۔ ایک بُت کی صورت خاموش بیٹھی تھی۔پینٹنگ کمرے کی ایک دیوارکے ساتھ اُلٹی پڑی ہوئی تھی، جیسے کوئی بے کار شے۔ جب میری سہیلی نے پینٹنگ مانگی تو اس نے اشارے سے کہا کہ وہ پڑی ہے، اُٹھا کے لے جاؤ۔ امرتا نے اجیت کور کی انھی خوبیوں کی بنا پر کہا تھا کہ اس کے پاس بجھے ہوئے الفاظ کو جلانے کا ہنر ہے۔
مگر بلونت گارگی نے اس واقعے کو جب لکھا تو اس میں جنس کو حوالہ بنایا۔ اس نے لڑکی کے خطوط پر دل کھول کر لکھا۔ جو کچھ اس نے لکھا اس کے اپنے ذہن کاشاخسانہ تھا۔
ہم فن کار لوگ زندگی کو خوب صورت بنانے کے لیے مصوری بھی کرتے ہیں، شاعری بھی کرتے ہیں اور موسیقی کے سُروں سے بھی لوگوں کو بہلاتے ہیں مگر خود اس خوب صورتی کے عمل سے دُور رہتے ہیں شاید اسی لیے یہ دنیا خوب صورت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مرتبہ کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ نے بھارتی رائٹرز کو روس کے دورے کے لیے تیار کیا۔ اس فہرست میں امرتا کا نام بھی شامل تھا۔ پنجابی رائٹرز نے جب امرتا کا نام دیکھا تو ہر ڈالی پر علاحدہ بیٹھے توتوں کی طرح نت نئے اعتراض کرنے لگے۔ بہت سے اس کوشش میں لگ گئے کہ کسی طرح امرتا کا نام اس لسٹ سے نکل جائے۔ کچھ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ امرتاکی موجودگی سے ہماری خواتین کے اخلاق پر بُرا اثر پڑے گا۔ امرتا اس ساری صورتِ حال سے بے خبر تھی۔ ایک دن سجاد ظہیر امرتا کے پاس آئے۔ وہ کچھ الجھن میں دکھائی دے رہے تھے۔ بولے بھارتی لکھاریوں کا ایک وفد رشیا جا رہا ہے۔ میری خواہش ہے کہ تم بھی اس میں شامل ہو جاؤ لیکن پنجابی رائٹرز نے تمھارے نام پر بہت اعتراض کیا ہے۔ سجاد ظہیر نے امرتا کو مشورہ دیاکہ اگر وہ ایک خط کمیونسٹ پارٹی کے صدر کے نام لکھ دیں جس میں روس جانے کی خواہش ہو، تو کام بن سکتا ہے۔ امرتا نے سجاد ظہیر کو کورا جواب دے دیا اور کہا آپ نے کیوں میرے لیے اتنا تردّد کیا۔ اس مقصد کے لیے آپ کو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ رہی بات رشیا جانے کی تو آپ نے یہ کیسے سوچا کہ میں کسی وفد کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔ میں تو جس ملک جانا چاہوں گی، اکیلے جانا پسند کروں گی۔ اگر روس کو میری ضرورت ہوئی تو وہ مجھے الگ سے دعوت بھیج دے گا۔ 1960۰ء میں روسی ادیبوں کی جانب سے امرتاجی کو دعوت نامہ آ گیا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ امرتا نے زندگی بھر کسی وفد کے ساتھ سفر نہیں کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امرتا کے پتا جی مذہبی آدمی تھے۔ انھوں نے امرتا کے حوالے سے یہی چاہا تھا کہ وہ مذہبی کوِتا ہی لکھے۔ لیکن امرتا ان پابندیوں کی قائل نہیں تھی۔ اس نے پوری حیاتی کسی پابندی کو قبول نہیں کیا۔ ایک بار میں اور امرتا کہیں دور سیر کے لیے گئے۔ وہاں بھگوان گنیش جی کی مورتی امرتا کو بہت پیاری لگی۔ وہ اسے خرید کر گھر لے آئی۔ کچھ دنوں بعد دُوردرشن والے اُن کا انٹرویو کرنے گھر آئے۔ اپنی عادت کے مطابق وہ باتیں بھی کرتے جاتے اور گھر کے کونوں کھدروں کی فلم بندی بھی کرتے جا رہے تھے۔ لائبریری میں رکھا گنیش جی کا بُت دیکھ کر انھوں نے امرتا سے کہا۔ میڈم ہمیں مورتی کے ساتھ آپ کاشارٹ لینا ہے۔ امرتا مورتی کے پاس کھڑی ہو گئی تو ڈائریکٹر کو کچھ اور سوجھا،کہنے لگا: آپ اس بُت کی پوجا کرتے ہوئے پوز بنائیں۔ امرتا نے کہا نہ میں نے عبادت کی، نہ کروں گی، ہاں تم کہو تو اس مورتی کو میں پیار کر لیتی ہوں۔ ماتھا نہیں ٹیکوں گی۔ پیار کا شارٹ لینا ہو تو لے لو۔

imroz_amrita_b_251014

آدمی کا مسئلہ ہے کہ جس کے ساتھ مکالمہ نہ کر سکے اُس کا بُت بنا لیتا ہے، پتھر کا بھی اور دِل میں بھی۔ پھر اُس کو پوجنے لگتا ہے۔ زندگی حال میں جینے کانام ہے،ماضی میں نہیں۔ جو گزر گیا اس کے غم میں پریشان ہونے میں دانائی نہیں ہے۔ مذہب حکم تو دیتا ہے مگر کوئی حکم یا بات مانتا نہیں ہے۔ امرتاپریتم کسی مذہب کو نہیں مانتی تھی۔ اس کے عقیدے پر بات ایک فقرے میں یوں کہی جا سکتی ہے:
She is religious but without any religion
جیسے وہ اپنے بچوں کے باپ کو اُس کے آخری وقت میں گھر اُٹھا کر لے آئی تھی اور پھر اُس کی مرتے دم تک خدمت کرتی رہی۔ اُس کی آخری رسوم ادا کیں۔ یہ کام کوئی مذہب والا نہ کرتا اور نہ مذہب اس کی اجازت دیتا ہے۔ یہ تو مذہب سے بالاتر سوچ والے بندے کا کام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن رابعہ بصری سے ایک صوفی ملنے آئے۔ نماز کے بعد قرآن پڑھنے کو مانگا۔ صوفی نے دیکھا کہ اس میں سے ایک آیت کو نکال دیا گیاتھا،پوچھا یہ کیا؟ رابعہ بصری نے کہا، میں نے دنیا کو محبت کی نظر سے دیکھا ہے اور نفرت کو ختم کرنا چاہا ہے، اس لیے شیطان سے نفرت والی آیت نکال دی ہے۔ نفرت کو محبت کے ساتھ replace کیا جا سکتا ہے مگر نفرت کے جواب میں نفرت دینے سے محبت جنم نہیں لے سکتی۔ جیسے اندھیرے کی ضد روشنی ہے۔ روشنی کریں تو اندھیرا غائب ہو سکتا ہے مگر اندھیرے کے سامنے اندھیرا رکھ کر روشنی نہیں پیدا کی جا سکتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امن
ہتھ وچ پھڑیا پھل
بغیر بولے کہہ سکدا اے
کہ میں امن لئی آں
ہتھ وچ پھڑی تلوار
بول کے وی نئیں کہہ سک دی
کہ میں امن لئی آں
اتہاس کہندا اے
بندہ سولائزیشن تو پہلا وحشی تے جنگلی سی
۱۹۴۷ کہندا اے
بندہ اجے وی وحشی ای
میں پوچھے بغیر نہ رہ سکاکہ امرتاجی کی زندگی میں آپ پر نظم کیوں نہیں اُتری؟
اُتری بالکل اُتری۔ نظم تو کبھی بھی نہیں رُکی۔ اُس سمے زندگی پر نظم اُترتی رہی اب کاغذ پر اُتر رہی ہے۔ یہ سلسلہ کبھی نہیں رُکا۔
تو اکھر اکھر کوِتا
تے کوِتا کوِتا زندگی
مجھے احساس تھا میں نظم لکھ سکتا ہوں اور پھر لکھنا شروع بھی کر دیا۔ احساس کبھی جھوٹا نہیں ہوتا۔ بندہ خود جھوٹ بولتا ہے۔
اُڈدے کاغذ تے
میں نظماں لکھ دا ہاں
تینوں کنیاں ملیاں
کنیاں نئیں ملیاں
مینوں یاد نئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تو میری نظموں کا مجموعہ بھی چھپ گیا ہے جس کا نام ہے “جشن جاری اے”۔ پنجابی اکیڈیمی دہلی کی جانب سے اس کتاب کو ایوارڈ دیا گیا ہے اور۳۰ ہزار روپیہ نقد بھی۔
مجھے محسوس ہواجیسے واقعی امروز کے اندر باہر ’جشن جاری ہے‘۔
مجھے محسوس ہی نہیں ہوتا، یقین بھی ہے کہ امرتاجی میرے پاس کھڑی ہے، بیٹھی ہے، چل پھر رہی ہے اور ساتھ ساتھ مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے باتیں بھی کر رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امرتا نے ہندی میں لکھنا شروع کیا تب جا کر گھر کے حالات کچھ ٹھیک ہوئے۔ لگ بھگ ایک لاکھ روپے مہینے کی آمدن ہونے لگی لیکن امرتا ہمیشہ سے دل کی بہت امیر تھی۔ بُرے سے بُرے حالات میں بھی کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ایک بار اندراگاندھی نے پنجابی لکھاریوں کو اپنے پاس بلایا۔ میٹنگ کے بعد فوٹوگرافی ہونے لگی۔ وزیراعظم درمیان میں اور ادیب شاعر دائیں بائیں ایک دوسرے کو کندھے مارتے ہوئے اپنی جگہ بنانے کے چکر میں تھے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر امرتا اس گروپ سے نکل کر، ایک درخت کے نیچے کھڑے ہو کر تماشا دیکھنے لگی۔ اندراگاندھی نے امرتا کو الگ تھلگ کھڑے دیکھا تو فوراً سمجھ گئی کہ اصل تخلیق کار کون ہے۔ اس کے بعد وہ امرتا کی سہیلی بن گئی۔ اکثر بلا کر ڈھیر ساری باتیں کرتی اور شاعری بھی سُنتی۔ اندرا کے بعد راجیوگاندھی بھی امرتا کی باتوں کو غور سے سنتا تھا۔ ایک بار اُس نے کچھ ادیبوں اور وزیروں کو اپنے ہاں بلایا اور کسی موضوع پر سب کو بولنے کا کہا۔ امرتا نے جو کہا، اُس کو میٹنگ کے بعد راجیو نے ریکارڈنگ چلوا کر اپنی کابینہ کو سنوایا اور کہا کہ یہ ہوتی ہے سچ کی آواز۔ انھی دنوں راجیو گاندھی نے امرتا کو راجیہ سبھا کے لیے نامزد کر دیا۔ امرتا نے انکار کیا کہ میں سیاست اور الیکشن کو پسند نہیں کرتی۔ جواب میں راجیو نے صرف یہ کہا: اسی لیے تو ہم نے آپ کو الیکشن اور سیاست سے بچا کر سینٹ کے لیے منتخب کیا ہے۔
امرتا جب راجیہ سبھا کے اجلاس میں شرکت کے لیے جاتی تومیں اس کا ڈرائیور بن جاتا۔ وہاں امرتا میٹنگ میں ہوتی اور میں پارکنگ میں گاڑی کے اندر ہی بیٹھا اس کا انتظار کرتا رہتا۔ ان دنوں میں نے وقت گزارنے کا یہ حل نکالا کہ اوشو کی کتابیں ساتھ لے جاتا۔ گورورجنیش کو انھی دنوں میں صحیح طور پر سمجھ پایا۔ اجلاس کے ختم ہونے پر جب امرتا پارکنگ کے دروازے پر آ کر اعلان کراتی کہ امروز صاحب گاڑی لے کر آ جائیں۔ اعلان کرنے والا مائیک پر کہتا امرتاپریتم کا ڈرائیور گاڑی لے کر گیٹ پر آ جائے۔ میں آواز سنتے ہی گیٹ پر گاڑی لے آتا۔ امرتا اکثر کہتی کہ تمھیں ڈرائیور بنا کر میں نے کچھ اچھا نہیں کیا۔ میں جواب دیتا کہ میں تمھارا ڈرائیور ہی تو ہوں۔ اچھا اب چھوڑو اور اوشو کی یہ لائنیں پڑھو اور یوں یہ چھہ سال کا عرصہ، راجیہ سبھا کا بھی کٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی کبھی ہم لمبی ڈرائیو پر چلے جاتے۔ ایک بار مدھیا پردیش جا رہے تھے کہ راستے میں ایک پولیس والے نے گاڑی روکی اور ساری گاڑی چیک کی، کچھ نہ ملا تو جانے دیا۔ آگے جا کر امرتا نے پوچھا وہ گاڑی میں کیا ڈھونڈ رہا تھا۔ میں نے کہا شراب۔ حالاں کہ عقل کے اندھے کو یہ بھی نظر نہیں آیا کہ سب سے نشیلی شے تو میرے پہلو میں بیٹھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باتیں کرتے کرتے امروز مجھے گھر کی چھت پر لے گئے۔ پوری چھت گملوں اور پودوں سے بھری ہوئی تھی۔ امروز نے مجھے ان گملوں کے بیچ میں رکھی دو کرسیوں اور میز کی طرف اشارہ کر کے بیٹھنے کو کہا اور خود ڈول میں پانی بھر بھر کر پودوں کو سیراب کرنا شروع کر دیا۔ میں نے غور کیا کہ پودے کافی تعداد میں ہیں اورامروز 80 برس کے۔ میں فوراً اٹھا اورپاس پڑی چھوٹی سی بالٹی اٹھائی اور پودوں کو نہلانا شروع کر دیا۔ امروز دیکھ کر خوش ہوئے اور بولے پاشا تمھیں ایک بات بتاؤں۔ میں اور امرتا دونوں صبح ناشتے کے بعد ان کرسیوں پر آن بیٹھتے تھے۔ پھر امرتاان پودوں کو پیار کرتیں، ان کو پانی دیتیں اور میں امرتا کو اخبار پڑھ کے سناتا تھا۔میں نے امروز سے کہا آپ روزانہ اتنے سارے پودوں کو پانی دیتے ہیں۔ ہاں بالکل۔ لیکن یہ تو بہت زیادہ ہیں۔ یار کتنے زیادہ ہیں۔ میں نے جواب دیا پورے 99 ہیں، ایک کم ایک سو۔ امروز ہنس کر بولے۔ امرتاکے بعد اب ان کو پانی دینا بھی میری عبادت میں شامل ہے۔ اگر میں نے ایک دن بھی چھٹی کر لی تو امرتا کیا سوچے گی۔ وہ سامنے بیٹھی یہی تو دیکھ رہی ہے۔ میں اسی لیے تو کبھی اس گھر کو چھوڑ کے کہیں نہیں جاتا۔ کوئی مجھے امریکہ سے بلاتا ہے تو کوئی برطانیہ، کینیڈا سے۔ میری بہن اور اس کے بچے امرتسر میں رہتے ہیں۔ چند دن پہلے میں امرتسر اپنی بہن کے پوتے کی شادی میں گیا تھا۔ صرف تین دن مشکل سے کاٹے اور واپس آ گیا۔ میرا اورکہیں دل نہیں لگتا۔ اب لوگوں کو کیا پتا میں یہاں امرتا کے گھر دیا جلائے بیٹھا ہوں۔ سو لوگ اُس کے نام پر چلے آتے ہیں۔ آپ پاکستان سے چل کر آئے ہیں اور آپ کے ہوتے ہوئے کتنے لوگ یہاں آئے۔ اگر میں یہاں نہ رہوں گا تو پھر ان کو کون اٹینڈ کرے گا۔ اب یہی میری عبادت ہے یہی میری زندگی اور یہی میری کمائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امرتا کے ناولوں پر فلمیں بھی بنی ہیں۔کچھ عرصہ پہلے اُن کے ناول “پنجر” پر ہندی کے ایک ڈائریکٹر نے فلم بنائی ہے آپ نے دیکھی؟
ہاں میں نے پہلے ناول پڑھا تھا اور پھر فلم بھی دیکھی، بہت کمال کی فلم بنی ہے، میں نے کہا۔

اکثر یہ ہوتا ہے کہ جب کسی ناول پر فلم بنتی ہے تو اس کو مکمل طور پر سلور سکرین پر منتقل نہیں کیا جاتا۔ مغرب میں یہ تجربات زیادہ ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ناولوں پر فلمیں بنتی رہی ہیں۔ یہاں بھی پورا ناول استعمال نہیں ہوا۔ یہی کچھ “پنجر” کے ساتھ بھی ہوا، اس ناول میں رشید کے دو بچے بھی ہیں جن کی بدولت ہیروئن اپنے بھائی کو بارڈر پر ملنے کے بعد چھوڑ کر واپس آ جاتی ہے لیکن ڈائریکٹر نے اس صفائی سے ان بچوں کو غائب کردیا جیسے وہ تھے ہی نہیں حالاں کہ وہ بچے اہم کریکٹر بن سکتے تھے۔
ڈائریکٹر نے یہ کہانی کو امرتاسے لینے کے بعد پہلی شوٹنگ سے پہلے ہی گھر آ کر 3 لاکھ روپے امرتا کے قدموں میں ڈھیر کر دیے تھے۔ اتنی بڑی رقم دینے کے باوجود اس نے کہا: امرتاجی میں اس سے زیادہ دے سکتا تو مجھے خوشی ہوتی۔
مجھے اس بات پر بہت دُکھ پہنچتا ہے جب پاکستان اور لہندے پنجاب میں گورمکھی کو سکھوں کی زبان قرار دیا جاتا ہے حالاں کہ جتنی perfect صوتی اعتبار سے یہ لیپی ہے وہ فارسی نہیں ہو سکتی۔ میں آپ کے سامنے بیٹھا اُردو میں کیوں لکھ رہا ہوں۔ اس لیے کہ یہ مجھے گورمکھی سے زیادہ آتی ہے۔ میں نے اُردو فارسی رسم الخط میں، ایک عمر خطاطی کی ہے، شمع رسالے کی ملازمت کے دوران، مگر میرا ووٹ اب بھی گورمکھی کے لیے ہے کیوں کہ اس میں تمام ماترے موجود ہیں۔ آپ اردو زبان کو اندازوں سے پڑھتے ہیں جیسے میرا اور مِیرا میں فرق نہیں ہو سکتا جب تک نیچے زیر نہ ڈالی جائے اسی طرح عَلم اور عِلم والی مثالیں ہیں، ڈھونڈیں تو سینکڑوں اور بھی مل جائیں گی۔ گورمکھی سکھوں کی نہیں پورے پنجاب کی زبان ہے اور اس کو پورے پنجاب میں پڑھا لکھا جانا چاہیے۔ نئی نسل جو خصوصاً مغرب میں پروان چڑھی اور آباد ہے ان کے لیے فارسی اور گورومکھی دونوں اجنبی ہیں مگر انھوں نے اپنے لیے Roman میں حل ڈھونڈ لیا ہے۔ یہ اُن کی مجبوری بھی ہے اور سہولت بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بات کا رخ ایک بار پھر امروز، امرتا اور ساحر کی تکون کی طرف موڑا۔
میں نے ساحر کو دوست اور ساتھی سمجھا۔کبھی رقیب نہ جانا۔ کبھی کوئی منفی جذبہ ہمارے بیچ نہیں آیا۔ میں نے اُسے نہ کبھی بُری نظر سے دیکھا ،نہ بُرے ذہن سے سوچا اور نہ برے دل سے سمجھا۔ ہمیشہ اسے اچھا اورپیارا انسان پایا۔ کمال کا شاعر اور خوب صورت باتیں کرنے والا دوست۔ میں نے امرتا اور ساحر کے تعلق پر ایک طویل نظم بھی لکھی ہے جس کا ایک بند ہے:
چاہت
نو سو میل کا فاصلہ
کوئی فاصلہ نہیں تھا
اور بھی ہوں گے ان دِکھ فاصلے
جو طے نہیں ہوئے
چلتے تو یہ سب فاصلے کبھی فاصلے ہی نہ رہتے
چاہت تو، کہتے ہیں ہزاروں میل چلتی رہتی ہے
اُس کی محبت گواہ ہے ،تاریخ گواہ ہے
وقت کے ساتھ دونوں، کوِتا سے بہترین کِوتا تک
نظم سے بہترین نظم تک پہنچ گئے
پر زندگی تک نہیں پہنچے
پہنچ جاتے تو دونوں کی زندگی بھی
کوِتا ہو جاتی، نظم ہو جاتی
اس نظم میں کوِتا سے مراد امرتاپریتم اور نظم سے مراد ساحر ہے۔ یہ نظم ان دونوں کا ایک مطالعہ ہے جسے میں نے دونوں کے سامنے بیٹھ کر کیا ہے۔ امرتا نئی دہلی میں رہتی تھی اور ساحر بمبئی میں۔ درمیان میں آٹھ سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ یہ فاصلہ مِٹ سکتا تھا مگر ساحر کا دھیان اس طرف نہیں تھا، گھر بسانے کی طرف امرتا کے ساتھ اکٹھے جیون بنانے کی طرف۔ ویسے بھی عشق ایک دوسرے کو پانے کا نام نہیں ہے یہ تپش تو دُور رہ کر ہی بڑھتی ہے۔
امرتا رات بھر پڑھتی اور لکھتی رہتی تھی۔ آپ دیکھ رہے ہیں میرے اور امرتا کے کمروں کے درمیان یہ ایک راہ داری ہے جس کے بیچ میں کچن ہے۔ میں اپنے کمرے میں اپنی ٹیبل پر بیٹھ کر آرٹ میں اُلجھا رہتا اور امرتا اپنے کمرے میں کتابوں اور قلم سے نبردآزما رہتی۔ رات ڈیڑھ بجے اُسے چائے کی طلب ہوتی تھی مگر وہ مجھے نہ کہتی۔ مجھے پتا ہوتا تھا۔ میں چُپکے سے کچن میں جا کر چائے بناتا اور پھر آرام سے امرتاجی کے بستر کے ساتھ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر الٹے قدموں لوٹ آتا۔ نہ میں کچھ کہتا اور نہ وہ کچھ بولتی۔ اکثر وہ آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتی تھی۔ مجھے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس وقت تخلیقی ماحول میں تیر رہی ہے اس لیے کلام مناسب نہیں۔
امرتا سے محبت تو موہن سنگھ بھی کرتے تھے۔ عمر میں وہ امرتا کے والد جیسے تھے۔ لیکن امرتا ان کی عزت بہ حیثیت اُستاد شاعر کرتی تھی اور اپنے دل میں ان کے لیے عقیدت کا جذبہ رکھتی تھی۔ مگر استادجی اپنے دوستوں کی محفلوں میں محبت کا اظہار کرتے پائے گئے۔ ایک بار انھوں نے ایک نظم جائیداد لکھ ڈالی جس میں انھوں نے اپنے عشق کو ڈھکے چھپے الفاظ میں بیان کیا۔ امرتا کے لیے چُپ رہنا مشکل ہو گیا۔ جو کہانیاں پھیل رہی تھیں ان میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ امرتا کی خاموشی سے کئی مطلب نکل سکتے تھے۔ اس کا ڈراپ سین اُس دن ہوا جب پروفیسر صاحب کپورسنگھ جی کے ساتھ ہمارے گھر آئے۔ امرتا خوف اور شرمندگی کے عالم میں تھی اور احترام بھی ملحوظ خاطرتھا۔ امرتا نے اپنی باڈی لینگویج سے یہ باورکرا دیا کہ ادھر ایسا کچھ نہیں ہے۔ کپورسنگھ سمجھ دار آدمی تھا اُس نے موہن سنگھ سے کہا:
“Don’t misunderstand her, she doesn’t love you”
امرتا نے یہ فقرہ سُنا تو کچھ ہمت بندھی اور بولی: پروفیسر صاحب میں آپ کی دوست ہوں اور آپ کا احترام بھی کرتی ہوں اور کیا چاہیے آپ کو۔ پروفیسر صاحب کچھ نہ بولے، اٹھے اور چلے گئے۔ اس کے بعد انھوں نے ایک اور نظم لکھ ڈالی جس میں امرتا کے الفاظ دہرائے۔
“میں آپ کی دوست ہوں آپ کا احترام کرتی ہوں آپ کو اور کیا چاہیے”
پیار جیسی کوئی اور شے نہیں ہے۔ جب “رسیدی ٹکٹ” میں امرتا نے پروفیسر موہن سنگھ کے بارے میں لکھا تو وہ ہمارے گھر آئے اور شکوہ کیاکہ آپ نے یہ کیوں لکھ دیا۔ اچھا ہوتا اگر یہ بھرم بنا رہتا۔ امرتا آپ نے اچھا نہیں کیا۔ پیار کا بھرم نہیں رہا۔ یہ حقیقت ہے کہ پیار ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ تیسری بات منافقت ہے اور کچھ نہیں۔
اکثرکٹر سکھ کہتے ہیں امرتا سگریٹ پیتی ہے اس لیے ہم اس کی کتابوں کو گھر کی لائبریری میں نہیں رکھتے۔ اس طرح وہ ایک بڑی رائٹر کو پڑھنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
جب امرتا نے اپنی نظم وارث شاہ والی لکھی تھی تو بھی بہت سے لکھاریوں اور مذہبی حلقوں نے شور مچایا تھا۔ سکھ کہتے تھے امرتا نے ایک مسلمان شاعرکو کیوں آواز دی اُسے گورونانک جی کو پکارنا چاہیے تھا۔ یہ تو تخلیق کار کو پابند کرنے والی بات ہے۔ آپ خود کوئی نظم لکھیں اور جسے چاہے آواز دے لیں۔ امرتا کوجتنا مذہبیوں نے برا بھلا کہا اور شاید کسی نے نہیں کہا ہوگا۔ لیکن امرتا نے کبھی کسی کو جواب نہیں دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب مہاتما بدھ ہندوستان واپس آئے تو اُن کے بارے میں مذہبی گروہوں کی جانب سے مشہور کیا جا چکا تھا کہ یہ ربّ کو نہیں مانتے۔مہاتما ایک برہمن کے پاس گئے تو اس نے غصے اور نفرت میں آپ کے چہرے پر تھوک دیا۔ آپ نے بڑے تحمل سے تھوک کو اپنی چادر سے صاف کیا اور کہا آپ نے کچھ اورکہنا ہے۔ وہ برہمن پہلے توحیران ہوا پھر کھسیانا ہو کر یہ سوچتے ہوئے وہاں سے کھسک گیا کہ اس نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا اورمہاتما کا ردعمل کتنا مختلف رہا۔ خیر وہ دوسرے دن مہاتما کی خدمت میں حاضر ہوا اور قدموں میں گر کر معافیاں مانگنے لگا۔ بُدھ نے اُسے اٹھا کر سامنے بٹھالیا اور کہا: تم تو، کل والے انسان ہی نہیں ہو، پھر معافی کِس بات کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ایک بار پاکستان گیا تھا، لائل پور دیکھنے اور لہور دیکھنے، جہاں میں نے اپنی زندگی کی جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ لکشمی چوک گیا اور ہیرامنڈی بھی۔ پتا ہے کیوں؟ میں وہاں زاہدہ پروین سے ملنے گیا تھا۔ میں اُس کی کافیوں کا بڑا مداح تھا۔ جب کوئی آدمی کسی فن کار سے متاثر ہوتا ہے تو لازماً اُس کا ایک امیج اپنے من میں بنا لیتا ہے جو کہ بہت سندر ہوتا ہے۔ میں زاہدہ پروین کے ریکارڈ خرید کر رکھ لیتا تھا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب میرے پاس گراموفون بھی نہیں تھا، مگر خرید کر اس لیے رکھ لیتا تھا کہ جب گراموفون میرے پاس آئے گا تو شاید اس وقت یہ ریکارڈ مارکیٹ سے نہ مل سکیں۔
میں صبح سویرے ہی ہیرامنڈی پہنچ گیا حالاں کہ اس وقت اس بازارکے سبھی لوگ سوئے ہوتے ہیں۔ پولیس نے پوچھا، کدھر جانا ہے۔ میں نے کہا زاہدہ پروین سے ملنے جانا ہے۔ پولیس والوں کے بعد، زاہدہ پروین کے گھر کے کارندوں نے پوچھا: کیوں ملنا ہے؟ میں نے کہا میں اتنی دور، ہندوستان سے انھیں ملنے آیا ہوں۔ وہ سوئی ہوئی تھیں، اُن کو جگا کر لایا گیا۔ زاہدہ پروین کو دیکھ کر میں ایسے خوش ہوا جیسے کسی بچے کی خواہش پوری ہو گئی ہو۔ مگر زاہدہ پروین کے چہرے پر ناگواری تھی۔ انھوں نے کہا، اچھا مطلب کی بات کریں کیوں آئے ہیں مجھ سے ملنے؟ میں اپنا مدعا دہرایاتو بولیں: اچھا! حیرت ہے آپ میری کافیاں سُن کر اتنی دور سے ملنے چلے آئے ہیں! بہ ہر حال اس میں میری اپنی حماقت کا عمل دخل بھی تھا۔
ملکہ پکھراج ہندوستان آئیں۔ امرتا نے اُن کو سُنا۔ بہت اچھا گانے والی ہیں۔ امرتا نے ان سے پوچھا آپ کو خود کون سا گانے والا اچھا لگتا ہے۔ ملکہ پکھراج نے جواب دیا حامد علی بیلا۔ وہ نہ پیسوں کے لیے گاتا ہے اور نہ شہرت کے لیے۔ وہ صرف اپنے مرشد کے عشق اور اپنی روح کی تسکین کے لیے گاتا ہے۔ امرتا خود بھی بیلا کی آواز کی دیوانی تھی۔ جب تک ریڈیو لاہور کی نشریات دہلی میں سنائی دیتی رہیں، ہم اس آواز سے اپنی روحوں کوتازہ کرتے رہے اور پھر جب ریڈیو پر یہ ممکن نہ رہا تو بازار سے کیسٹیں وغیرہ لے آتے۔
پاکستان سے الیاس گھمن ہمارے ہاں وارث شاہ صاحب کے مزار کی چادر لے کر آئے۔ انھوں نے امرتا کو پنجاب کی بیٹی اور مرشد وارث شاہ کی اصل وارث قرار دیا۔ سبز چادر اوڑھ کر امرتا ایک بچے کی طرح خوش نظر آئی۔ ایسے بچے کی طرح، جس کی کوئی بہت بڑی خواہش پوری ہو گئی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلزار کے بارے میں آپ نے کل کچھ کہا تھا۔ وہ بہت اچھالکھنے والا ہے۔ اس سے بڑا ڈائریکٹر اور سب سے بڑھ کر بہت بڑا انسان ہے۔ ابھی کچھ دیر بعد ہم دونوں مارکیٹ تک جائیں گے وہاں سے میں آپ کو وہ سی ڈی خرید کر دینا چاہتا ہوں جو گلزار نے امرتا کی نظموں پر تیار کی ہے۔ اس سی ڈی کے آخر میں اس نے میری ایک نظم بھی شامل کی ہے۔ اس کی تقریب رونمائی میں اُس نے مجھے جہاز کا ٹکٹ بھجوا کر بمبئی بلایا تھا۔

گلزارکے اندر کا دیہاتی آدمی اُس کی تحریروں میں جا بہ جا جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ Creative آدمی کا Nostalgia عمر بھر اُس کے سنگ سفر کرتا ہے اور یہ دُکھ اُس وقت دو آتشہ ہو جاتا ہے جب انسان ہجرت کے عمل سے گزر کے آیا ہو۔ اُس کی اپنی دھرتی، اپنے لوگ، اپنا ماحول، درخت پرندے سب کچھ اسے ایک گم گشتہ جنت کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔
گلزار اور راکھی کا میل ہم سب کو بہت اچھا لگا۔ دونوں بہت سمجھ دار اور تخلیقی ذہنوں کے مالک مگر دونوں کا بس نہ سکنا سمجھ میں نہ آیا۔ امرتا اور پریتم سنگھ کی علاحدگی تو سمجھ میں آتی ہے کہ دونوں میں ذہنی ہم آہنگی نہ تھی لیکن گلزار اور راکھی دونوں ہی آرٹسٹ تھے۔ پھر یہ انجام کیوں؟ دُکھ ہوتا ہے۔
دھرتی سے علاحدگی کا دُکھ بندے کو مار دیتا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں جہاں لاکھوں لوگ قتل ہوئے وہاں لاکھوں بے گھر بھی ہوئے اور لاکھوں گھر اُجڑے بھی۔ لکھاریوں کو بھی اس آگ سے گزرنا پڑا۔ امرتا، گلزار، پروفیسر موہن سنگھ، اجیت کور، شِوکمار بٹالوی اور گجرال جیسے دانش وروں کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے۔ منٹو، جوش، حمید اختر، احمد راہی، جیسے بڑے نام اُدھر پاکستان چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دوران میں ایک پیاری سی لڑکی کی ذرا سی دیر کے لیے آکرماحول پرطاری اداسی کو معدوم کرگئی۔ اس نے اپنا نام پریانکا بتایا۔ امروز نے شرارتی لہجے میں مجھے بتایا:یہ میرے پوتے کی گرل فرینڈ ہے۔ نوراج کا بیٹا جو آج کل ممبے میں کمپیوٹر اینی میشن میں کام کرتا ہے، اُس نے بڑی اچھی فیلڈ چن لی ہے۔ نوراج کی اولاد اس کے بالکل برعکس ہے۔ دونوں پوتا اور پوتی مجھ سے بے انتہا پیار کرتے ہیں۔ پوتی کالج میں پڑھ رہی ہے اور پوتا کما رہا ہے۔ مجھے پنجابی ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے جو ۳۰ ہزار روپے کتاب پر ایوارڈ کے ساتھ ملے تھے وہ میں نے آدھے آدھے دونوں کے اکاؤنٹ میں ڈال دیے ہیں۔ مجھے اس عمر میں پیسوں کی کیا ضرورت۔ میرا خرچہ میرے آرٹ ورک سے نکل آتا ہے۔
اجیت کور امرتا کی بڑی پیاری سہیلی تھی۔ اس کی بیٹی بھی بڑی پیاری ہے ارپنا، جو آرٹسٹ ہے۔ کبھی امرتا اور میں نے چاہا تھا کہ ارپنا ہماری بہو بن جائے مگر شاید ان دونوں کا سنجوگ نہیں لکھا تھا۔ اجیت کور نے اپنی آرٹ اکیڈیمی کے لیے گورنمنٹ کو درخواست دے رکھی تھی۔ اپنے ادارے کا ایک لیٹر پیڈ بھی بنا رکھا تھا جس پر امرتاپریتم کا نام بہ طور پریذیڈنٹ لکھا ہوا تھا۔ امرتا اس بات سے بے خبر تھی۔ ایک بار سرکار کے ایک افسر نے امرتا کو جگہ کی منظوری کی مبارک باد دی۔ امرتا نے پوچھاکون سی جگہ؟ تو اس نے اجیت کورکی درخواست کے حوالے سے ساری بات بتا دی۔ امرتا کو رنج ہوا کہ اُس کا نام استعمال ہوامگر اسے بے خبر رکھا گیا۔ اس نے فوراً اجیت کور کو فون کیااورلیٹرپیڈ سے اپنا نام ہٹانے کو کہا۔ اجیت کور نے بھی غصے میں آکرایک چٹھی لکھ دی۔ یوں دونوں کی بول چال بند ہوگئی۔ اسی میں امرتا نے اپنی زندگی کا آخری سانس لیا اور دنیا سے رخصت ہو گئی۔ امرتا کی موت کی خبر سن کر اجیت کورنے فون کیا اور پوچھاکہ کیا وہ آ جائے۔ میں نے کہا، آپ کا اپنا گھر ہے۔ وہ امرتا کے آخری دیدار کو آئیں اور امرتا کو یاد کر کے بہت روئیں۔
اداسی ایک بار پھر گہری ہو گئی۔ میں امرتاپریتم کے کمرے میں، بستر کے سامنے لگے صوفے پر جا کر بیٹھ گیا۔ ڈریسنگ ٹیبل پر چھوٹے چھوٹے فریموں میں امرتا کی تصاویر بچوں کے ساتھ اور امروزکے ساتھ گروپ میں تھیں۔ ایک اور تصویر میں امرتاوزیراعظم اندراگاندھی سے پدم شری ایوارڈ لینے کے بعد کھڑی مسکرا رہی تھیں۔ دو بڑے بڑے فریموں میں اُن کی لکھی ہوئی نظمیں ٹنگی تھیں۔ میں نے امروز سے پوچھا۔ یہ کون سی نظمیں ہیں۔ انھوں نے بتایا یہ نظمیں نہیں گیت ہیں، فلمی گیت ،جو امرتا نے ایک پنجابی فلم ہیر رانجھا کے لیے لکھے تھے۔ یہ فلم تو مکمل نہ ہو سکی مگر اس کے گیت ریکارڈ ہو گئے۔ یسُوداس کی آواز میں :
سچ وی تُو سپنا وی تُو
غیر وی تُو اپنا وی تُو
یوں لگتا تھا ہیر نے ہیر کے گانے لکھے کیوں کہ ہیر ہی اتنا ڈوب کر لکھ سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امرتا کو پنجاب کی ایک یونیورسٹی کی جانب سے 15 لاکھ روپے کا انعام دینے کا اعلان کیا گیا۔ پنجابی لکھاریوں اور انتظامیہ میں کچھ لوگوں نے شور مچایا کہ ایک رائٹر کو پندرہ لاکھ دینے کی بہ جائے پندرہ رائٹرز کو ایک ایک لاکھ دے دیا جائے۔ اس کے جواب میں فیصلہ کرنے والی اتھارٹی نے صرف اتنا کہا۔
“کیا پندرہ لکھاری مل کر ایک امرتا بن جائیں گے ؟

amrita_pritam_2090921

یہ گھر امرتا نے ساہتیہ اکیڈیمی کی جانب سے ملنے والی انعام کی رقم سے پلاٹ کی شکل میں خریدا تھا۔ پائی پائی جوڑ کر اس کی تعمیرہوئی۔ امرتا کو کرائے کے مکان سے بڑی چڑ تھی۔ ایک دن وہ اکیلی آ کر اس زیرِ تعمیر گھر کے، جب کہ ابھی دروازے اور کھڑکیاں بھی نہ لگائی گئی تھیں، ڈھانچے میں گزار گئی۔ اس نے یہاں ایک نظم بھی لکھی۔ امرتا نے دوسرے دن مجھے بتایا اور یہ بھی کہا کہ مجھے بالکل ڈر نہیں لگا۔ میں نے جواب دیا ڈر تمھیں کیسے لگنا تھا تم تو نظم لکھنے میں مگن تھی۔ اس گھر کی ایک ایک اینٹ پیار اور محبت کے گارے سے جوڑی گئی ہے اور اس کی چھت باہمی اعتماد پر قائم ہے۔ اس گھر کو عاشقوں کی جنت بھی کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جب سے اس گھر میں آیاتھا، امروزکے سامنے بیٹھا ان کی باتوں جیسی نظمیں اور نظموں جیسی باتیں سُن رہا تھا۔ اچانک امرتا جی کے آخری دن کی بات شروع ہو گئی۔
ہم صبح جاگے تو حسب معمول ناشتے کے بعد میں نے امرتا کے کمرے میں جا کر انھیں دیکھا، وہ سو رہی تھیں۔ میں پھر آ کر ڈائیننگ ٹیبل پر یہیں اسی جگہ بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد بہو اُن کے کمرے میں گئی میں اخبار پڑھ رہا تھا۔ بہو بھی چکر لگا کر آ گئی۔ اتنے میں دن کے دس بج گئے۔ ہمیں تشویش ہوئی کہ اتنی دیر تک کیوں سو رہی ہیں۔ پہلے تو صبح سویرے اٹھ جایا کرتی تھیں۔ میں نے جا کر اُن کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا۔ جسم بالکل ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ فوراً ڈاکٹر کو بلوایا۔اس نے نبض دیکھتے ہی کہا: امرتاجی کے سانس پورے ہو چکے ہیں۔
امرتا نے اپنی زندگی میں ہی کہہ دیا تھا کہ انھیں سفید کفن نہ پہنایا جائے اور نہ ننگا کر کے نہلایا جائے۔ ایک سوٹ انھوں نے اپنے آخری سفر کے لیے سلوا کر رکھا ہوا تھا۔ انھوں نے اپنی بہو کو بتا رکھا تھا کہ یہی سوٹ پہنا کر لے جانا۔ مرنے کی کوئی بھی رسم کسی گوردوارے میں نہیں ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ زندگی میں کبھی گوردوارے نہیں گئیں تو مرنے پر بھی نہ لے جایا جائے۔
میں کبھی کسی کی موت پر نہیں رویا۔ حتیٰ کہ اپنی امرتا کی موت پر بھی۔ رونا مجھے اُس وقت آتا ہے جب کوئی مجھے بہت زیادہ عزت دیتا ہے، پیار دیتا ہے۔ امرتاپریتم کی موت پر مجھے اس لیے رونا نہیں آیا کہ اُسے جو تکلیف تھی اس سے نجات کی بس یہی ایک صورت باقی رہ گئی تھی۔ میرا المیہ یہ ہے کہ میں اُس کے دکھ کو شیئر نہیں کر سکتا تھا۔ اب اگر قدرت نے اس کی تکلیف ختم کر دی تو اس پر رونا کیسا؟ امرتا کو بھی احساس تھا کہ جو تکلیف اُسے لاحق تھی، ٹھیک ہونے والی نہیں تھی۔ ایک دن وہ اپنی بیماری سے گھبرا کر مجھے کہنے لگی۔ امروز میں نے سُنا ہے سائنائیڈ زندگی کو پلک جھپکنے میں ختم کر دیتا ہے۔ تو ایسا کر مجھے کہیں سے تھوڑا لا دے۔ میں خاتمہ چاہتی ہوں اس مرض سے بھی اور حیاتی سے بھی۔ میں نے ہنس کر کہا جھلی نہ ہو تو آج کل کہاں سے ملتا ہے خالص سائنائیڈ۔ ملاوٹ والے سے تکلیف اور بھی بڑھ جائے گی۔ یوں میں اُسے آخری وقت تک دلاسے دیتا رہا۔ اب وہ جہاں ہے وہاں سے مجھے دیکھ دیکھ کر مسکراتی ہے۔
رات کے دو بج رہے تھے۔ میں نے اپنا سامان سمیٹا۔ امروز نے مجھے امرتا پریتم کی تصویریں، “ناگ منی” کا ایک پرچہ، اپنے بنائے ہوئے کچھ اسکیچ اور نئے سال کا اپنا ڈیزائن کردہ کیلنڈر کے تحفے میں دیے۔ میں نے امرتا پریتم کے دروازے کو بوسہ دیا اور آہستہ آہستہ’عاشقوں کی جنت‘ سے باہر آ گیا۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply