جنگ۔۔۔عنبر عابر

رات کی تاریکی ہر طرف اپنے پر پھیلا چکی تھی اور فضا پر عجیب سی سراسیمگی چھائی ہوئی تھی۔یہ اندیشوں کی رات تھی جو طوفانوں کو جنم دینے کیلئے دم سادھے ہوئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ناگاہ نائٹ ٹیلی سکوپ لگائے پاکستانی محب وطن نوجوان کو “پاک آرمی بمقابلہ انڈین آرمی“ پیج پر مشکوک حرکت نظر آئی۔اس کے اعصاب تن گئے۔وہ فیصلہ کن مرحلہ آچکا تھا جس کیلئے وہ ایک عرصے سے منتظر تھا۔انڈین آرمی رات کی تاریکی میں اس پیج پر حملہ آور ہوکر ایک پوسٹ اپلوڈ کرچکی تھی۔جس کا متن تھا
“پاکستانی وہ بلیاں ہیں جو ہمارے ٹماٹر کھا کر ہم پر ہی میاؤں میاؤں کرتی ہیں“
پاکستانی نوجوان کا خون کھولنے لگا۔اس نے فوراًًً  ٹرانسمیٹر کے ذریعے اپنے ساتھیوں کو آگاہ کیا اور تن تنہا اس پوسٹ کے کمنٹ باکس میں پہنچ گیا۔
آسمان کی بے کراں وسعتیں تاریخ کی عجیب لیکن خونریز جنگ کی داستان اپنے سینے میں محفوظ کرنے کیلئے بےتاب تھیں۔
پاکستانی نوجوان نے سب سے پہلے پینسٹھ کی جنگ کا طعنہ دیا جو بھارتی سورماؤں کے سر پر سے گزر گیا۔جواب میں انہوں نے اکہتر میں چھٹی کا دودھ یاد دلانے کا ذکر کیا جسے  سن کر پاکستانی جانباز کی  ریڑھ کی ہڈی سے ٹیسیں اٹھنے لگیں۔
دودھ کے ذکر پر ایک حاضر جواب پاکستانی نوجوان جو سلمی نام سے آئی ڈی آپریٹ کر رہا تھا بولا
“آہا۔۔ہم دودھ کو دودھ ہی سمجھتے ہیں لیکن تم تو اس قوم سے تعلق رکھتے ہو جو گائے کا پیشاب بھی دودھ سمجھ کر ہضم کرجاتی ہے“ کمنٹ کے ریپلائی میں تالیوں کے اسٹیکرز اور فرینڈ ریکویسٹ ایکسپٹ کرنے کی منتیں نمودار ہونے لگیں۔ساتھ ہی ساتھ بزدل بھارتیوں کی طرف سے گالیوں کی بوچھاڑیں بھی ہونے لگیں۔
ایک بھارتی سورما گائے کے پیشاب سے لبریز گلاس حلق میں انڈیل کر ریپلائی میں گھس کر دھاڑا۔”گائے کا پیشاب کیا چیز ہے ڈارلنگ سلمی! ہم تو تمہارا دودھ بھی پیشاب سمجھ کر پی جائیں“ اس کمنٹ پر تینتیس لائیک لے کر وہ شادئ مرگ ہوگیا اور دوبارہ کہیں نظر نہ آیا۔
جنگ جاری رہی۔طعنوں اور گالیوں کا آزادانہ استعمال ہوتا رہا۔ان سنگین لمحات میں جب کہ پاکستانی اپنا خون بہا رہے تھے، محبت کا پیغامبر ایک پاکستانی بنام وجد رفیق، محبت کا پیام پھیلانے سے باز نہیں آیا اور ڈھونڈ ڈھانڈ بلاتفریق سگھڑ و پھوہڑ ہر بھارتی مہیلا کو فرینڈ ریکویسٹ بھیج کر میسنجر میں گپیں ہانکتا رہا۔
ایک پاکستانی جیالا “شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن“ کا رزمیہ شعر گنگناتا ہوا بھارتیوں پر پل پڑا اور پاکستانی فوج و آئی ایس آئی کے تمام کردہ و ناکردہ کارنامے ایک ہی سانس میں گنوا دئیے جو اس نے اپنے محلے کے نائی کی دکان میں جمع ہونے والے دانشوروں کی زبانی سنے تھے۔یہ ایسا جچا تلا وار تھا کہ بھارتی سورماؤں کو سانپ سونگھ گیا۔وہ فوراً گوگل میں ان کارناموں کے ماخذ تک پہنچنے لگے تو وہاں بطور حوالہ “مطالعہ پاکستان“ کے مضامین گردش کر رہے تھے!
ایک بھارتی شوخ وچنچل لڑکی نے شوخی بگھاری۔”بھارت تیزی سے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہورہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب بھارت کی آبادی بڑھ کر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیگی“
“سلمی بھائی“ ہی جواب دینے کیلئے آگے بڑھا اور بولا۔”یقیناً وہ دن دور نہیں جب بھارت کی آبادی اتنی بڑھ جائیگی کہ تنہائی میں عین غین کرنے کیلئے ان کے پاس جگہ نہیں بچے گی“ وہ سیٹیاں اور تالیاں بجیں کہ خدا کی پناہ۔
جبکہ واجد رفیق نے آگے بڑھ کر اس حواس باختہ بھارتی لڑکی کی کمر کے گرد بانہہ حائل کیا اور دلاسہ دیتے ہوئے بولا۔”ترقی کو گولی مارو۔ آؤ خاندانی منصوبہ بندی پر چار حرف بھیج کر آبادی میں اضافہ کرتے ہیں“
ایک دوسری بھارتی عفیفہ نے اپنی خوبصورت سیلفی اپلوڈ کی اور کمنٹ کیا۔”بھارت کے پاس یہ پرتھوی میزائل ہے تمہارے پاس کیا ہے؟“ جواب میں ایک گل خان نے وہ کچھ دکھایا جس کیلئے ہر زبان میں ایک برالفظ ہے۔
جنگ فوٹو شاپڈ تصویروں کے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی تھی اور پورا پیج تصویروں میں کمر کمر غرق ہوگیا تھا۔پاکستانی مودی کی تصویر پھینکتے جس کا دھڑ کھوتے کا ہوتا تو بھارتی یہی حشر پاکستانی سیاست دانوں کا کرتے۔بالآخر بھارتی سورما اوچھے پن پر اتر آئے اور کترینہ کیف،دیپکا پڈو کون، عالیہ بھٹ وغیرہ  کی تصویریں دکھا دکھا کر پاکستانیوں کا منہ چڑانے اور خون جلانے لگے جبکہ پاکستانیوں کے پاس سوائے سجل علی کے، فٹ بچیوں کی کمی تھی۔ جس کی وجہ سے آخری لمحات میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔
افسوس ہمارے حکمرانوں پر جو میٹرو تو بناتے رہے لیکن بچیوں کی فگرز و فٹنس سے غفلت برتتے رہے اور یوں ہمیں وہ دن دیکھنا نصیب ہوا جو رہتی دنیا تک ہمارے لئے عارف خٹک کا پشتو کا برا لفظ ثابت ہوتا رہیگا!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”جنگ۔۔۔عنبر عابر

Leave a Reply