اُمّتِ مسلمہ کا ماضی، حال اور مستقبل۔۔۔محمد یاسر لاہوری

دکان کھولے ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ دکان کے شیشے کے ساتھ کسی کے زور سے ٹکرانے کی آواز آئی، اُٹھ کر باہر آیا کہ دیکھوں تو کیا ہوا۔دیکھتے ہی اوسان خطا ہو گئے، شیشے کے ساتھ ٹیک لگائے ایک نوجوان مدہوشی کی حالت میں گرا پڑا تھا۔آنکھیں اوپر کو چڑھی ہوئی تھیں، سانس برائے نام لے رہا تھا۔سوٹ بوٹ اور لباس سے کسی اچھے گھر کا پڑھا لکھا لڑکا لگ رہا تھا۔بارونق راستہ ہونے کی وجہ سے آتے جاتے لوگ یہ منظر دیکھ کر رک گئے۔آس پاس کی دکانوں سے کچھ دکاندار بھی آ گئے، ان ہی میں سے ایک نے آواز لگا کرکسی کو پانے لانے کا بولا۔پانی آنے پر منہ پر چھینٹے مارے گئے پر کچھ اثر نا ہوا۔اب مسئلہ ذرا پچیدہ محسوس ہونے لگا تو کسی نے ایمبولینس والوں کا ذکر کیا۔اتنے میں ایک نشئی صاحب کہیں سے آئے اور اس نوجوان کی طرف یوں بڑھے جیسا کے دور ہی سے ڈاکٹر مریض کا مرض پہچان کر اطمینانی انداز میں اپنے چہرے کے تاثرات کا اظہار کرتا ہے۔

نشئی نے پانی پکڑ کر لڑکے کے منہ کو لگایا پانی اندر جا کے واپس باہر نکل آیا۔نشئی اس پر بھی نارمل ہی رہا اور کہا فکر کی کوئی بات نہیں اس نے ٹیکہ غلط جگہ لگا لیا ہے کچھ دیر میں ٹھیک ہو جائے گا۔نشئی کے منہ سے یہ بات نکلی ہی تھی کہ وہاں موجود سب لوگ ایسے ہلکے پھلکے ہو گئے جیسے یہ معمولی سی بات ہو۔پہلے تو سمجھ نہیں آیا کہ کس انجیکشن کا ذکر ہو رہا ہے، بعد میں پتہ چلا کہ بطورِ نشہ استعمال ہونے والے انجیکشن کا ذکر ہو رہا تھا۔لیجئے نشئی صاحب کی پشین گوئی سچ ثابت ہوئی، کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ خوبصورت اور پڑھا لکھا نوجوان ہوش میں آ گیا اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔پتہ چلا کہ اس نے نشہ ہی کیا تھا۔

دل میں آہ اٹھی اور سکونِ دل کو تہہ و بالا کرتی ہوئی ایک درد میں ڈوبی سوچ دے گئی، خیال آیا کہ یہی نوجوان جب ماں کی گود میں ہوگا تو کیا ماں نے چاہا ہوگا کہ میرا بیٹا جوان ہو کر نشے کی حالت میں فٹ پاتھ پر پڑا ہو!!!
یا باپ نے ایسا کچھ سوچا ہوگا؟ نہیں نا
یہ ہیں ہمارا مستقبل! ہماری قوم کا سرمایہ!
دل خون خون ہو گیا جب آنکھوں نے”آنے والے دور میں پاکستان کی پہچان بننے والی نسل کو سڑکوں اور فُٹ پاتھوں پر نشے میں دُھت دنیا وما فیہا سے بے خبر اوندھے منہ گرے” دیکھا۔
اوجِ ثُریا کی بلندیوں کی مانند عُروج پانے والی مسلمان قوم کی ذُرّیت (اولاد) کا یہ حال!
اس نوجوان کو دیکھ کر خیال آیا کہ محمد بن قاسم بھی تو اسی عمر میں نکلے تھے نا اپنی ایک مسلمان بہن کی عزت و عفت کو بچانے!

صلاح الدین ایوبی کی فوج کے نوجوان بھی تو اسی عمر کے تھے نا۔۔اور اپنی لگن میں، اپنے مقصد میں اتنے پختہ تھے کہ صلیبیوں کو بہت بھاگ دوڑ کرنا پڑی، صرف یہ جاننے کے لئے کہ مسلمانوں کی فوج میں ایسی کیا بات ہے جو یہ ڈرتے ہیں نا پیچھے ہٹتے ہیں، اور نا اپنے کام سے توجہ ہٹاتے ہیں۔تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ مسلمان فوج کے نوجوان اپنی دھن کے پکے ہیں۔شراب و شباب سے دور رہتے ہیں، اس دنیا کی رنگینیوں کو ترجیح نہیں دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم ان کو شکست نہیں دے پاتے۔یہ ہے ہمارا ماضی، یہ ہے ہمارا پسِ منظر برا نا لگے تو چھلنی دل کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ”کردار و افعال کے حوالے سے ہمارا حال ہمارے ماضی کے دشمنوں (غیرمسلموں) سے بھی بدتر ہو چکا ہے”
ہم وہ نہیں رہے جو ہمیں ہونا چاہیئے تھا اور ہم وہ بن چکے ہیں جو ہمیں بطور ایک مسلمان، بطور ایک انسان نہیں بننا چاہیے تھا۔

شکست خوردہ جذبات کے ساتھ قلم چل رہا ہے بلکہ قلم نہیں ایک فلم چل رہی ہے، دماغ کام نہیں کر رہا لیکن جب دکھ بڑا ہو تو جذبات میں بہہ جاتا ہے۔سوچا کہ اگر جذبات کی بجائے الفاظ میں بہہ جائے تو کیا پتہ میرا قلم کسی راہ بھٹکے نوجوان کے قدموں کو مزید بھٹکنے سے روک دے۔سوچئے ہمیں اس نئے “اسلام بیزار” معاشرے نے کیا دیا؟ ذلّت ذِلّت اور صرف ذلّت!!!

ہماری نوجوان نسل کس طرف جا رہی ہے، پڑھے لکھے ہونے کے باوجود جہالت گھر کر چکی ہے سوشل میڈیا پر بہت سے ایسے نوجوان لڑکے لڑکیاں نظر آئیں گے جن کے نام محمد/فاطمہ کی طرح ہونگے (یعنی مسلمان ہوں گے) اور ان کی پروفائل پر موجود اپنی شکل پر کتے کے کان اور زبان لگی ہوئی ملے گی، کوئی اپنے آپ کو بلی کی تشبیہ دیتا ہوا ملے گا۔۔۔یہ کیسی غلامی ہے؟ پہلے تو ہمیں مسلمان کہلوانے پر شرم آتی تھی اور اب ہمیں انسانیت سے بھی نیچے گرا دیا گیا ہے۔

روشن خیال طبقہ! یہ وہ طبقہ ہے جو اسلام کے بارہ میں جہاں بھی بات ہوگی بڑھ چڑھ کر حصہ لے گا، کسی ماہر مناظر کی طرح اپنی ہر رائے کا دفاع خوب کرے گا، بات بات پر محبتِ اسلام کا اظہار کرے گا اور پاکستان پر فدا ہوگا۔ اور حال یہ ہوگا کہ صبح کالج یونیورسٹی جاتے ہوئے ان کے گھروں سے بہنیں اور بیٹیاں ننگے سروں کے ساتھ، غیر مہذب اور نامکمل لباسوں میں نکلیں گی۔کاروبار دیکھا جائے تو وہ سودی طرزِ عمل پر ہوگا۔یہی وہ طبقہ ہوگا جو امتحان کے دن شدید سے شدید تر موسمی اثرات کے باوجود اپنے بچوں کو امتحانی سنٹر تک پہنچانے میں بڑی سے بڑی مشکل بھی قبول کرے گا لیکن کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی ہوگی کہ دسمبر و جنوری کی ٹھنڈی فجر باجماعت پڑھوانے کے لئے ساتھ لے کر جائیں۔کبھی اس طرف توجہ ہی نہیں گئی کہ اپنی اس اولاد کو انسانیت سکھائیں، اسلامی آداب سیکھائیں۔۔۔یہ روشن خیالی کے مریض طبقہ کی وہی اولاد ہے جو اپنی چھوٹی سی عمر میں اپنے گھر میں رکھے ہوئے پچاس سالہ بزرگ ڈرائیور کو نام لے کر پکارتی ہے، اپنے ٹیچر کے سامنے آنے پر السلام علیکم کہنے کی بجائے “ہائے” کہہ کر اسلام بیزاری کا اظہار کرتی ہے، تعلیم و تربیت کے لئے ایسے ادروں کو پسند کیا جاتا ہے جہاں یہودوہنود کی حمایت میں تقاریری مقابلے کروائے جاتے ہیں۔جی ہاں! سچ یہی ہے، یہی کچھ بچا ہے ہمارے پاس۔۔۔!!!
میں نے کوشش کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ نرم لہجہ اپناؤوں ان باتوں کو لکھتے ہوئے، لیکن کیا کروں اس سچائی کو بیان کرنے کے لئے اس سے شائستہ لہجہ مل نہیں پا رہا، بڑی معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں ان الفاظ کو، س لہجے کو میری بدتمیزی سمجھ کر معاف کر دیجئیے لیکن خدارا بحیثیت مسلمان بحیثیت انسان اپنی پہچان مت کھوئیے، پلٹ آئیے رک جائیے خود کو پہچانئیے!

ہم بحیثیتِ ایک مسلمان اور بحیثیتِ ایک پاکستانی وفادار نہیں رہے، وفا شعار نہیں رہے۔یہود و ہنود کی نقّالی کا شوق ہماری اسلام پسندی اور حُبُّ الوطنی کو کسی دیمک کی طرح کھا گیا ہے۔
ہمیں یہ تو پتہ ہو گا کہ ہالی ووڈ کی نئی فلم کون سی آرہی ہے۔۔لیکن یہ پتہ نہیں ہو گا کہ کشمیر جل رہا ہے! ہمیں اس کی خبر تو ہوگی کہ فلاں اداکارہ کی شادی فلاں کے ساتھ ہو رہی ہے لیکن اس بات سے ہم غافل ہوں گے کہ درد و الم کے عالم میں ہماری کوئی فلسطینی مسلمان بہن بیٹی یہودی فوجیوں کے آگے ہاتھ جوڑ کے اپنی عزت و ایمان بخشوانے کی التجائیں کر رہی ہوگی!!! ہے نا دل کو ریزہ ریزہ کر دینے والے واقعات
اے مسلم نوجوان! تیرا خون محمد بن قاسم کی طرح کھولتا کیوں نہیں؟ اس وقت کے راجہ دہر سے ٹکر لینے کی بجائے تو نے نشہ کو سکونِ جان کیوں بنا لیا؟ تجھے تو بیت المقدس کا محافظ بننا تھا لیکن تُو تو اصنام پرستوں کے کلچر کا شیدائی بن گیا۔ تجھے اعلائے کلمة اللہ کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی حفاظت کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا تھا لیکن تو منہ میں سگریٹ پان اور گُٹکا دبائے اپنے ہمنشینوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو گندی گالیاں بک کر فخر محسوس کرتا ہے اور اسی طرزِ زندگی کو معمول بنا لیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آہ افسوس! کہ ملک پاکستان کے مسقبل کے معماروں کا مَسکن سگریٹ پان کے اڈے ہیں، سینما گھر ہیں، بازار ہیں، سنوکر کلب ہیں، جوئے کے اڈے ہیں اور گلی محلوں کے چوراہے ہیں.
ذرا اونچے طبقے کی طرف دیکھیں تو اس سے بھی بدتر حالات ہیں۔گلے میں سونے کی زنجیریں، یہود و ہنود کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے ڈارھی کو ٹیڑھا تِرچھا ترشوا کر ہر سیچرڈے نائٹ اپنی اپنی ہیوی بائکس پر ریسیں لگاتے گزرتی ہے۔اپنی دولت کی فراوانی اور اپنے بڑوں کے اثر و رسوخ پر اتنا گھمنڈ کہ راستے میں ہر طرح کے قوانین و ضوابط کو توڑتے ہوئے اور اور آداب و احترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے راہ چالتے پیدل لوگوں کا مزاق اڑایا جا رہا ہے۔یہ ہے ہمارا حال۔۔۔اور یاد رہے حال مستقبل کی کامیابی و ناکامی کا ذمہ دار ہوتا ہے! جب تک ہم اسلام پر راضی نہیں ہوں گے، اسلامی طرز حیات پر اکتفا نہیں کریں گے ہمارا مقدر اور مستقبل ایسے ہی کسی فٹ پاتھ پر نشے میں شرابور گرا ہوگا اور مہنگے تریں ہوٹلوں میں رنگ رلیاں مناتے ہوئے امیر زادوں پر پولیس کے چھاپے پڑتے رہیں گے۔بچوں کو “تفریحی” آزادی کے نام پر دی جانے والی چھوٹ کے نتیجے میں روشن خیال والدین اپنے ماتھے پر لگنے والے کالے “داغ دھبے” چھپانے کی ناکام کوشش کرتے رہیں گے!!!
ہمیں چاہیے کہ “پلٹ آئیں ورنہ ہم پلٹا دیئے جائیں گے”

Facebook Comments

محمد یاسر لاہوری
محمد یاسر لاہوری صاحب لاہور شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت عرصہ سے ٹیچنگ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سائنس، فلکیات، معاشرتی بگاڑ کا سبب بننے والے حقائق اور اسلام پر آرٹیکلز لکھتے رہتے ہیں۔ جس میں سے فلکیات اور معاشرے کی عکاسی کرنا ان کا بہترین کام ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply