ایک شام ساحل پر۔۔۔ حمیرا گل

ایک تو ہماری سمجھ میں نہیں آتا، کہ آخر ہمارے میاں جی کو کچھ کیوں سمجھ نہیں آتا۔ شدید گرمی کا دن تھا۔ امریکہ کے شہر کنیکٹیکٹ کا درجہ حرارت پیتیس سینٹی تک پہنچا ہوا تھا۔ تیز دھوپ کی وجہ سے ہم سر میں شدید درد لیے، کھڑکیوں پر پردے گرائے آرام فرما رہے تھے۔ کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ میاں جی اچانک وارد ہوئے اور آتے ہی تمام پردے ہٹاتے ہوئے بولے، “بیگم چمگادڑ اٹھو، ہم آج کا دن سمندر پر گزاریں گے۔” ہم جو ویسے ہی سر درد کی وجہ سے چڑچڑے ہو رہے تھے، اس اعلان پر اٹھ ہی بیٹھے اور سمجھنے کی کوشش کرنے لگے کہ ایسی جلتی دوپہر میں ٹھیک ایک بجے ہمارے میاں کو اتنی ہری ہری کیسے سوجھی۔ ابھی ہم ہونق بنے ان کی شکل کا نظارہ کر ہی رہے تھے کہ انھوں نے ہاتھ بڑھا کر چادر کھینچی اور زبردستی بستر سے اتار کر ہمیں ساحل سمندر کی سیر کو لے کر چلے۔

پچھلے کئی دنوں سے امریکہ کا دلفریب موسم کچھ ایسا ہے کہ محکمہ موسمیات کے ماہرین کی سمجھ سے بھی باہر ہے۔ دو دن شدید گرمی کے بعد شدید بارشیں ہوتی ہیں اور پھر اس قدر ٹھنڈ بڑھ جاتی ہے کہ گمان ہوتا ہے کہ اب اولے پڑے ہی پڑے۔۔۔ ایسے ہی دو دن کی جلاتی ہوئی گرمیوں میں ہم سمندر پہنچے۔ خیر ہم نے بھی انگریزوں کی طرح ساحل پر بیٹھنے کے لیئے کرسی اور چھتری لی تھی۔۔ سو فورا ً ہی میاں جی نے چھتری لگانا چاہی۔ اب مصیبت یہ تھی کہ چھتری لگے تو کیسے لگے؟ وہ کہتے ہیں ناں نقل کے لیئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے، تو جناب بالکل ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ اب ہمارے میاں سمجھ کے ہی نہ دیں کہ چھتری کی ڈنڈی مٹی کے ڈھیر میں دبانے کے باوجود، آخر چھتری ٹک کیوں نہیں رہی۔ میاں جی کی ساری کارروائی دیکھتے ہوئے اچانک ہی ہمارے ہونٹوں پہ گانا مچلا، “چھتری نہ کھول، کیوں؟ اڑ جائے گی”۔۔۔ ابھی اتنا ہی گایا تھا کہ میاں جی نے تپتے ہوئے چہرے کے ساتھ شعلہ بار آنکھوں سے گھورا اور اگلا مصرعہ ہم نے منہ میں ہی بڑبڑاتے ہوئے پورا کیا، “ہوا تیز ہے۔” تھوڑی دیر مزید ناکام کوشش کرنے کے بعد میاں جی بولے، “چھتری آج چھوڑ ہی دو، ویسے بھی اتنی تیز دھوپ نہیں۔” ہم نے ان کے اس ارشاد کے بعد آسمان کی طرف دیکھا، جہاں کسی بھی قسم کے بادل کا نام و نشان تک نہ تھا اور سورج پوری آب و تاب سے دہک رہا تھا۔ مگر خیر بقول ہمارے میاں کے دھوپ نہ ہونے کی وجہ سے کرسی کھول کر ہی بیٹھ رہے۔

ابھی ہمیں بیٹھے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اچانک میاں جی پھر بولے، “چلو پانی میں چلیں۔” ہم کچھ کہنے ہی والے تھے کہ جوشیلے میاں جی اٹھے اور سمندر کی طرف یہ جا وہ جا۔ اب بندہ پوچھے ان سے، کہ اگر خود ہی جانا تھا تو گھر پر ہمارے آرام میں خلل ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟ خیر ہم بھی پانی کی جانب بڑھے۔ ایک سسکتی تڑپتی لہر نے آگے بڑھ کر ہماری قدم بوسی کی اور ساتھ ہی ہماری چیخ نکل گئی۔ محسوس ہوا کسی نے ہمارے پیروں کے نیچے پگھلی ہوئی برف کا پانی ڈال دیا ہے۔ میاں جی نے جو ہماری چیخ سنی تو فورا ًہی تیوری چڑھا کے بولے، “سوچ کے نہیں چیخ سکتیں؟ آہستہ چیخو زرا۔” یعنی کہ حد ہی ہوگئی، اب ذرا کوئی بتائے ہمیں کہ سوچ کے بھلا کیسے چیخا جاتا ہے؟ ایک تو ہم ویسے ہی چڑے ہوئے تھے، اوپر سے یہ منطق ہماری نازک مزاجی کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ ابھی ہم اپنی کرسیوں کی جانب واپسی کا سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک ایک بڑی لہر نے اس بار ہمارے پیروں کے ساتھ ساتھ ٹخنوں کو بھی چھیڑ ڈالا۔ بس پھر کیا تھا ہم نے بھی موقع غنیمت جانتے ہوئے بدلہ کی نیت کی، اور ایک اور زور دار چیخ ماری اور بھاگتے ہوئے اپنی ہوا کے زور پہ ہلتی جلتی شاہی کرسی پر ہی آکر ٹکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تقریبا ًایک گھنٹہ جھلستی دھوپ میں، بنا چھتری کے ہم بیٹھے چکن تکے کی  طرح سکے جا رہے تھے۔ ارد گرد کے لوگوں کو بھی حسرت سے دیکھ رہے تھے جو کہ اپنی اپنی چھتریوں کے نیچے لیٹے آرام کر رہے تھے۔ اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا جاتا تھا۔ اسی لیئے میاں کو مخاطب کرتے ہوئے سفارشانہ لہجہ میں بولے، “سنیں! بس اب گھر چلتے ہیں، سر میں شدید درد ہو رہا ہے، نیند بھی آرہی ہے۔” مگر مجال ہے جو میاں جی کے کان پہ جوں بھی رینگی ہو۔ خیر بولے تو بس اتنا، “ابھی چلتے ہیں۔” پورے آدھا گھنٹہ کے بعد جب ہم پوری طرح بے ہوش ہونے ہی والے تھے، تب کہیں جا کے میاں جی کو ہوش آیا اور گھر واپسی کا قصد کیا۔ واپسی پورے راستہ ہم آج کی زبردست، غیر اعلانیہ ساحلِ سمندر پر کی جانے والی تفریح کی تعریفیں سنتے رہے۔ سمندر کی ٹھنڈی ہوا نے وقتی طور پر تو گرمی کی شدت کو کم کردیا تھا۔ لیکن واپسی میں ہم مزید دردِ سر اور دھوپ کی وجہ سے پکوڑے جیسی ناک اور جھلسے ہوئے چہرے، وہ کیا کہتے ہیں، “سن برن” جیسی سوغاتیں لیئے واپس آئے۔ گرمی کی شدت شام کے ساتھ ساتھ کچھ کم تو ضرور ہو گئی تھی۔ لیکن یہ ڈھلتا سورج ہمارا پارہ پوری طرح چڑھا گیا تھا، جس کا اندازہ ہمارے میاں جی کو یقیناً گھر پہنچنے کے بعد ہی ہونا تھا۔

Facebook Comments

حمیرا گل
طالب علم