موجودہ دور کے اساتذہ اور ٹیچرڈے ۔۔۔اےوسیم خٹک

ہرسال خواتین کا عالمی دن ،بچوں کا عالمی دن ،مدر ڈے ،فادر ڈے سمیت بہت سے دن منائے جاتے ہیں جن کا مقصد ان رشتوں کی پہچان اور تشخص کا قائم رکھنا ہے کیونکہ مادیت کے دور میں رشتوں میں وقت کے ساتھ ساتھ دراڑیں پیدا ہورہی ہیں ۔ لوگ ایک دوسرے سے بیگانے ہوتے جارہے ہیں ۔ نزدیک کے رشتوں سے نابلد ہوکر سوشل میڈیا پر ہزاروں میل دور کے رشتے نبھائے جارہے ہیں ۔ ایسہ ہی ایک رشتہ استاد کا  بھی ہے جو ماں باپ کے بعد سب سے قابل احترام رشتہ ہے ۔ جس کے بارے حضرت علیؓ کا کہنا تھا کہ جس سے میں نے ایک لفظ سیکھا میں اُس کا غلام ہوگیا وہ مجھے بیچنا بھی چاہے تو میں انکار نہیں کروں گا اسی طرح حضور اقدسؐ کا فرمان ہے کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ استاد کے رتبے کو اعلی اہمیت کا رشتہ قرار دیا گیا ہے جس کو روحانی باپ کہا جاتا ہے ۔ اس لئے اقوام متحدہ نے بھی اس اہمیت کو مدنظر رکھ کر پوری دنیا میں 5اکتوبر کو اساتذہ کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا ہےاس دن کے منانے کا مقصد دنیا بھر کے اساتذہ کو سلام پیش کرنا ہے اور ان کے مقام کو معاشرے میں اجاگرکرنا ہے۔ ایک انگریزی مقولہ ہے کہ استاد وہ مینارہ نور ہے جو بچے کے راستے کو روشن کرتا ہے۔ سکندر اعظم کا قول ہے میرے والدین نے مجھے زمین پر اتارا اور میرے استاد نے مجھے آسمان کی بلندی تک پہنچا دیا۔ آج آپ دنیا میں کوئی بھی کامیاب انسان دیکھتے ہیں تو اس کامیاب انسان کے پیچھے ایک استاد ہوتا ہے جس نے اپنے شاگرد کو کامیابی کا رستہ دکھایا ہوتاہے۔ نوبل انعام یافتہ سائنسداں عبدالسلام نے نوبل انعام کو اپنے استاد کے قدموں میں رکھ کر کہا تھا۔ کلاس روم میں اگر آپ نے میری ہمت افزائی کے طور پر ایک روپیہ نہ دیا ہوتا تو آج میں نوبل انعام کا حقدار نہ بنتا، میری نظر میں نوبل انعام کی اہمیت آپ کے ایک روپے سے بھی کم ہے۔ آج جو میں تھوڑے بہت صفحات کالے کررہا ہوں اس میں میرے بہت سے اساتذہ کی محنت شامل ہے ۔ جس میں امیر عباس خان مرحوم، ہمراز خان مرحوم ،جاوید آفریدی ،عبدالحفیظ، رئیس زادہ سمیت بہت سے اساتذہ کا ہاتھ ہے ۔ یہ وہ اساتذہ ہیں جن کی وجہ سے مجھے اردو سے محبت رہی اور پھر یہ مجھے صحافت تک لے آئی پھر ٹیچنگ کے شعبے میں آئے۔ صحافت کے اساتذہ میں فیض اللہ جان، الطاف اللہ خان، شاہجہان صاحب، نعیم گل صاحب،انعام صاحب ،خالد سلطان صاحب ،سجاد پراچہ صاحب، واجد صاحب اور غلام شبیر بلوچ صاحب کا بڑا ہاتھ ہے ۔ کچھ اساتذہ ایسے بھی ہیں جن کے سامنے آج بھی ہم سامنے آنے سے ڈرتے ہیں ۔اب اگر موجودہ دور میں اساتذہ کے کردار کے بارے میں بات کی جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آج کے اساتذہ اور اُس دور کے اساتذہ میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ آج کل کے دور میں بہت سے اساتذہ نے اپنا معیار کھودیا ہے ۔ استاد اور شاگرد کا تعلق بھی بدنام ہوگیا ہے۔ پرائمری سکولوں سمیت ہائیر سکینڈری سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جن کو سن کر انسانیت شرما جاتی ہے ۔ خاص کر یونیورسٹیوں میں طالبات اور اساتذہ کے درمیان بیس نمبروں  کے لئے کیا کیا کھیل نہیں کھیلے جاتے ۔مدارس کے اساتذہ کا کردار بھی ہمارے سامنے ہےجہاں پر   جنسی درندے اس پیشے کو پامال کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔تو ایسے میں بندہ کس طرح عالمی یوم اساتذہ منائے ۔ جب اساتذہ خود اپنی تذلیل کے لئے کوششوں میں مصروف ہوں ۔ دوسری جانب حکومتی پالیسیاں بھی اس قابل نہ ہوں جس سے اساتذہ کی بے توقیری ہوتی ہو جب اساتذہ کو صرف الیکشن کی ڈیوٹیوں پولیو کی ڈیوٹیوں میں ذلیل وخوار کیا جائے گا تو وہاں کس طرح اساتذہ کو کامیابی ملے گی ۔مشہور رائٹر اشفاق احمد اپنا ایک واقعہ لکھتےہیں کہ جب ان سے کوئی قانون ٹوٹا اور وہ عدالت میں دیر سے پہنچے اور بتایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور یونیورسٹی کی مصروفیت کی وجہ سے پہنچ نہیں سکے۔ جج صاحب نے استاد کا لفظ سنتے ہی ©Teacher in the Court کا نعرہ لگایا اور سارا مجمع کھڑا ہو گیا۔ یہ عزت ہے اپنے  اساتذہ کی اور ملک ایسے ہی ترقی کیا کرتے ہیں۔ مگر ہماری قوم کا المیہ یہی ہے کہ ہم مغرب سے مقابلہ کرنے کا سوچتے ہیں مگر اُس پر عمل نہیں کرتے ۔ آج بھی ٹی وی پر کچھ پیکجز چل جائیں گے ۔ اساتذہ کو وش کیا جائے گا مگر کوئی پالیسی سامنے نہیں آئے گی ترقی یافتہ ممالک میں ایسے موقع پر عہد کرکے پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جبکہ ہم جیسے ممالک جن کے اساتذہ کی تذلیل میں کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ ہمیں آج کے دن یہ عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ اساتذہ کو عزت دیں گے اور اساتذہ بھی عہد کریں کہ خود کو اُن اساتذہ کی طرح بنائیں گے جس طرح استاد کا حق ہوتا ہے ۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply