زنداں کی آواز ___ قیدی نامہ

وکیل صاحب
اسلام علیکم…!
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے مالک نے آپ پر اپنا خاص کرم کیا ہوا ہوگا.
میرا نام الٰہی بخش ہے میں لیاری کے علاقے سنگو لین میں رہتا تھا. کافی سال پہلے ماں باپ سے اجازت لیکر کراچی آگیا اس وقت کراچی کے حالات بہت خراب تھے پورے شہر میں کرفیو لگتا تھا بس ایک لیاری تھا جہاں تھوڑا بہت امن تھا اور میں بھی اندرونِ سندھ کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتا تھا سو اپنی غربت کے باعث لیاری جیسے غریب پرور علاقے میں اپنی اوقات کے مطابق کرایے پر رہنے لگا.
کبھی مزدوری لگتی تو کبھی نہیں لگتی تھی تین بچوں اور بیوی کیساتھ جیسے تیسے وقت گزر رہا تھا کبھی کبھار شہر کے حالات زیادہ خراب ہوتے تو دو دو دن کام نہیں لگتا تھا جو تھوڑا بہت روپیہ جمع ہوتا اسی سے گزارا کر لیتا مگر کوشش کرتا کہ بچوں کی تعلیم میں کوئی کمی نا ہو.
ایک روز صبح ہی صبح مزدوری کے لیے گھر سے نکلا حالات اس دن ٹھیک نہیں تھے دل بہت گھبرا رہا تھا بیوی کو سمجھا کے گیا کہ بچے چھوٹے ہیں اسکول نا بھیجنا حالات ٹھیک نہیں مجھے کام ملا تو ٹھیک ورنہ دوپہر سے پہلے گھر لوٹ آؤں گا.
خوش قسمتی سے اس دن کام مل گیا مزدوری کر کے گھر کو واپس لوٹ رہا تھا کہ گلی میں داخل ہوتے ہی اپنے دروازے پر شور شرابہ دیکھا. میں بھاگ کر پہنچا اور لوگوں سے وجہ پوچھی تو مجھے وہاں موجود کونسلر صاحب اور انکے ساتھیوں نے مجھے بہت مارا پیٹا وہ کہتے گئے کہ تمھارے بچے محلے میں چوریاں کرتے ہیں تم اپنے بچوں سے ہمارے گھروں میں چوریاں کرواتے ہو وکیل صاحب اصل بات صرف بچوں کے درمیان کھیل کود کے دوران ہونے والے جھگڑے کی تھی جسے لیکر کونسلر صاحب آپے سے باہر ہوگئے اور مجھے مارتے ہوئے تھانے لے گئے یہ ہی نہیں بلکہ ظلم کی انتہا تو تب ہوئی کہ میرے بیوی بچوں کو بھی بری طرح سے مارا پیٹا گیا اور انہیں بھی رات بھر تھانے میں بند رکھا گیا پولیس اہلکار مجھے ساری رات مارتے پیٹتے رہے اور ایک ہی بات پوچھتے کہ چوری شدہ مال کہاں چھپا کے رکھا ہے کس گروہ کے لیے کام کرتے ہو کس سیاسی جماعت سے تعلق ہے.
میں غریب آدمی مجھے کیا معلوم کہ یہ سیاست اور گروہ بازی کیا ہوتی ہے میں روز کا دیہاڑی دار مزدور آدمی تھا روز کنواں کھودتا روز پانی پیتا.
مجھے کیا معلوم تھا کہ میرے ساتھ یہ سب کچھ ہوگا ورنہ میں شہر کبھی نہ آتا.
اگلے روز تھانیدار نے میرے بیوی بچوں کو یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ دو دن میں دس ہزار کا بندوبست کردو تو کیس کو ختم اور تمھارے شوہر کو آزاد کردوں گا.
وکیل صاحب میرے پاس کہاں اتنا روپیہ پیسہ تھا میری بیوی نے گھر کا ایک ایک برتن بیچ ڈالا، لڑکی کی شادی کے لیے بچا کر رکھی ہوئیں سونے کی بالیاں بیچ ڈالیں اور پھر بھی ُکل ملا کر تین ہزار کی رقم جمع کر کے تھانیدار کو اِس امید سے دے آئی کے اب اسکا شوہر باہر آجائے گا مگر ان ظالموں نے پیسے لینے کے باوجود بھی مجھے آزاد نہیں کیا بلکہ مجھ پر پکی ایف آئی آر کاٹ دی ڈکیتی سمیت ڈکیتی کے دوران زخمی کرنے ناجائز اسلحہ رکھنے جیسے کیس بنا دیئے اور میرا چالان جمع کر دیا.
عدالت نے بھی میری ایک نا سنی میں چیختا چلاتا رہا مگر مجھے جج صاحب نے جیل بھیج دیا.
کیس چلتے چلتے دو ڈھائی سال لگ گئے اور جب کیس چلا تو سارے شواہد میرے خلاف نکلے میرے پاس ایک پھوٹی کوڑی نہ تھی کہ میں اپنے بچاؤ میں کوئی وکیل کرتا میری بیوی نے گھروں میں برتن جھاڑو کرنا شروع کر دیا مگر پھر بھی ہمارے پاس اتنے پیسے نہ ہوسکے گاؤں سے غریب والدین بھائی مدد کو پہنچے مگر انکے پاس بھی اتنے وسائل نہ تھے کے وکیلوں کی بھاری فیس دیتے یوں میرا کوئی وکیل نا ہوسکا میں جج صاحب کے آگے گڑگڑاتا، روتا کہ مجھے انصاف دیں میں غریب مزدور ہوں میری کسی سے کوئی دشمنی نہیں مگر میری ایک نہ سنی گئی مجھے تین سال کی سزا ہوگئی اور پھر سینٹرل جیل بھیج دیا گیا میری سزا کا سن کر میرا بوڑھا باپ صدمے سے مر گیا جس کا مجھے آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوسکا.
وکیل صاحب…!! وہ بیٹا کتنا بدنصیب ہوتا ہے جس نے اپنے باپ کو کاندھا تک نہ دیا ہو میرے بھائیوں نے زمیندار سے سود پر پیسہ لیا اور شہر کا بڑا وکیل کیا جس نے امید دلائی کے وہ جلد مجھے باہر نکال لے گا مگر وہ وکیل صاحب اپنی فیس لینے کے بعد ہر پیشی پر تاریخ ڈال کر چلے جاتے اور پھر آہستہ آہستہ انہوں نے بھی آنا چھوڑ دیا اس طرح سود پر لیا گیا پیسہ اصل سے زیادہ ہوتا جا رہا تھا میرے بھائیوں نے باپ دادا کی نشانی دو ایکٹر زمین بیچ کر سود اور قرض چکتا کیا مگر میری رہائی نا ہوسکی یوں وقت گزرتا گیا اور پولیس مجھے مجرم بناتی گئی اور پرانے کیسوں میں وہ میرا نام ڈالتے گئے یوں میں کئی نامعلوم افراد کی فہرست میں آگیا. پولیس اہلکار ہر بار مجھ سے پیسوں کا تقاضہ کرتے کہ اتنے کا بندوبست کرلو ورنہ فلاں ڈکیتی کے کیس میں بھی نام کھول دیں گے اور میری بیوی اس ڈر سے ہر پیشی پر ان لوگوں کو ہزار پانچ سو لاکر دیتی رہتی ہے پہلے ایک کیس کی پیشی ہوا کرتی تھی مگر آج آٹھ سال ہوچکے ہیں یاد نہیں مجھ پر کتنے کیس ڈال دیئے گئے ہیں بس اب ہر کیس کی پیشی لگتی ہے میرا نام پکارا جاتا ہے اور ہتھکڑیوں میں جکڑ کر مجھے کورٹ میں پیش کر دیا جاتا ہے.
کبھی سرکاری وکیل نہیں ہوتا تو کبھی وکلاء کی ہڑتال ہوتی ہے تو کبھی پولیس پیپر مکمل نہیں ہوتے یا کبھی گواہان نہیں ہوتے غرض کے تاریخ مل جاتی ہے اور مجھے لوہے کی زنجیروں میں جکڑ کر واپس پولیس وین میں ڈال دیا جاتا ہے اور پھر مجھے اور مجھ جیسے کئی بےگناہوں کو سینٹرل جیل منتقل کر دیا جاتا ہے.
وکیل صاحب..!! میں اس بڑے شہر میں کئی خواب لیکر آیا تھا میں چاھتا تھا کہ میرے بچے پڑھ لکھ کر میرا نام روشن کریں اور معاشرے کے کام آئیں مگر شاید میرے بچوں کے نصیب میں تعلیم لکھی ہی نہیں تھی تعلیم تو آپ جیسے بڑے لوگوں کے نصیب کی چیز ہے بھلا ہم غریبوں کا اس سے کیا واسطہ..
میرا بڑا بیٹا اخبار بیچتا ہے میری پھول سی معصوم بیٹی موسموں کی سختیاں اور بھوک برداشت نہ کرسکی اور مجھے چھوڑ کر دنیا سے چلی گئی میرا سب سے چھوٹا بیٹا عدالت کے باہر وکیلوں اور عدالت آنے والے لوگوں کے جوتے پالش کرتا ہے مگر وہ بھی میری طرح محنت مزدوری کرتا ہے چوری نہیں کرتا.
وکیل صاحب…!! میں اس قابل نہیں کے آپکو اپنا وکیل کر سکوں میں آپ کی فیس نہیں دے سکتا جانتا ہوں کہ میری اوقات نہیں میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ایک نہ ایک دن میں اس ہی کال کوٹھڑی میں انصاف کی بھیک مانگتے مانگتے مرجاؤں گا..
مگر یہ خط آپ کو اپنی بھیگتی آنکھوں سے فقط اس لیے لکھ رہا ہوں کہ میرے گھر کے حالات اب بہت خراب ہوچکے ہیں کئی دنوں سے فاقے ہو رہے ہیں آپ سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ صبح کورٹ جاتے وقت میرے چھوٹے لڑکے سے اپنے جوتے پالش کروا لیا کریں میرے گھر میں دو روٹی کا آسرا ہوجائے گا. اللہ آپ کا بھلا کرے گا آپ کو اور ترقی دے گا میں اور میرے بیوی بچے آپکو ہمیشہ جھولی پھیلا کر دعائیں دیں گے….
فقط
الٰہی بخش
ایک قیدی
سینڑل جیل

Facebook Comments

رضاشاہ جیلانی
پیشہ وکالت، سماجی کارکن، مصنف، بلاگر، افسانہ و کالم نگار، 13 دسمبر...!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply