نواب فیروز کی آنکھ آج پھر ایک مخصوص وقت پر اچٹ گئی تھی۔۔۔شمع دان میں ہلکی سی لو پھڑپھڑا رہی تھی۔۔انہوں نے گہری سانس لیتے ہوئے لو بڑھائی اور بستر کے برابر میز پر دھری گھڑی پر وقت دیکھا۔۔”رات کے تین بجنے میں دس منٹ باقی تھے۔۔”آج پھر وہی وقت اور وہی مہک۔۔۔یہ ماجرا کیا ہے آخر؟؟انہوں نے الجھتے ہوئے سوچا۔۔تبھی ڈیوڑھی میں آہٹ سی ہوئی اور رئیسہ بیگم داخل ہوئیں ۔۔شاید وہ غسل خانے میں تھیں۔۔۔
“نواب صاحب خیریت تو ہے نا۔۔اس وقت کیسے جاگ پڑے”؟؟انہوں نے سر پر دوپٹہ درست کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔
“جی رئیسہ بیگم خیریت ہی ہے۔۔انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔”شاید آپ سے چند گھڑی کی دوری ہمیں نیند سے بھی اٹھا دیتی ہے”
رئیسہ بے ساختہ ہنس پڑیں اور جائے نماز اٹھا کر نماز کی چوکی کی طرف جاتے ہوئے بولیں “نواب صاحب! دس برس بیت گئے شادی ہوئے۔۔۔آ پ کی ادائیں روز اول کی سی ہیں “۔۔
نواب فیروز سر کے نیچے تکیہ دہرا کرتے ہوئے متبسم لہجے میں بولے ” اس میں ہمارا کیا قصور؟ ؟آپ بھی تو روز اول کی طرح ہی ہیں ۔۔اجلی،نکھری،نرم و نازک اور۔۔۔”اور بانجھ”دفعتا ًرئیسہ ان کی بات کاٹ کر گویا ہوئیں اور نواب فیروز کا مسکراتا چہرہ آن کی آن میں تاریک پڑ گیا۔۔۔کچھ لمحے کی خاموشی کے بعد جب انہوں نے لب کھولے تو پہلی سی شگفتگی نام کو بھی نہیں تھی۔۔
“رئیسہ! اگر آپ جان جاتیں کہ آپ کا ایسا رویہ ہمارے دل کو کس قدر تکلیف دیتا ہے تو شاید آپ دوبارہ ایسا کبھی نہ کہتیں۔۔۔جانے کیوں آپ کو یہ محرومی اپنی ذاتی ہی لگتی ہے جو روز بروز آپ اس قدر تلخ ہوئی جا رہی ہیں۔میں تو نا امید نہیں پھر آپ کیوں خود کو اور مجھے تکلیف دیتی ہیں؟ ؟ “رئیسہ نے کوئی جواب دیے بغیر جائے نماز بچھائی اور نیت باندھ لی۔۔نواب فیروز نے گہری سانس لیتے ہوئے کروٹ بدل لی۔۔ان کا مزاج اتنا مکدر ہو چکا تھا انہیں اپنی نیند ٹوٹنے کی وجہ بھی یاد نہیں رہی تھی۔۔۔۔
صبح کی دھیمی ہوا نواب فیروز کی حویلی میں اماں بیگم کی تلاوت اور موتیے کی مہک سے لبریز ہوئی پھر رہی تھی۔۔فیروز تازہ دم ہو کر اماں بیگم کے پاس تخت پر بیٹھ گئے اور ان کی مصروفیت کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے۔۔کچھ دیر بعد اماں بیگم نے قرآن مجید بند کیا،آنکھوں سے لگا کر جزدان میں لپیٹا اور مسکرا کر محبت بھری نگاہوں سے بیٹے کا چہرہ تکا۔۔
“آداب!اماں بیگم! !وہ ان کے آگے جھکے۔۔”جیتے رہو میرے لعل۔۔اللہ سلامت رکھے ۔تمہارے آنگن کو خوشیوں سے بھر دے”وفور محبت سے سرشار ہو کر اماں بیگم نے دعا دی،معوذتین پڑھ کر پھونکے اور تسبیح اٹھا لی۔۔
“اماں بیگم ذرا چائے تو منگوا دیجئے “فیروز نے آنکھیں موند تے ہوئے کہا تو اماں بیگم چونک گئیں “یوں صبح نہار منہ تو کبھی چائے نہ پی آپ نے۔۔جی تو اچھا ہے ناں؟ ؟
” نواب فیروز مسکرا کر بولے”جی اماں! میں بالکل ٹھیک ہوں، بس ذرا رات آنکھ کھل گئی بے وقت تو اس لیے سر بھاری معلوم ہو رہا ہے” اماں بیگم پوری طرح ان کی طرف متوجہ ہو گئیں۔۔۔
“بے وقت آنکھ کھل گئی؟ ؟کیا طبیعت بوجھل تھی؟رات کیا کھا لیا تھا؟؟
“نہیں اماں!رات دراصل وہی مہک۔۔۔۔” “اے ہے کون سی مہک؟ ؟کیا کہے جا رہے ہو۔۔؟؟انہوں نے دہل کر سینے پر ہاتھ رکھا۔۔۔نواب فیروز ہلکا سا جھنجلا گئے کہ وہ اماں بیگم کی بال کی کھال نکالنے والی عادت سے بخوبی واقف تھے۔۔سو ساری بات اماں بیگم کو تفصیل سے بتانے لگے۔۔”جانے یہ اتفاق ہے یا کیا۔۔کہ پچھلے تین مہینوں میں یہ چوتھی بار ہوا ہے اماں بیگم ۔۔تقریبا نصف رات پیچھے میری آنکھ کھل گئی اور ہر بار ہی تلسی کی مہک مجھے محسوس ہوتی ہے۔۔یوں جیسے کوئی تلسی کی باڑوں کو چھیڑ رہا ہو۔۔۔”ابھی وہ یہیں تک ہی آگاہ کر پائے تھے کہ اماں بیگم نے کلیجہ تھام لیا “آدھی رات ۔۔۔تلسی کی مہک۔۔۔ارے بچے پہلے کیوں نہ بولا۔۔۔؟؟یا رب میرے لعل کی حفاظت کرنا،پنجتن پاک کے صدقے ۔۔
یہ تو میرے منہ میں خاک ۔۔آسیب کا قصہ معلوم ہوتا ہے”۔۔
ارے نہیں اماں بیگم۔وہ ہاتھ جھلا کر بولے “آسیب واسیب کچھ نہیں ہوتا۔۔کوئی اور وجہ ہو گی۔میں آج چوکیدار کی خبر لیتا ہوں ۔مجھے لگتا ہے کہ رات میں کوئی شاگرد پیشہ والے حصے کی طرف سے حویلی میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے۔تلسی کی سبھی باڑیں اسی حصے میں ہیں
“۔۔مگر اب ان کو کون سمجھاتا،”نہیں بیٹا!سیانے کہتے ہیں تلسی بھیدی ہوتی ہے،ایسے ہی بنا بات کے کبھی نہیں مہکتی۔کوئی بات ضرور ہے ۔کوئی برا سایہ۔۔۔اے مالک رحم کرنا!میں آج ہی شاہ صاحب سے دم کیا ہوا پانی منگواتی ہوں”۔
فیروز جانتے تھے کہ اماں کے خیال میں جو سما گیا اب اس پر عمل لازم ہو کر ہی رہے گا سو بات سمیٹنے کو بولے”اچھا جیسا آپ کو مناسب خیال ہو۔۔فی الحال تو چائے منگوا دیجئے
“۔۔۔اماں بیگم گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھیں اور بولیں “ہاں میں رئیسہ کے ہاتھ کشتی بھجواتی ہوں ۔۔اور سنو۔۔۔چائے پینے کے بعد عرق گلاب آنکھوں میں ڈلوا لینا لال بوٹی سی ہو رہی ہیں نیند نہ پوری ہونے سے۔۔” نواب فیروز بے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے گاؤ تکیہ سے ٹیک لگائی اور آنکھیں موند لیں ۔۔۔
رئیسہ چائے لائیں تو فیروز نے آنکھیں کھول دیں ۔وہ ان کے قریب بیٹھ کر چائے نکالنے لگیں۔۔نزاکت،سلیقہ تو رئیسہ پر ختم تھا جیسے ،انگلیوں کی ایک ایک جنبش میں ایک عہد کا رکھ رکھاؤ تھا”شاید یہ ادا،یہ انداز یہ شاہانہ سی آن بان نوابوں کے خون میں وراثت کے ساتھ چلی آتی ہے”انہوں نے سوچا اور چائے میں چینی ملاتی رئیسہ کا ہاتھ تھام لیا۔۔۔رئیسہ اپنے دھیان میں مگن تھیں، یوں ہاتھ جو ان کی گرفت میں آیا تو چونک کر نواب فیروز کی طرف دیکھا۔۔۔
“کیا ہوا نواب صاحب؟ ؟؟”اور یہ ان کے نواب صاحب کہنے کی ادا ہی تھی کہ فیروز کے دل میں رات کی گفتگو سے جو ناگواری سی تھی آن کی آن میں معدوم ہو گئی اور وہ مسکرا کر بولے۔۔”کچھ خاص نہیں ۔۔۔بس اتنا کہ مجھے ہر دن آپ سے اک نئے طور پر الفت ہو جاتی ہے”ریئسہ چند لمحے انہیں دیکھتی رہیں اور پھر دونوں ایک ساتھ ہنس دیے۔
نواب فیروز کا گھرانا حیدر آباد کے وضع دار خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔اگرچہ پشتینی نواب تھے مگر جیسا کہ نوابین کا دستور رہا ہے،ان کے آباؤاجداد نے بھی خاندانی دولت دونوں ہاتھوں سے لٹائی اور فیروز تک پہنچتے پہنچتے بس اتنا ہی بچا تھا کہ سرکار کی چاکری اور خاندانی حویلی اور جاگیر کی وجہ سے بھرم قائم تھا۔فیروز کے والد نواب بہرام تو عرصہ پہلے وفات پا چکے تھے ۔حویلی میں ان کی والدہ اور بیوی رئیسئہ کے علاوہ چند خاندانی خدمت گار تھے یا پھر کبھی کوئی دور پرے کا ملنے والا چلا آتا تو چند دن کو ماحول میں تبدیلی سی آ جاتی ورنہ برسوں سے جاری معمول میں کبھی تعطل نہ آیا تھا۔
جمعرات کی صبح اماں بیگم نے صبح سویرے شاہ صاحب کو پیام بھیجا اور دم کیا ہوا پانی منگوا کر سارے میں چھڑکاؤ کروایا ۔۔اگر بتیاں سلگائیں اور قریبی مسجد میں لنگر بھجوا کر اپنے تئیں مطمئن ہو گئیں۔فیروز حد ادب خیال کرتے ہوئے اس کارروائی کو خاموشی سے برداشت کرتے رہے مبادا اماں بیگم کا دل برا نہ ہو مگر سچ تو یہ تھا کہ انہیں اس آسیب،بھوت پر قطعاً کوئی یقین نہیں تھا اور انہوں نے سوچ لیا تھا کہ اپنے طور پر وہ اس آدھی رات کو مہکنے والی تلسی کے بھید کا سراغ لگا کر ہی رہیں گے۔ تلسی کی باڑیں تھیں بھی تو بے حد گھنی اور ایک ٹھوس دیوار کے ہی جیسی لگتی تھیں ۔ باڑوں کے پرے دو کوٹھڑیاں تھیں۔ایک میں چوکیدار رہا کرتا تھا اور دوسری رام دیال کی تھی جو ان کے ہاں اوپر کے کام کیا کرتا تھا جیسے بازار سے ایندھن لانا،جلانے لائق ٹکڑے کرنا۔کپڑوں کی دھلائی اور استری اور اسی طرح کے دیگر چھوٹے بڑے کام وہ انجام دیتا تھا۔فیروز کا ارادہ چوکیدار سے تفتیش کا تھا وہ ہشیار آدمی تھا جبکہ رام دیال کے جثے میں طاقت تو بہت تھی مگر عقل سے تقریباً پیدل ہی تھا اس سے کچھ پوچھنا تو حماقت ہی ہوتی۔
فیروز ابھی تحقیقات کا آغاز بھی نہ کر پائے تھے کہ حویلی کی اور اس کے مکینوں کی تقدیر ہی بدل گئی ۔
فیروز کا دل رک رک کے چل رہا تھا۔۔کانپتے لہجے میں انہوں نے اماں بیگم سے تصدیق چاہی”اماں ۔۔بب بیگم۔۔۔۔کیا یہ سچ ہے۔۔۔رئیسہ واقعی ؟؟فرط مسرت سے آنکھیں لبریز تھیں اور جملہ پورا کرنا بھی محال تھا فیروز کے لیے ۔اماں نے گلے سے لگاتے ہوئے مبارک دی اور بولیں ۔۔”ہاں بیٹا!اللہ پاک نے اس سونی حویلی کے آنگن میں چاند اتار ہی دیا۔دلہن بیگم امید سے ہیں ۔صدقے جاؤں مولا کے۔۔۔آخر دس برس کی دعائیں مقبول ہوئیں ۔دیکھو مجھے کل کی گاڑی سے اجمیر شریف بھجوا دینا۔منت پوری ہوئی ہے ۔نذر دینی ہے اور جاؤ ذرا رئیسہ کی بھی خبر کو چھوئی موئی بنی بیٹھی ہیں ۔مبارکی دو ”
فیروز گویا ہواؤں میں اڑتے ہوئے اپنے کمرے میں پہنچے۔۔۔رئیسہ سامنے ہی دراز تھیں اور اس خوشی نے ان کو اس قدر حسین بنا دیا تھا کہ فیروز کا جی چاہا ۔۔کاش ان کا دل ایک نگینہ ہوتا وہ بڑی چاہ سے اسے انگشتری میں جڑوا کر رئیسہ کی نذر کرتے۔گلابی لباس کا رنگ رخساروں سے گھلا ملا تھا اور دوپٹے کی گوٹ شب وصل میں جلنے والی شمعوں کی مانند جگمگا رہی تھی۔ان کی آنکھیں بند تھیں اور لبوں پر ملکوتی مسکراہٹ کھل رہی تھی۔
فیروز دبے پاؤں اندر داخل ہوئے اور اپنے مضبوط ہاتھ رئیسہ کے نرم و نازک موتیے کی کلیوں سے اجلےپیروں پر رکھ دیے ۔۔رئیسئہ نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں اور فیروز کو دیکھ کر جلدی سے پاؤں سمیٹنے لگیں ۔ “نواب صاحب ۔۔!خدارا کیوں گنہگار کر رہے ہیں ہمیں “ہاتھ ہٹایئے ہمارے پیروں سے”وہ حواس باختہ سی ہو کر ان کے ہاتھ ہٹانے لگیں مگر فیروز نے ان کے ہاتھ بھی جکڑ لیے اور جذبات میں بھیگے لہجے میں بولے ” نہیں رئیسہ۔ مجھے اس جنت کے لمس سے محروم تو نہ کرو جو ان پیروں تلے سمٹ آئی ہے۔ محسوس تو کرنے دو مجھے۔کتنے ٹھنڈے ہیں تمہارے پاؤں جیسے حیات سرمدی کے خنک چشمے انہی تلوؤں سے تو پھوٹتے ہوں۔”فیروز جانے کتنی دیر ابھی یونہی مگن رہتے کہ رئیسہ کی آنکھوں سے ٹپاٹپ آنسو گرنے لگے۔ ۔”ارے آج تو ان آنسوؤں کا اہتمام رہنے دیا ہوتا۔اتنی بڑی خوشخبری کا ناس مارنے کی ضرورت نہیں “انہوں نے پیار سے ڈپٹا اور رئیسہ کو خود میں سمیٹ لیا۔۔
فیروز اور رئیسہ کی شادی ہوئے دس برس گزر چکے تھے مگر جانے اللہ کی مرضی کیا تھی کہ ان کی گود ہری نہ ہوئی۔شادی کے پہلے سال دبے لفظوں میں اور دو سال بعد کھلے بندوں سبھی رئیسہ کو بانجھ ٹھہرانے لگے۔اماں بیگم نے بھی کوئی حکیم وید ، کوئی آستانہ چھوڑا نہ تھا جہاں رئیسہ کو لے کر ماتھا نہ ٹیکا ہو مگر گل امید کھل کر نہ دیا۔اس صورتحال نے میدے کی گڑیا سی رئیسہ کو چرمرانا شروع کر دیا ۔۔ملنے والیوں کی گودوں میں ہمکتے بچے دیکھتیں تو ہاتھ اپنی سونی گود میں جا پڑتا،اوپر سے اماں بیگم کی ٹھنڈی آہیں انہیں گڑا جاتیں اور دنوں وہ خجل سی ہوئی ساس سے کتراتی رہتیں ۔رفتہ رفتہ وہ آدم بیزار سی رہنے لگیں ۔۔ملنے والوں سے واسطہ بس خوشی غمی تک محدود کر دیا۔مہینوں ابا کے گھر کا رخ نہ کرتیں کہ بھاوجوں کو بچوں کے لاڈ اٹھاتے دیکھ کر وہ جی ہی جی میں کلستی تھیں ۔حاسد کہلانا نہیں چاہتی تھیں سو میل ملاقات کو ہی مختصر کر دیا۔فیروز کو بھی اس کمی کا احساس تو تھا مگر ملازمت کے دھندوں جاگیر کی دیکھ ریکھ کے کاموں اور دوستوں کی محفلوں میں کھو کر خاصی حد تک خوشگوار زندگی گزار رہے تھے۔
تیسرا سال لگتے ہی اماں بیگم کھل کر فیروز کی دوسری شادی پر کمر بند ہو گئیں اور حد تو یہ تھی کہ رئیسہ بھی ان کی ہمنوا تھیں ۔مگر یہ وہ واحد محاذ تھا جہاں فیروز ڈٹ گئے۔اماں کے ہزار واویلوں اور فیل مچانے کے باوجود ان کا ایک ہی جواب تھا کہ”اللہ نے نوازنا ہوا تو رئیسہ ہی مجھے اولاد کا تحفہ دیں گی۔ ورنہ کچھ ایسی چاہ نہیں “رئیسئہ دل ہی دل میں ان کی ممنون ہوتیں کہ بانجھ ہونے کے باوجود نواب فیروز کے دل اور گھر کی بلاشرکت غیرے مالک تھیں۔اماں بیگم بالآخر ہار مان کر اب اپنی کوششوں کو دواؤں اور دعاؤں تک محدود کر چکی تھیں۔جہاں کسی حکیم طبیب کا شہرہ سنتیں جھٹ رئیسہ کو لیے پہنچ جاتیں اور بیچاری رئیسہ کڑوے معجون اور بد ذائقہ محلول اس آس پر انڈیلے جاتیں کہ شاید کوئی وسیلہ ہی ان کی سوکھی کھیتی کو ہرا کرنے کا موجب بن جائے۔۔۔اور اب جب اماں بیگم اور رئیسہ دونوں ہی تھک ہار چکی تھیں تو سوکھے دھانوں پر پانی نہیں بلکہ ابر کرم برسا تھا۔نواب بہرام کی نسل کا امین آنے کو تھا۔۔۔
رئیسہ کے تیسرے مہینے کا آغاز ہو چکا تھا اور منتوں مرادوں سے ملنے والی خوشخبری ابھی تک سب سے چھپائی جا رہی تھی کہ ہزار بد خواہ موجود ہوتے ہیں ۔کہیں کسی کی میلی نظر نہ لگ جائے۔لنگر نیاز اور صدقات وخیرات کا سلسلہ بھی ہنوز جاری تھا۔۔اس دن ابر چھایا ہوا تھا ۔ فیروز بھی لگ بھگ پندرہ دن بعد واپس آئے تھے اور پچھلے صحن میں محفل جمی تھی۔اماں بیگم فیروز سے جاگیر کا احوال لینے میں مصروف تھیں اور رئیسہ دونوں پاؤں پسارے تخت پر دراز تھیں ۔آموں کی پال آج ہی ہٹائی تھی اور فضا مختلف قسموں کے آموں کی مہک سے لبریز تھی۔
رام دیال بازار سے ایندھن لایا اور چھوٹی کلہاڑی سے ٹکڑے بنانے لگا۔اس کے مضبوط بازوؤں کی مچھلیاں کلہاڑی کی ہر ضرب سے تڑپ اٹھتیں۔منگولوں کے سے پھیلے ناک پر پسینہ ایک دھار سے بہہ رہا تھا۔دفعتا فیروز کو کچھ عجیب سا احساس ہوا۔انہیں لگا کہ رئیسہ بھسم کر دینے والی نگاہوں سے رام دیال کو گھور رہی ہیں اور یہی نہیں بلکہ دانت بھی کچکچا رہی ہیں۔ انہوں نے بات ادھوری چھوڑ کر رئیسہ کو متوجہ کیا “کیا بات ہے رئیسہ ۔۔جی تو اچھا ہے ناں؟ ؟
“رئیسہ کسی خیال سے چونک کر ٹھٹکیں اور ابکائی لیتے ہوئے اندر کو بھاگیں ۔فیروز پریشانی سے پیچھے لپکنے لگے مگر اماں نے بازو سے پکڑ کر بٹھا لیا”ارے بیٹا ۔۔دلہن بیگم خیر سے امید سے ہیں۔یہ متلی،قے تو معمول کی بات ہے۔ابھی لیموں کا شربت دیتی ہوں فوراً طبیعت بحال ہو جائے گی۔۔۔تم ذرا اپنی نگرانی میں یہ ایندھن کوٹھڑی میں بھروا دو۔رام دیال کے آسرے پر چھوڑا تو سب سیلا ہو جائے گا”وہ چپل اڑستی اٹھیں اور باورچی خانے کی طرف بڑھ گیئں۔فیروز بادل نخواستہ ایندھن اٹھوانے لگے مگر دل ابھی بھی رئیسہ کی کیفیت میں ہی اٹکا ہو تھا۔۔
کام ختم کروا کر وہ اپنے کمرے میں پہنچے تو رئیسہ مگن سی ایک ننھا سا کرتا کاڑھ رہی تھیں ۔۔سرشاری انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی اور دھیمے سروں میں وہ کوئی لوری گنگنا رہی تھیں ۔فیروز نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے سوچا ” شاید اماں بیگم ٹھیک ہی کہہ رہی تھیں ۔یہ کیفیات شاید اس دورانیے میں یونہی وارد ہوتی رہتی ہیں ” وہ آگے بڑھے اور رئیسہ کے ہاتھ سے سوئی دھاگہ اور کرتا لے کر ایک طرف ڈال دیا”ارے واہ بھئی۔۔یہ اچھی رہی۔ابھی جناب دنیا میں آئے بھی نہیں اور ہماری بیگم نے ہمیں ہری جھنڈی دکھا دی۔ارے بھئی اتنے دن پیچھے آیا ہوں ۔۔۔کوئی خبر میری بھی لو”وہ شوخی سے انہیں چھیڑ رہے تھے۔۔۔رئیسہ لب دبا کر ہنس پڑیں اور دھیرے سے بولیں ۔۔”آپ تو جانتے ہی ہیں کتنا بھی دور رہیں دل تو آپ سے ہی ملا رہتا ہے۔۔ اور یہ تیاری تو ننھے کی کرنی ہی ہے۔۔مجھے تو لگتا تھا میں اس اہتمام سے ہمیشہ محروم رہوں گی۔۔۔اف کیسا کیسا جی جلتا تھا میرا۔۔۔۔ان کی آواز بھرا گئی اور وہ جملہ مکمل نہ کر پائیں۔فیروز نے آگے بڑھ کر ان کا سر سینے سے لگا لیا اور تھپکتے ہوئے انہیں بہلانے لگے”اچھا اب بس۔۔۔آگے ایک لفظ اور نہیں۔اللہ کا شکر ادا کیا کرو کہ دیر ہی سے سہی ۔ہماری دعائیں مقبول ہوئیں ۔۔اور خوش رہا کرو تاکہ ننھا بالکل تم جیسا ہو۔۔۔”وہ ان کا دھیان بٹانے لگے اور رئیسہ فوراً بولیں ۔”ارے واہ!وہ بالکل آپ سا ہو گا خوبرو اور یہ تیکھی ناک۔وہ اب مکمل طور پر بہل چکی تھیں ۔۔کچھ دیر پہلے والی کیفیات اب مکمل غائب تھیں ۔
جیسے جیسے دن گزر رہے تھے ،رئیسہ کی جسمانی تبدیلیوں میں اضافہ ہونے لگا تھا۔ تھکان سے نڈھال وجود،پیروں پر سوجن اور عجیب سی بیزاری انہیں ہر وقت گھیرے رکھتی۔بات بات پر الجھتیں۔بحث مباحثہ اور پھر نیر بہانے لگتیں ۔چند مہینوں پہلے والی خوشی اور سرشاری اب نام کو بھی نہیں رہ گئی تھی۔۔فیروز ان کی اس کیفیت کو اس طویل تھکا دینے والے مرحلے اور قدرتی تبدیلیوں کا نتیجہ سمجھتے ہوئے بحث سے گریز کی ہر ممکن کوشش کرتے اور رئیسہ سے تلخ نہ ہوتے ۔مگر وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ عجیب سے عجیب تر ہوتی جا رہی تھیں ۔کبھی نوکروں کا فصیحتہ تو کبھی اماں بیگم سے دو بدو بحث ۔ اماں بیگم تو اب باقاعدہ چڑنے لگی تھیں ۔۔بیٹے کی خوشی کا خیال کرتے ہوئے منہ پر تو کچھ نہ کہتیں مگر بڑبڑاتیں ضرور” توبہ ہے!!بہو بیگم تو انوکھا بچہ پیدا کرنے لگی ہیں۔گھر بھر کی جان ضیق کر رکھی ہے۔”فیروز جانتے بوجھتے پہلو تہی کر لیتے ۔
ایک دن فیروز کے کچھ دوست ملنے چلے آئے۔۔انہیں مردان خانے میں بٹھا کر چائے کا کہنے چلے گئے۔۔رئیسہ بوجھل قدم گھسیٹتی اٹھیں اور چائے کا انتظام کرنے چل دیں ۔۔ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ باہر سے ایک شور سا سنائی دیا۔۔فیروز گھبرا کر باہر کو بھاگے تو عجیب منظر تھا۔ رام دیال سامنے کھڑا تھر تھر کانپ رہا تھا۔چائے کا سامان سب طرف بکھرا پڑا تھا۔ برتنوں کے ٹکڑے جا بجا پھیلے تھے اور رئیسہ رام دیال کو لگاتار کوس رہی تھیں ۔۔”نامراد ۔۔۔حرام خور ۔۔ہاتھ ٹوٹ گئے تھے کیا۔۔؟ناس مار دیا اتنے قیمتی سیٹ کا۔ارے کمبخت میرے بھیا ولایت سے لائے تھے” فیروز تیزی سے آگے بڑھے اور رئیسہ کا ہاتھ تھام کر تخت تک لے آئے”
ریسئہ بس کر دو۔۔جی بگڑ جائے گا۔آرام سے بیٹھو یہاں”لو پانی پیو،انہوں نے تیز تیز سانس لیتی رئیسہ کے منہ سے پانی کا گلاس لگا دیا۔۔دو گھونٹ پی کر ہی انہوں نے ہاتھ سے پرے ہٹا دیا اور پھر سے بولنے لگیں ۔۔”کیا بس کروں؟ ؟نامراد کی ہڈ حرامیاں کم ہونے میں ہی نہیں آتیں ،اس دن غرارہ مسکا دیا سارا،تن زیب کے کپڑے کو کم بخت دھوبی ڈنڈے سے پیٹ رہا تھا۔۔۔آج میرا فرانس کا سیٹ پھسلا دیا۔ بس اب نہیں آج کے آج ہی نکالیں اسے۔میں اب اسے برداشت کر ہی نہیں سکتی”فیروز نے بمشکل انہیں ٹھنڈا کیا اور بازاری اشیاء سے دوستوں کی تواضع کر کے انہیں رخصت کیا۔رات تک رام دیال کوٹھڑی میں دبکا رہا اور رئیسہ گاہے بگاہے بول بول کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرتی رہیں ۔۔
فیروز نے خاصی دیر اماں بیگم کے کمرے میں گزار کر اپنے کمرے کا رخ کیا تو خیال تھا کہ اب تک رئیسہ سو چکی ہوں گی اور بے کار کی بحث بازی میں الجھنا نہ پڑے گا۔۔۔مگر۔۔۔خوبی قسمت۔۔وہ جب کمرے میں پہنچے تو رئیسہ نہ صرف جاگ رہی تھیں بلکہ انہی کے انتظار میں وقت گزاری کو اون اور سلایوں سے الجھی ہوئی تھیں ۔۔
فیروز نے گہری سانس لیتے ہوئے خود کو مباحثے کے لیے تیار کیا اور بستر کی طرف بڑھے۔۔۔
“رکیے! تکیہ لگا دوں “رئیسہ اٹھنے لگیں تو فیروز نے انہیں روک دیا۔”نہیں میں لے لوں گا “آپ بھی اس کام کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھیں اور آرام کریں “انہوں نے رئیسہ کے ہاتھ سے سامان لے کر تپائی پر رکھا اور دراز ہو گئے۔۔۔
آرام تو اب اس منحوس رام دیال کے جانے سے ہی ہو گا” نفرت سے جھرجھری لیتے ہوئے رئیسہ بولیں ۔۔”یعنی کہ سوئی ابھی وہیں ہے۔۔فیروز نے بے بسی سے سوچا اور نرم آواز میں سمجھانے کی سعی کرنے لگے”دیکھو رئیسہ۔۔۔اتنی معمولی بات کو الجھانے کی کیا ضرورت ہے۔۔؟؟غلطی کوتاہی تو ہر ایک سے ہو جاتی ہے۔اس طرح کسی غریب کو رزق روٹی کے آسرے سے محروم کرنا گناہ ہو گا۔۔دیکھو تو اللہ نے کیسے ہماری زندگیوں میں رنگ بھر دیے۔ اور کچھ نہیں تو اسی خوشی کے صدقے اس کو معاف کر دو۔۔۔”
مگر رئیسہ پر تو الٹا ہی اثر ہوا۔۔وہ بھک سے بارود کی طرح اڑیں”اچھا خوب!تو اب اس دو پیسے کے نوکر کی خاطر میری بات ٹالی جائے گی۔ واہ نصیب!
اس حرام خور کی حمایت میں آپ یہ بھی بھول بیٹھے کہ میں بھی آپ کی کچھ لگتی ہوں ۔۔فیروز نے بہیترا معاملہ سنبھالنا چاہا مگر حالات قابو سے باہر ہوتے گئے۔رئیسہ نے چلا چلا کر گلا بٹھا لیا۔ہاتھ پیر اینٹھ گئے۔اماں بیگم لرزتی کانپتی فق چہرے کے ساتھ بھاگتی چلی آئیں۔ایسے دنوں میں یہ حالت دیکھ کر انہوں نے سر پیٹ لیا۔فیروز کو بھی لتاڑا کہ ایک نوکر کی خاطر کیوں آنے والے کا گلا گھونٹنے پر تلے ہوئے ہیں۔ناچار فیروز کو بات مانتے ہی بن پڑی اور انہوں نے رئیسہ سے وعدہ کر لیا کہ وہ رام دیال کو فارغ کر دیں گے۔رئیسئہ نے بات منوا کر ہی طبیعت سنبھالی اور فیروز کا ہاتھ تھام کر سو گیئں۔۔
دو دن تو انہوں نے یہ سوچنے میں گزارے کہ آخر وہ کس طرح اور کن الفاظ میں رام دیال کو نوکری سے فارغ کریں ؟خاندانی نوکر تھا۔ تین پشتوں سے رام دیال کا دادا ۔۔پھر باپ اور اب رام دیال،نواب بہرام کے خدمت گار تھے۔۔فیروز طبعاً بہت نرم اور ہمدرد تھے اور یہ مرحلہ انہیں سخت دشوار لگ رہا تھا۔اس دوران آتے جاتے رئیسہ انہیں منتظر نگاہوں سے تکتیں۔ ۔۔وہ عجیب گومگو کی کیفیت میں تھے۔۔ آخر انہیں ایک حل سوجھ ہی گیا اور انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔۔
فیروز برآمدے میں بیٹھے کچھ سرکاری عرضداشتوں کی منظوری کے حوالے سے سفارشات لکھ رہے تھے جب ڈرا سہما رام دیال آیا اور ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑا ہو گیا ۔۔”مالک میرے سے غلطی ہو گئی۔ مجھے ماپھی دے دیو۔ ۔۔وہ گڑگڑاتے لگا۔فیروز نے ایک نظر اس پر ڈالی اور کہنا شروع کیا۔”رام دیال تم شام تک کوٹھڑی خالی کر دو۔۔۔”یعنی بنتی اکارت گئی”رام دیال نے مایوسی کی دلدل میں ڈوبتے ہوئے سوچا مگر فیروز کی بات ابھی جاری تھی۔ “جاگیر پر چوکیدار کا لڑکا کوتاہی کر رہا ہے۔آئے دن کوئی نہ کوئی جھگڑا کھڑا رہتا ہے۔ میں اسے یہاں منگوا رہا ہوں۔تم اس کی جگہ چلے جاؤ”رام دیال کی نوکری بچ گئی۔وہ ان کے قدموں سے لپٹ پڑا مگر فیروز نے اسے ہٹایا اور تاکید کرنے لگے کہ بیگم صاحبہ کو خبر نہ ہونے پائے کہ تمہیں جاگیر پر بھیجا گیا ہے۔ فیروز کے اقبال کو دعائیں دیتا وہ سامان سمیٹنے چلا گیا۔۔۔
رئیسہ کمرے کی کھڑکی سے رام دیال کو جاتا دیکھ رہی تھیں اور لبوں پر زہریلی مسکراہٹ کا بسیرا تھا۔۔۔”شکر ہے۔۔۔یہ تلوار تو اتری ” وہ بڑبڑایئں ۔۔پھر کھلکھلا کر ہنس دیں اور کھڑکی بند کر دی۔
اسی شام کو چوکیدار کا لڑکا آ گیا وہ کافی ہوشیار تھا آتے ہی بہت سے کام سنبھال لیے۔اماں بیگم بھی خوش تھیں ۔”اے یہ تو اچھا ہوا۔رام دیال کے کمزور بھیجے میں تو بات آسانی سے گھستی ہی نہیں تھی ” اماں بیگم نے تبصرہ کیا اور رئیسہ پکوڑے تلتی ہوئی ہنس دیں ۔۔۔
بہت دن بعد گھر کا ماحول خوشگوار ہوا تھا۔۔فیروز بھی باورچی خانے میں چلے آئے اور موڑھا گھسیٹ کر بیٹھ گئے۔۔اماں نے پکوڑوں کی پلیٹ اور کٹوری میں تلسی کی چٹنی ان کے آگے رکھی۔۔فیروز نے چٹنی میں پکوڑا ڈبو کر منہ میں رکھا اور ذائقے کے ساتھ ہی ان کے ذہن میں چند مہینے پہلے تلسی کی مہک والا واقعہ تازہ ہو گیا جو وہ اس سارے جھنجھٹ میں بھلا چکے تھے۔۔۔وہ اماں بیگم سے کہے بغیر نہ رہ سکے۔۔”اماں بیگم! !حیرت ہے وہ تلسی کی مہک اس دن کے بعد دوبارہ نہ آئی۔۔” ارے آتی کیسے۔۔۔شاہ صاحب کے دم والے پانی کا کرشمہ ہے بیٹا ۔۔کوئی ہوائی مخلوق ہو گی۔۔شکر ہے سب خیر رہی۔۔۔تم بیٹھو میری عصر کی نماز کا وقت تنگ ہو رہا ہے۔۔”اماں بیگم بولتی ہوئی باورچی خانے سے نکل گئیں اور اپنے دھیان میں گم فیروز رئیسہ کے چہرے پر پھولتی سرسوں دیکھ ہی نہیں پائے۔۔۔۔
یہ رام دیال کے برخاست کیے جانے کے ایک مہینہ بعد کی رات تھی جب یکدم رئیسہ نے پوری شدت سے فیروز کو جھنجھوڑ کر جگایا۔۔فیروز ہڑبڑا کر جاگے”رئیسئہ خیریت تو ہے ۔۔کیا ہوا”۔ریسئہ کا چہرہ ہلدی رنگ ہو رہا تھا پسینہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔۔”نہیں ۔۔ام۔اماں ۔۔بیگم کک۔۔کو بلایئے “ہانپتے ہوئے انہوں نے بمشکل کہا۔۔فیروز سرعت سے کمرے سے نکل گئے اور اماں بیگم کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا ۔۔اماں نے فورا گرم پانی کا دیگچہ چڑھایا اور فیروز کو دو گلیوں کے فاصلے پر رہتی دایہ کو لینے دوڑایا۔۔
گاہے گاہے رئیسہ کی کرب میں ڈوبی چیخ کمرے کے دروازے سے باہر سنائی دیتی تو باہر بے چینی سے ٹہلتے فیروز کا دل کوئی مٹھی میں لے کر مسلنے لگتا۔۔اماں بیگم مسلسل جائے نماز پر تھیں ۔۔”جانے کیا ہو گا۔ خدایا رحم کرنا۔ “فیروز شدت سے دعا کر رہے تھے۔۔دفعتاً ایک ننھی سی چیخ ابھری اور پھر کوئی گلا پھاڑ کر رونے لگا۔ فیروز سرتاپا کانپ گئے۔ ۔۔اوہ خدایا۔ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے”اماں بیگم سجدہ شکر بجا لائیں اور تخت سے اتر کر کمرے کی طرف لپکیں ۔۔۔
دروازہ کھلا اور تھکی ہوئی مگر مسکراتے چہرے کے ساتھ دایہ باہر نکلی”ارے نواب بیگم۔۔۔مبارک ہو،پوتے کی شکل دکھائی ہے مولا نے۔۔۔” اے مالک کس منہ سے تیرا شکر کروں۔۔اماں بیگم رونے لگیں اور بولیں ۔۔”میں شکرانے کے نوافل ادا کر کے ہی پوتے کا منہ دیکھوں گی۔۔”فیروز جاؤ ۔۔منے کے کان میں اذان دو۔۔۔فیروز سر ہلاتے اندر کو لپکے۔۔اماں بیگم نے دایہ کو اپنی خاصی وزنی انگوٹھی عنایت کی اور شکر ادا کرتیں اندر کو چلی گئیں ۔۔
فیروز کمرے میں داخل ہوئے ۔۔ریسئہ سرسوں کا پھول بنی لیٹی تھیں ۔۔۔انہوں نے بے حد محبت سے ان کی آنکھوں پر بوسہ دیا۔۔۔اور پہلو میں لیٹے بچے کو احتیاط سے اٹھا لیا ۔۔اور یہی وہ وقت تھا جب انہیں ایک عجیب سا احساس ہوا۔۔ ان کی ناک خاصی تیکھی تھی اور رئیسہ کا ناک بھی اونچا تھا ۔ مگر۔۔بچے کا ناک۔۔پھیلا ہوا۔۔کچھ کچھ منگول۔۔۔۔؟؟
خیر انہوں نے اذان دینے کے لیے سر پر بندھی ٹوپی ہٹائی اور بچے کے کان کے قریب جھکے۔۔۔اور پتھرا گئے۔۔۔۔دائیں کان کے نیچے گردن پر ۔۔چھوٹی انگلی کے ناخن کے برابر سیاہ مسا چمک رہا تھا۔۔۔فیروز کا دم الجھنے لگا”یہ تو۔۔۔۔یہ رام دیال کا خاندانی پیدائشی نشان ہے۔۔۔ٹھیک اسی جگہ رام دیال کے باپ کو بھی تھا۔۔ رام دیال کو بھی۔۔۔اور چند مہینے پہلے جب اس کی پتنی سب سے چھوٹے بچے کے ساتھ شہر آئی تھی۔۔اس کے بھی یہی نشان تھا اور وہ اماں بیگم کو بتا رہی تھی کہ یہ نشان ان کے خاندان میں کئی پشتوں سے چلا آتا ہے۔۔۔”
چند مہینے پہلے آدھی رات کو مہکنے والی تلسی نے بڑے بھیانک طور پر اپنا بھید کھولا تھا۔۔۔”
بچہ ان کے ہاتھوں میں لرزنے لگا۔۔اور فیروز کو یوں محسوس ہوا جیسے تلسی کے پتوں کے ہزاروں ہاتھ ان کا گلا دبوچ رہے ہیں اور دور کھڑا رام دیال قہقہے لگا رہا ہے۔۔۔!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں
براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تلسی کے پتے۔مريم مجيد“