ایک ماں کی حسرت۔۔۔۔عدیل رضا عابدی

بھارت کے زیر اثر کشمیرجہاں منظم طور پر تحریک آزادی جاری ہے، جسے کچلنے کیلئے بھارت کی جانب سے آئے روز نئے نئے مظالم ڈھائے جاتے ہیں جن کی انتہا یہ ہے کہ کشمیر میں اب نوجوانوں کی نسل کشی جاری ہے۔
کشمیری نوجوانوں کی گرفتاریاں اور اس کے بعد ماورائے عدالت قتل کبھی نہ چھپنے والا وہ فعل قبیح ہے جسے اقوام متحدہ کے چارٹرڈ1996 میں جنگی جرم کے طور پر شمار کیاگیا، اب جب فعل ہی جرم ٹہرا تو کیا فرق پڑتا ہے کہ کراچی میں ہو یا کشمیر میں، جرم تو جرم ہے۔۔۔
کراچی ہو کہ کشمیر، یا کوئٹہ یا پشاور، ماورائے عدالت قتل کئے جانے والے وہ نوجوان جنہوں نے اپنے حق ِ خوداردیت کے لئے آواز بلند کی، ان سب کے قاتل معلوم و ایک ہیں، کیوں کہ ان سب کی طینت، صفت اور نیت ایک ہے۔۔۔
ایک ماں کا اپنے بیٹے کے لاشے پر نوحہ جو آپ کو کشمیر میں بھی نظر آئے گی اور کراچی میں بھی۔۔۔۔ ماں نوحہ کناں ہے کہ۔۔۔!
بیٹا!!!!
تری شادی کا کیا جشن کروں
ترےفُقارکےلولوو مرجان سبھی
کیا اپنی گود میں بھرتی میں
ہرحسرت میری خون ہوئی
ترے زخموں کا مضمون ہوئی

بیٹا یہ میری خواہش تھی
ترے کاندھوں کا میں بوجھ بنوں
ہاتھوں سے مجھے تو دفن کرے

پر غربت کی ترتیب ہے یہ
کیسی لکھی تقدیر ہے یہ
جس سر پہ سہرا سجنا تھا
اس سر کو زخم نے کھول دیا
سہرے کے سارے پھول ترے
بن کھلتے ہی مرجھاسے گئے
باوردی فوجی کے ہاتھوں
یہ پھول سبھی کملا سے گئے

اب سہرا تو نہ باندھے گا
نہ دلہا تجھے بناوں گی
اب کفن تجھے پہناوں گی

گر سینہ تیرا چھلنی ہے
تو سر میرا بھی زخمی ہے
اس سنگدل قاتل نے مجھ پر
بندوق کے بٹ برسائے ہیں

بہنوں کی عصمت لوٹی ہے
بھائی، بابا کی گمشدگی
سب ہستی میری لوٹی ہے

بندوق اٹھا کر وردی میں
یہ قاتل پیچھا کرتے ہیں
ترے لاشے سے لپٹی ہوں میں
اور قاتل ان بندوقوں سے
سرمیرا زخمی کرتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

بیٹا اب اجازت دے مجھکو
ہجرت کے سفر پہ جانا ہے
اک دیپ نیا جلانا ہے
اپنی ہستی میں تجھے دفناکر
تراماتم منانا ہے۔۔۔۔ !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply