میں اور امی۔۔۔۔طارق احمد

اچھا میری اپنی امی کے ساتھ بہت دوستی تھی۔ ہم چھ بہن بھائی تھے۔ تین بھائی اور تین بہنیں اور میرا نمبر تیسرا تھا۔ اس زمانے میں یہی تیسرا تھا۔ جو میری امی کے ہاتھوں میں کھیلتا تھا۔ امی سبزی گوشت لینے جا رہی ہیں ۔ اور میں ہاتھ میں ٹوکری پکڑے ان کے ساتھ جا رہا ہوں۔ سبزی لینے کا امی کا طریقہ عجیب تھا۔ اگر بھنڈیاں لینی ہوتیں  تو امی نے ایک ایک بھنڈی اٹھانی، مجھے دکھانی اور کہنا۔ بھنڈی لمبی اور پکی نہیں ہونی چاہیے ۔ نرم لوویں جیسی ہو۔ تازی ہو۔ اسی طرح دوسری سبزیوں کے متعلق بتانا۔ میں نے خاموشی سے کھڑے رہنا اور سر کو ہلاتے رہنا۔ جیسے سب سمجھ رہا ہوں۔ سبزی لے کر امی نے سبزی والے سے کہنا۔ اوپروں تھوڑا سا دھنیا ڈال ، سبزی والے نے دھنیا ڈال دینا۔ پھر امی نے کہنا ، سبز مرچیں بھی ڈال ، سبزی والے نے سبز مرچیں بھی ڈال دینی۔ امی نے دھنیے اور سبز مرچوں کے پیسے نہ دینے۔ میں نے خاموشی سے امی کی طرف دیکھنا۔ امی میری آنکھوں کو سمجھ جاتی۔ اور کہتی ان چیزوں کے پیسے نہیں ہوتے۔ میں نے خاموشی سے پھر سر کو ہلا دینا۔ کئی بار سبزی والے نے کہنا۔ پین جی، آپ لڑکے کو لے آتی ہیں۔ اسے پڑھانا لکھانا نہیں کیا ؟ امی نے کہنا۔ یہ بھی پڑھائی لکھائی ہے۔ تم زیادہ نہ بولا کرو۔ پھر گوشت کی باری آنی۔ کوئی دن ایسا نہیں تھا۔ جب قصاب سے جھگڑا نہ ہونا۔ امی نے کہنا، تم گوشت میں چھیچھڑے ملا رہے ہو۔ قصاب بہت نخرے والا تھا۔ اس نے ہاتھ چھوڑ کر بیٹھ جانا اور کہنا۔۔ گوشت ختم ہو گیا ہے ۔ امی نے بھی کھڑے رہنا۔ واپسی پر ہم نے ایک اور قصاب کی دکان سے گزرنا۔ میں نے خاموشی سے امی کی طرف دیکھنا۔ امی سمجھ لیتی اور کہتی۔ یہ قصاب گوشت میں بکری کا گوشت شامل کر دیتا ہے۔ جو لذیذ نہیں ہوتا اور پکتا بھی دیر سے ہے۔ میں نے پھر امی کی جانب دیکھنا۔ اور اب پوچھ لینا۔ اس فرق کا کیسے پتہ چلتا ہے۔ امی نے فرق بتانا اور کہنا۔ تمہاری نانی نے مجھے یہ سب کچھ بتایا تھا۔ ہم چھ بہن بھائی، دو والدین اور ایک چچا کل نو افراد تھے۔ امی نے گن کر دس بوٹیاں کروانی۔ اور ہم نے ایک بوٹی کے ساتھ شوربہ یا سبزی لگا کر تین چار روٹیاں کھا جانی۔ آجکل گوشت کی فراوانی اور گوشت کی بے حرمتی پر دل کبھی کڑھتا ہے۔ اور کبھی خوش بھی ہو جاتا ہے۔ رات کو دال چاول پکتے یا کچھڑی پکتی۔ جو دودھ ڈال کر یا دہی کے ساتھ کھائی جاتی۔ صبح ناشتے میں رات کا بچا ہوا سالن پراٹھوں کے ساتھ کھایا جاتا۔ کچھ ایسی ہی سادہ زندگی تھی۔ کمانے والے ایک والد صاحب تھے۔ کھانے والے زیادہ تھے۔ سچی بات ہے۔ ہم یہ سچویشن سمجھتے تھے۔ اس لیے کبھی بڑا مطالبہ ہی نہیں کیا۔ اسکول کے زمانے میں چوانی یعنی چار آنے جیب خرچ ملتا تھا۔ ایم اے میں آتے آتے ترقی ہو گئی۔ اور جیب خرچ ایک روپیہ ہو گیا۔ والد صاحب نے سائیکل لے کر دی ہوئی تھی۔ ہم بھائی اس سائیکل پر اکھٹے اسکول اور کالج جاتے۔ بڑے بھائی یونیورسٹی گئے تو یہ سائیکل مکمل طور پر ہمارے قابو میں آ گئی۔ اور پھر ایک پیارے دوست کے چھوٹے بھائی کی نذر ہو گئی ۔ میں فارغ وقت میں امی کے ساتھ سبزی بنا دیتا۔ مٹر نکالنے اور امی کی آنکھ بچا کر کھانے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ خاص طور پر جب امی کی جوتی بھی پڑ جاتی۔ اس کے علاوہ چاولوں کو چگنا ، دھونا اور فرش پر ٹاکی مارنا بھی میرے فرائض منصبی میں شامل تھا۔ امی بہت خوش ہو جاتی اور خوب دعائیں دیتی۔ سردیوں کے آغاز میں پینجے سے رضائیوں کی روئی کو پنجوانا ، اسی طرح گندم کو پسوانا اور عید پر بکرے کے پٹھے لانا اور پھر گوشت تقسیم کرنے جانا جیسے بھاری بھرکم کام بھی یہ تیسرا ہی کرتا۔ بہت سالوں بعد یہاں یوکے میں سبزی گوشت اور پھل کی خریداری کرنے گیا۔ تو اپنے بڑے بیٹے نبیل کو ساتھ لے گیا۔ وہ انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی ہے۔ اور نیوکاسل یونیورسٹی میں لیکچرار ہے۔ میں نے اسے بھنڈی لینے کو کہا۔ اس نے بڑی بڑی اور پکی ہوئی بھنڈیاں اٹھا لیں۔ میں نے اسے کہا۔ لویں لویں بھنڈیاں لو۔ اور اسے بتایا۔ یہ کیسی ہوتی ہیں۔ گوشت کی باری آئی۔ تو میں نے بکرے کا گوشت لیا۔ جو شیپ کے گوشت سے مہنگا تھا۔ نبیل میری شکل دیکھنے لگا۔ میں نے مسکرا کر کہا۔ شیپ کا گوشت لذیذ نہیں ہوتا۔ پکتا بھی دیر سے ہے۔ اس نے سر ہلا دیا۔ اور پوچھنے لگا۔ آپ کو ان سبزیوں اور گوشت کا کیسے پتہ چلا۔ میں نے ہنس کر کہا۔ تمہاری دادی نے بتایا تھا۔ اب ہمارے گھر کی گراسری نبیل ہی خرید کر لاتا ہے۔ لیکن اوپر سے دھنیا ملتا ہے نہ سبز مرچیں ملتی ہیں۔

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply