ہمیں مزید لاشیں نہیں چاہییں ۔۔۔منصور ندیم

بچپن سے اکثر یہ دیکھا تھا کہ مختلف مذہبی مواقع پر ذاکرین حضرات یا ہمارے کچھ خطیب حضرات وعظ کے دوران کسی بھی واقع کو اس قدر مبالغہ اور جذباتی کیفیات کے ساتھ سنا کر اس واقعے کی اصل فکری اساس یا مقصدیت کو بدل کر فقط سامعین کو رلانے یا واہ واہ کی داد کا مقصد بنا لیتے تھے، ایسا ہی آج کل کچھ دانشوروں کا بھی کمال ہے جب سے سوشل میڈیا نے موجود عہد کے اذہان پر اپنا اثر نفوذ پذیر کیا ہے، ایسے ہی چند دانشوران ملت بھی ہیں جو کسی بھی واقعاتی جرم یا حادثے یا ظلم و جبر کے مقابل دوسرے پہلو، یا مزہبی جذباتیت یا سستی حب الوطنی کو جذباتی رنگ دے کر اصل مجرمین کے کردار کی پردہ پوشی کا کام کرتے ہیں، اگر واقعی یہ خطہ ارضی اتنی مقدس ہے تو کم ازکم ان اداروں کی بد معاشی کے خلاف جائز آواز تو اٹھائیے۔

سانحہ ساہیوال کے مظلومین کے خون کے داغ ابھی تک جن کی قباووں پر موجود ہیں، ان کے جبر کی داستانیں ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی ہیں۔

چند ہفتے قبل شمالی وزیرستان کے گاؤں خیسور کے لڑکے حیات خان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں حیات خان نامی لڑکا یہ کہتا تھا کہ اس کے ایک بھائی اور والد کو سیکورٹی فورسز نے حراست میں لے رکھا ہے ، اور اس کا بھائی شریعت اللہ ہے حیات کے بھائی شریعت اللہ کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے ہے اور اس نے مری پیٹرولیم کمپنی لمیٹڈ کے ایک ملازم زاہد خان کو اغوا کیا تھا، اور زاہد نامی اس ملازم کے بدلے تحریک طالبان پاکستان ایک بڑی رقم تاوان مانگ رہی ہے ۔شریعت اللہ کے اس جرم کے بدلے میں اسکے دوسرے بھائی اور والد کو ریاستی اداروں نے حراست میں رکھا ہوا ہے اور مزید یہ کہ باوجود گھر کے مردوں کی گرفتاری کے مسلسل سیکیورٹی اداروں کے چند اہلکار گاہے گاہے اُن کے گھر میں گھس کر خواتین کو ہراساں کرتے ہیں۔ اور غیر مناسب الفاظ اور غیر مناسب مطالبات کرتے ہیں ، اس ویڈیو کے فورا بعد بہت سارے جھوٹی حب الوطنی سے لتھڑے دانشور اس ویڈیو کو جعلی قرار دیتے رہے، پختون تحفظ موومنٹ کی سازش قرار دیتے رہے، لیکن پھر یکایک جب سوشل میڈیا پر خوب جگ ہنسائی ہوئی تب شمالی وزیرستان کے قومی جرگے کے مطالبے پر جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل ممتاز حسین کی سربراہی میں اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے ایک وفد نے باقاعدہ طور پر خیسور گاؤں میں متاثرہ گھر کے مالکان اور گاؤں مشیران سے ملاقات کی اور پاکستان فوج کے اعلیٰ عہدیدار نے شمالی وزیرستان کے علاقے خیسور میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے ایک مکان میں زبردستی گھسنے کے واقعے پر باقاعدہ معذرت کی ہے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کی یقین دہانی بھی کروائی۔ اب کچھ دانشور اگر یہ تقاضہ کررہے ہیں کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے مغوی زاہد کے لئے کیوں دھرنا نہیں دیتے تو یہ کتنا بھونڈا تقاضہ ہے، کیا پورے ملک میں کوئی بھی شریعت اللہ کی جانب سے اغوا کئے جانے کا دفاع کررہا ہے، جو ادارے شریعت اللہ کے بھائی اور باپ کو قانونی حراست میں رکھ کر اس کے گھر جا کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کررہے ہیں ، یہ کام تو ان اداروں کا ہی ہے اور وہ ادارے اس ملک کے ٹیکسز اور وسائل سے لامتناہی مراعات اور تنخواہیں اسی کام کے لئے لیتے ہیں نہ کہ اس ملک میں نا انصافی پر پنپنے والی غیر عسکری تحریکوں کو طاقت سے کچلنے کے بدلے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے دئیے گئے وسائل سے اسی نہتی اور بے بس عوام کی پر امن آواز کا گلا گھونٹنے کے لئے ، اپنے اصل کام کے بجائے وہ مزید عوام کو تنگ کر رہے ہیں اور حیرت ہے کہ ہمارے چند دانش ور ان کا مزید  دفاع کررہے ہیں ۔
اس واقعے کے بعد جب پی ٹی ایم لورا لائی میں ایک حملے کے خلاف دھرنا اور احتجاج کرتی ہے، وہاں اس احتجاج میں حصہ لینے والے ایک پروفیسر استاد ابراہیم ارمان لونی کو پولیس کا ایک اے ایس پی لیول کا افسر کلاشنکوف کے بٹ مار مار کر اس کو شہید کردیتا ہے ، اس کا قصور فقط یہی تھا کہ وہ پرامن احتجاج کررہے تھے، اس واقعے کی تاوقتیکہ ایف آئی آر نہیں کٹ سکی، پروفیسر ارمان سے سیاسی اختلاف تو ممکن تھا لیکن کیا اختلاف رائے رکھنے پر جن لوگوں کو وردیاں ہم نے اپنی حفاظت کے لئے دی تھیں اگر وہی اس کی پامالی کریں گے تو انصاف کا تقاضا کس سے کیا جائے گا، مزید ظلم یہ ہے کہ کچھ لتھڑے ہوئے محب وطن دانشور اس واقعے کی سند کے لئے ویڈیو مانگ رہے تھے ورنہ وہ اس کو ماننے سے انکاری ہیں ۔

چند روز قبل رات کی تاریکی میں حیدرآباد سےنامورآرٹسٹ سیاسی رہنما اور ایک ترقی پسند سیاستدان کنور مومن خان مومن کو انکی رہائش گاہ سے انکے بیٹے سمیت ماورائے قانون و عدالت گھر سے اغوا کر کے نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا جاتا ہے ،بالکل اسی طرح گذشتہ برس ایک 72 سالہ بزرگ پروفیسر حسن ظفر عارف کو کراچی میں ایک طویل اسیری کے بعد قتل کر دیا گیا تھا اور اب ایک 62 سالہ کینسر کے مریض بزرگ کو لاپتہ کر دیا گیا ہے نہ ہم پروفیسر حسن کی دہشت گردی کی نوعیت کو سمجھ سکے اور نہ ہی مومن خان کی دہشت گردی کی قسم ہماری سمجھ میں آسکی یے ۔

ان تمام واقعات کے علاوہ جو اکا دکا واقعات روز مرہ جعلی پولیس مقابلوں کے ہوتے ہیں چونکہ ان کی ویڈیوز میسر نہیں ہوتیں اس لئے ان پر خاموشی ہی بہتر ہے۔

اب ان اہل فکر و دانش سے پوچھنا یہ ہے کہ سال بھر ہوا جاتا ہے نقیب اللہ شہید کیس میں تحقیقاتی کمیٹی رپورٹس کے مطابق نقیب بے گناہ ہے اور کسی قسم کے جرم میں ملوث نہیں پایا گیا-
راوانوار پر نقیب شہید کے ساتھ ساتھ 450 افراد کے قتل کا مجرم ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ سچ جاننے کے باوجود ایسی کونسی نادیدہ قوتیں ہیں کہ سیکورٹی اور جوڈیشل ادارے راو انوار کو سزا دینے سے بچارہی ہے- یہاں پولیس یا تحقیقاتی ادارے خود ہی کیس اتنا کمزور بناتے ہیں کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو پاتے۔ محافظ خود لٹیرے بن گئے ہیں، ریاست ظالم بن گئی ہے۔ یہ تمام سانحات و واقعات ایک عام آدمی کو سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ یہ معاشرہ، ریاست ایک جنگل بن چکی ہے ۔اگر کچھ دانشوروں کے خیال میں پشتون تحفظ موومنٹ واقعی پاکستان کے خلاف ایک سازش ہے تو  خدارا اس کا ا ولی تدارک کیجئے،  لیکن جو کام ریاستی ادارے کر رہے ہیں اس سے تو عوامی پذیرائی سے لے کر عوامی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہورہی ہیں ، حتی کہ اب تک کسی بھی طرح کی شدت پسندی یا خلاف آئین اقدام بھی ان کی طرف سے نظر نہیں آرہا لیکن اس کے مقابل ریاست کا رویہ نا سمجھ میں آنے والا ہے ۔

کیونکہ  بی بی سی کے مطابق آج”  پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں پشتون عوام ’پرفیسر ارمان لونی کی ریاستی تشدد‘ سے ہلاکت پر احتجاج کریں گے۔ انہوں نے دنیا کے 32 شہروں میں احتجاج کا پروگرام بھی شیئر کیا ہے”۔ اب بھلا بتائیے اگر ریاستی ادارے  ماورائے عدالت  ایسے ہی اقدامات کریں گے تو دنیا میں جگ ہنسائی تو ہوگی ، اور آج کے دن ہم مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ دنیا کو پیش کرنا چاہ رہے ہیں۔

میرا خیال و گمان ہے کہ ریاست غیر متشدد نظریاتی تصور کی فکر کو کھو رہی ہے ، یہ اس بیان کو خود تقویت دے رہے ہیں کہ اس ریاست میں غیر متشدد طریق کو کبھی پذیرائی نہیں ملے گی، اگر ملے گی تو عسکری اداروں کے جھنڈے تلے ہی کسی بھی سیاسی یا مذہبی تحریک کو بڑھایا جائے گا۔ حیرت ہے کہ ہمارے ریاستی اداروں کی طرف سے انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں پر خاموش رہنے والے یہ اہل فکر و دانش سمیت تمام انسانی حقوق کی تنظیمیں شاید منتظر ہیں کہ خدانخواستہ انکے متعلق کوئی بری خبر ” بڑی خبر” بن کر سامنے آئے تو اپنا اپنا منجن بیچنے کیلئے میدان میں کودا جائے اس سے پہلے کی بے حسی کو کوئی نیا نام نہیں دیا جاسکتا کہ اس کا عادی ہو جانا از خود ایک بے حسی ہے ۔ ورنہ یہاں عام سویلین کی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے کیونکہ ہمارے ریاستی ادارے مضبوط پونے چاہیئے ہیں۔ لیکن ان کی مضبوطی کے لئے اس ملک کے عام لوگ اپنی زندگیاں ہار رہے ہیں ، ہم ان مقتدر حلقوں سے بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں مزید لاشیں نہیں چاہیئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آہ کہ ۔۔۔۔۔ان سیکیورٹی اداروں‏ کو طاقتور بناتے بناتے ہم ‏سویلین خود کتنے کمزور ہوگئے ہیں، عوام۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply