خانہ کعبہ بنی نوع انساں کی تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں کا مرکز و محور اور دل صد پارہ رہا ہے۔ جب جب خانہ کعبہ قدرتی آفات سے دوچار ہوا تب تب مسلمانوں نے خانہ کعبہ سے اپنی عقیدت اور اس کے لئے اپنی تعظیم و تکریم کے ثبوت پیش کئے ہیں۔ آج سے تقریبا 77 برس قبل سنہء 1941 میں مکہ مکرمہ میں طوفانی بارشیں ہوئی تھیں، اور خانہ کعبہ میں سیلاب آگیا تھا، جس کے نتیجے میں مسجد حرام کے مطاف کے صحن میں 1.5 میٹر سے زیادہ پانی کھڑا ہو گیا۔ اس پانی نے حجر اسود کو بھی ڈھانپ دیا تھا۔
ان دنوں کئی ممالک سے خصوصا عرب ملکوں سے بھی کئی افراد دینی تعلیم کے لئے مکہ آتے تھے، ان میں سے ہی ایک نوجوان علی العویض جس کا تعلق بحرین سے تھا وہ بھی مکہ مکرمہ میں زیر تعلیم تھا اور اس وقت علی العویظی کی عمر 12 برس سے زیادہ نہ تھی، مکہ میں برسنے والی یہ بارش مسلسل ایک ہفتے تک جاری رہی تھی اور اس دوران دن یا رات میں کسی وقت بھی وقفہ نہیں آیا۔
بارش کے آخری روز العوضی نے اپنے ایک بھائی اور دو دوستوں کے ساتھ حرم مکی جانے کا فیصلہ کیا، اس موقع پر ان کے ہمراہ العوضی کے ایک استاد بھی تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ حرم شریف تقریبا پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس پر العوضی نے جو تیراکی میں مہارت رکھتے تھے تجویز پیش کی کہ بیت اللہ کا طواف تیر کر کیا جائے۔ اس موقع پر نوجوان علی العوضی کی تصویر منظر عام پر آئی تھی جس نے تیر کر نادر انداز سے طواف کی عبادت ادا کی۔ اس تصویر میں علی العوضی مقام ابراہیم کے قریب نظر آرہے ہیں جب کہ ان کا بھائی اور ایک دوست طواف کے بعد بیت اللہ کے دروازے پر بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔
علی العوضی زمانہ تعلیم سے فارغ ہوکر کئی سال سعودی عرب میں ہی رہے اور بالاخر سنہء 2015 کے وسط میں ان کا انتقال ہوا(یہ تصویر علی العویظی کے دفتر کی ہے)۔ جنہیں 12 سال کی عمر میں کعبہ کا تیر کر طواف کرنے کا اعزاز حاصل ہوا،تیر کر طواف کرنا یقینا ایک الگ نوعیت کی عبادت اور تجربہ ہے۔ مکہ مکرمہ میں متعدد بار بڑے سیلاب آئے تاہم مؤرخین کے مطابق دو مرتبہ کے سوا ایسا موقع نہیں آیا کہ اس میں تیراکی کی جائے۔ ان میں ایک واقعہ اسلام کے آغاز کے زمانے میں اور دوسرا تقریبا آج سے 77 برس قبل پیش آیا۔
سیرت کے مورخین کی کتابوں میں ذکر ملتا ہے کہ تیر کر بیت اللہ کا طواف سب سے پہلے معروف صحابی حضرت عبداللہ بن الزبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نے کیا۔ ابن ابو الدنیا نے لیث اور مجاہد کے حوالے سے روایت کی تخریج کی ہے کہ “عبادت کا کوئی باب ایسا نہیں جس کو ابن الزبیر نے چھوڑا ہو۔ بیت اللہ میں سیلاب آیا تو دیکھا گیا کہ ابن الزبیر تیر کر طواف کر رہے ہیں”۔
اس کے علاوہ علماء کرام میں البدر بن جماعہ نے بھی تیر کر بیت اللہ کا طواف کیا۔ اس حوالے سے کتاب “کشف الخفاء ومزیل الالباس” میں تذکرہ ملتا ہے کہ جب بھی وہ حجر اسود کے متوازی آتے تو اس کا بوسہ لینے کے لیے ڈبکی لگاتےتھے ۔
Facebook Comments