فرقہ واریت اور ہماری علم دشمنی۔۔انجینئر عمران مسعود

14 مارچ 2021 کو انجینئر محمد علی مرزا پر دوسری بار قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں وہ محفوظ رہے۔ بیشک زندگی اور موت کا مالک اللہ ہے جس کے اذن کے بغیر کوئی کسی کو ضرر نہیں پہنچا سکتا۔

مجھے بذات ِ خود بہت سے معاملات میں ان سے شدید اختلاف ہے اور تقریباً تمام مسالک کے علما ہی انجینئر صاحب سے نالاں ہیں اور اکثر توصرف اپنا بغض اور غصہ نکالنے کے لیے جذباتی تقریریں کرتے ہیں مگر چند علما واقعی دلائل اور علمی و تحقیقی انداز سے انجینئر محمد علی مرزا کا رد کرتے ہیں،جن میں سر فہرست مفتی راشد محمود رضوی, مفتی علی نواز اور ڈاکٹر حافظ محمد زبیر سر فہرست ہیں،ایک سلیم الفطرت انسان کو دونوں جانب کے نظریات اور دلائل کو دیکھنا چاہیے، ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔

ایک بڑی تعداد نے ان پر حملے کی مذمت کی، جبکہ ایک طبقہ وہ ہے جس نے مذمت کرنے والوں کی مذمت کی یا خاموشی اختیار کی ،جس کی وجہ صرف فرقہ وارانہ اختلاف اور سوچ ہے، ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم اختلاف رائے قبول کرنے کو تیار نہیں، اور جو ہمارے نقطہ   نظر سے اختلاف رکھے ،اس کو گمراہ قرار دیتے ہیں اور اسی طرزِ  عمل کا انتہائی نتیجہ قتل و غارت گری کی صورت میں نکلتا ہے، مگر اس پر بھی یہ منافقت کہ اگر عالم اپنے مسلک کا نہ ہو تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔

علما جانتے ہیں کہ امت میں اختلاف کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور حضور ﷺ کا ارشاد موجود ہے کہ اختلاف میری امت کے لیے رحمت ہے لیکن ہم اس رحمت کو زحمت بنانے پر تلے ہیں،علما کرام یہ بھی جانتے ہیں کہ دینی معاملات میں کبار صحابہ میں بھی اختلاف رہا ہے، حتی کہ ایک دوسرے پر سخت تنقیدات بھی موجود ہیں لیکن کسی نے دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ کے ایمان پر شک نہیں کیا، علمی اختلاف اپنی جگہ رہا۔۔

اسی ضمن میں   بخاری کی بڑی مشہور حدیث پیش  خدمت  ہے۔۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جب نبی کریمﷺ   غزوہ خندق سے فارغ ہوئے ( ابوسفیان لوٹے ) تو ہم سے آپ ﷺ  نے فرمایا کوئی شخص بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے سے پہلے نمازِ  عصر نہ پڑھے، لیکن جب عصر کا وقت آیا تو بعض صحابہ نے راستہ ہی میں نماز پڑھ لی، اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ ہم بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے پر نماز ِ عصر پڑھیں گے اور کچھ حضرات کا خیال یہ ہوا کہ ہمیں نماز پڑھ لینی چاہیے، کیونکہ نبی کریمﷺ  کا مقصد یہ نہیں تھا کہ نماز قضاء کر لیں۔ پھر جب آپ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ  نے کسی پر بھی ملامت نہیں فرمائی۔
بخاری 946

اس حدیث کا ایک پہلو یہ ہے کہ دونوں گروہوں کا منشا و مقصد فرمان رسول ﷺ کے فرمان پر عمل کرنا ہی تھا، اگر حکم کے الفاظ کو دیکھا جائے تو جن صحابہ نے راستے میں نماز ادا کی ان پر حکم کی اتباع نہ کرنا لازم آتا لیکن ان صحابہ کی دلیل تھی کہ نماز قرآن کے حکم کے  مطابق اپنے وقت پر فرض ہے ،لہذا فرمان رسول ﷺ کا منشا جلدی پہنچنا ہے نہ کہ نماز وہیں پڑھنا، بقیہ کی دلیل یہ تھی کہ چونکہ نماز عصر وہاں پڑھنے کا حکم فرمایا لہٰذا قضا کر لی۔
بالآخر حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے دونوں کو ہی درست فرمایا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہیں سے اس حدیث سے یہ پہلو بھی نکلتا ہے کہ اجتہادی معاملات میں بیک وقت دونوں رائے بھی درست ہو سکتی ہیں۔
یہاں یہ وضاحت بھی کر دوں کہ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہوئے یہ بھی نہ ہو کہ ہم خود سے اجتہاد کرنا شروع کر دیں بلکہ علما و محققین کی رائے اور دلائل کو سنیں اور پڑھیں اور دوسرے علما کی رائے اور دلائل کو سننے اور سمجھنے کا حوصلہ پیدا کریں، اسلام کو اس وقت قرقہ واریت اور الحاد و لادینیت سے خطرہ ہے جس کے لیے علمی و فکری  ذہن سازی کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply