پیغام آگے پہنچائیں ورنہ۔۔۔مرزا مدثر نواز

اسّی اور نوے کی دہائی میں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز نے عوام کی زندگی کو ابھی اپنی لپیٹ میں نہیں لیا تھا۔ فوٹو کاپی کا کاروبار اپنے عروج کے دن دیکھ رہاتھا۔ اس دور میں ہوش سنبھالے لوگ بخوبی ایسے صفحات سے واقف ہیں جن پر حروف مقطعات‘ قرآنی آیات‘ احادیث‘ قصہ یا خواب درج ہوتے تھے اور ان کے نیچے یہ الفاظ درج ہوتے کہ یہ صفحہ فوٹو کاپی کروا کر دس‘ بیس‘ پچاس لوگوں میں تقسیم کریں تو آپ کی مشکل حل ہو جائے گی‘ کوئی اچھی خبر ملے گی‘ من کی مراد پوری ہو گی وغیرہ وغیرہ‘ بصورت دیگر آپ کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اوہام پرست لوگ اس پیغام پر من و عن عمل کرتے تھے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اس سارے کھیل کے پیچھے فوٹو کاپی کے کاروبار سے وابستہ لوگ کار فرما ہوتے تھے۔ وقت نے پلٹا کھایا اور ہر کوئی موبائل اور انٹر نیٹ کی رنگینی میں رنگ گیا‘ فوٹو کاپی صفحے کی جگہ موبائل کے ایس ایم ایس اور پھر وٹس ایپ پیغام نے لے لی۔ کم علم لوگ ایسے پیغامات آگے پہنچائیں تو تعجب نہیں لیکن دکھ اس وقت گھیرتا ہے جب خاصے سمجھ دار اور تعلیم یافتہ لوگ اس رو میں بہنے لگتے ہیں۔ ہم ایسی قوم ہیں جو کان دیکھے بغیر کتے کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں‘ کان میں پڑی ہر بات کو بغیر تحقیق سچ گردانتے ہیں‘ بد گمانی میں کمال درجہ رکھتے ہیں‘ بغیر ثبوت و شواہد دوسروں کی پگڑیاں اچھالنا اپنا فرض سمجھتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ شاطر‘ شریراور مفاد پرست لوگ بڑی آسانی سے اپنا چورن بیچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ضعیف الاعتقادی اور اوہام پرستی کا عالم یہ ہے کہ خدانخواستہ کوئی الوہیت کا دعویٰ بھی کردے تو اس کے پیروکاروں کی شاید کمی نہ ہو گی۔

اوہام پرستی حقیقت میں قوموں کی تباہی کا ایک بڑا سبب ہوتی ہے‘ یہ اوہام حقیقت کے خلاف ہونے کے علاوہ بہت سے کاموں میں خلل انداز ہوتے ہیں اور غور سے دیکھو تو ان کا سلسلہ بالآخر کسی نہ کسی شرک پر جا رکتا ہے اور انسان کو صحیح طریق عمل سے روک دیتے ہیں۔ اسلام سے قبل عرب کے معاشرے میں سینکڑوں اوہام پھیلے ہوئے تھے جن کا شمار نہیں ہو سکتا‘ سانپ کو قتل نہیں کرتے تھے‘ یہ اعتقاد تھا کہ سانپ مارا جائے تو اس کا جوڑا آ کر بدلہ لیتا ہے۔ یہ اعتقاد تھا کہ مرنے کے بعد روح ایک پرند بن کر اڑتی رہتی ہے اس کو ہامہ کہتے تھے‘ یہ اعتقاد تھا کہ پیٹ میں ایک سانپ رہتا ہے جو بھوک کے وقت کاٹتا ہے‘ جو کام کرنا چاہتے تھے پہلے شگون لے لیتے تھے مثلاََ اس وقت کوئی پرندہ داہنی جانب سے اڑا تو مبارک سمجھتے تھے اور بائیں جانب سے اڑا تو اس وقت اس کام سے باز رہتے‘ بکری کا بچہ اگر نر ہو تا تو بت پر چڑھا دیتے‘ کسی شخص کے پاس جو اونٹوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ جاتی تو ایک اونٹ کی آنکھ پھوڑ دیتے کہ نظر نہ لگ جائے‘ جب کبھی قحط پڑتا تو بھیڑ یا دنبہ کی دم میں گھاس پھونس باندھ کر آگ لگا دیتے اور سمجھتے کہ اس سے پانی برسے گا‘ سفر میں جاتے تو کسی درخت میں ڈور وغیرہ باندھ کر گرہ لگا دیتے واپس آ کر دیکھتے اگر گرہ کھل گئی ہے تو سمجھتے کہ ان کی بیوی نے بدکاری کی‘ سفر میں راستہ بھول جاتے تو کپڑے الٹ کر پہن لیتے اور سمجھتے کہ اس سے راستہ مل جاتا ہے۔ یہ خیال تھا کہ جو شخص لات و عزیٰ کو گالی دیتا ہے اس کو برص یا جذام ہو جاتا ہے‘ ہاتھوں میں پیتل کی انگوٹھی پہنتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس سے ضعف جاتا رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ تمام اوہام و خرافات جن سے شرک پرست اہل عرب لرزہ بر اندام رہتے تھے اور جن کو وہ بالذات موثر اور متصرف سمجھتے تھے‘ آپﷺ نے ان کا طلسم توڑ دیا اور اعلان فرما دیا کہ ان کی کوئی اصل نہیں ‘ فرمایا’’نہ چھوت ہے‘ نہ بد فالی ہے‘ نہ پیٹ میں بھوک کا سانپ ہے نہ مردہ کی کھوپڑی سے پرندہ نکلتا ہے‘‘۔ ’’پرندوں کی بولی سے فال لینا‘ ان کے اڑنے سے فال لینااور کنکری پھینک کر یا خط کھینچ کر حال بتانا شیطانی کام ہے‘‘۔ ’’فال نکالنا شرک ہے‘‘۔ اہل عرب شیر خوار بچوں کے سرہانے استرا رکھ دیا کرتے تھے کہ جنات ان کو نہ ستانے پائیں‘ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے دیکھا تو اٹھا کر پھینک دیا اور کہا کہ آپ ان باتوں کو ناپسند کرتے تھے‘ نظر بد سے بچنے کے لیے اونٹوں کے گلے میں قلاوہ لٹکاتے تھے ‘ آپﷺ نے حکم دیا کہ کسی اونٹ کے گلے میں قلاوہ نہ رہنے پائے۔ الغرض توحید کامل کی تعلیم نے عربوں کے تمام مشرکانہ اوہام و خرافات کو ہمیشہ کے لیے مٹا دیا‘ عیسائیت کی ان مقدس روایات و حکایات پر کاری ضرب لگائی جنہوں نے صدیوں تک دنیا کو دیوؤں‘ بھوتوں‘ چڑیلوں کے تسلط اور عذاب کے شکنجہ میں مبتلا رکھااور ان کو نکالنا اور بھگانا عیسائیت کا کمال اور اعجاز سمجھا جاتا رہا۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply