• صفحہ اول
  • /
  • مشق سخن
  • /
  • استاد سے زیادہ بگاڑ کے ذمہ دار والدین ہیں۔۔۔۔۔عبدالحنان ارشد

استاد سے زیادہ بگاڑ کے ذمہ دار والدین ہیں۔۔۔۔۔عبدالحنان ارشد

والدین بچے کو بچپن میں سکھاتے ہیں بیٹا ہمیشہ سچ بولنا چاہیے۔ بیٹا جب بھی آپ سے کوئی خطا ہوجائے تو آپ نے ہمیں بتانا ہے۔جب بچہ کوئی غلطی کرنے کے بعد والدین کو سچ سچ بتا دیتا ہے کہ مجھ سے فلاں  غلطی سرزد ہو گئی ہے۔ تو والدین کی اکثریت بچوں کو دلاسہ دینے کی بجائے، ملامت پر اتر آتی ہے۔ تو بچہ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے کہ اب کی بار تو مجھ سے آپ کو بتانے کی غلطی ہو گئی اگلی دفعہ میں صغیرہ غلطی تو کرلوں گا لیکن آپ کو بتانے والی کبیرہ غلطی کا مرتکب کبھی بھی نہیں ہوں گا۔ پھر جب بچہ جوان ہو کر کسی بڑے گناہ کا یا قانون توڑنے کا مرتکب ہوتا ہے، تو بجائے اس کے کہ  وہ اپنے گناہ یا قانون توڑنے پر شرمسار ہو، اپنے والدین کو اس گناہ کا یا غلطی کا بتائے تاکہ وہ اسے اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کریں وہ تو بچہ پر بچپن میں ہی واپس لوٹنے کے تمام در بند کر چکے ہوتے ہیں، اب وہ کیونکر واپس آئے گا۔

اسی طرح والدین بچے  سے کہتے ہیں، جو بھی کام کرنا ہے وہ پوچھ کر کرنا ہم کون سا تمہیں روکنے والے ہیں بلکہ اس سے ہمارے تعلق کو مزید  استحکام ملے گا۔ جب بچہ کسی کام کو کرنے کے لیے پوچھتا ہے تو بجائے اسے ہنسی خوشی اجازت دینے کے، اس کام پر طعنہ و ملامت شروع کردی جاتی ہے اُس میں نقص تلاش کئے جاتے ہیں۔ اچھی بات ہے آپ کو اپنے بچہ کی فکر ہے آپ اُس کے بہتر مستقبل کے لیے فکر مند ہیں۔ آپ اُس کو آسود ہ حال دیکھنا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں کسی کے آپ مخالف ہوں  ،تب بھی اُس کے محبوب کی نفی نہیں کرنی چاہیے۔ ادھر تو آپ کا بچہ آپ کے زمانے سے آگے کا نوجوان ہے اور جس کی اصلاح آپ کا مقصد ہے۔ لیکن ادھر آپ دھڑلے سے اپنے بچے  کے ہی محبوب کی نفی کردیتے ہیں۔ پھر بچہ آپ کو بتانے یا آپ سے پوچھنے کی بجائے خود ہی اپنی مرضی کرنا شروع کر دیتا ہے اور جب آپ کو اس بات کا علم ہوتا ہے تو آپ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں کیونکہ آپ کی انا کا بت  دھڑام کرکے گر چکا ہوتا ہے۔ اور آپ کا بچہ آپ کی پہنچ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ایسے ہی والدین بچے کی عادات کو نہ سمجھتے ہوئے اس سے سختی سے پیش آتے ہیں جس سے وہ نفسیاتی بیماریوں سمیت احساس کمتری کا شکار ہو کر تمام عمر گھر والوں اور معاشرے کے لیے ایک ناسور بن جاتا ہے۔

ممتاز مفتی نے کہا تھا کہ دو لوگ اگر خاموش بیٹھے ہوں تو سمجھ جائیں وہ باپ، بیٹا ہیں ۔ ایسا نہ ہو آپ کوبھی اسی  نشانی کی مدد سے اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے پہچانا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہونا تو یہ چاہیے آپ اپنے بچے  کے سب سے اچھے  دوست بنیں، آپ کا بچہ آپ کے ساتھ کوئی بھی بات شئیر کرتے ہوئے ڈرے نہیں بلکہ آپ کو باپ سے زیادہ شفیق دوست سمجھ کر مدد کے لیے پکارے۔ آپ کو سمجھنا چاہیے کہ بچے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں۔ جیسے کھلتے پھول کو مسلنے کی کوشش کی جائے وہ مرجھا جاتا ہے ایسے ہی بچے جب کھلتے ہیں تو ان سے پیار اور شفقت سے پیش آیا جائے۔ اگر ان کے ساتھ سختی برتی  جائے تو ڈر اور خوف کے سائے میں بچے کبھی کامیاب انسان نہیں بن سکتے۔

Facebook Comments

عبدالحنان ارشد
عبدالحنان نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملک کے چند نامور ادیبوں و صحافیوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ سو لفظوں کی 100 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply