والدین بچے کو بچپن میں سکھاتے ہیں بیٹا ہمیشہ سچ بولنا چاہیے۔ بیٹا جب بھی آپ سے کوئی خطا ہوجائے تو آپ نے ہمیں بتانا ہے۔جب بچہ کوئی غلطی کرنے کے بعد والدین کو سچ سچ بتا دیتا ہے کہ مجھ سے فلاں غلطی سرزد ہو گئی ہے۔ تو والدین کی اکثریت بچوں کو دلاسہ دینے کی بجائے، ملامت پر اتر آتی ہے۔ تو بچہ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے کہ اب کی بار تو مجھ سے آپ کو بتانے کی غلطی ہو گئی اگلی دفعہ میں صغیرہ غلطی تو کرلوں گا لیکن آپ کو بتانے والی کبیرہ غلطی کا مرتکب کبھی بھی نہیں ہوں گا۔ پھر جب بچہ جوان ہو کر کسی بڑے گناہ کا یا قانون توڑنے کا مرتکب ہوتا ہے، تو بجائے اس کے کہ وہ اپنے گناہ یا قانون توڑنے پر شرمسار ہو، اپنے والدین کو اس گناہ کا یا غلطی کا بتائے تاکہ وہ اسے اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کریں وہ تو بچہ پر بچپن میں ہی واپس لوٹنے کے تمام در بند کر چکے ہوتے ہیں، اب وہ کیونکر واپس آئے گا۔
اسی طرح والدین بچے سے کہتے ہیں، جو بھی کام کرنا ہے وہ پوچھ کر کرنا ہم کون سا تمہیں روکنے والے ہیں بلکہ اس سے ہمارے تعلق کو مزید استحکام ملے گا۔ جب بچہ کسی کام کو کرنے کے لیے پوچھتا ہے تو بجائے اسے ہنسی خوشی اجازت دینے کے، اس کام پر طعنہ و ملامت شروع کردی جاتی ہے اُس میں نقص تلاش کئے جاتے ہیں۔ اچھی بات ہے آپ کو اپنے بچہ کی فکر ہے آپ اُس کے بہتر مستقبل کے لیے فکر مند ہیں۔ آپ اُس کو آسود ہ حال دیکھنا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں کسی کے آپ مخالف ہوں ،تب بھی اُس کے محبوب کی نفی نہیں کرنی چاہیے۔ ادھر تو آپ کا بچہ آپ کے زمانے سے آگے کا نوجوان ہے اور جس کی اصلاح آپ کا مقصد ہے۔ لیکن ادھر آپ دھڑلے سے اپنے بچے کے ہی محبوب کی نفی کردیتے ہیں۔ پھر بچہ آپ کو بتانے یا آپ سے پوچھنے کی بجائے خود ہی اپنی مرضی کرنا شروع کر دیتا ہے اور جب آپ کو اس بات کا علم ہوتا ہے تو آپ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں کیونکہ آپ کی انا کا بت دھڑام کرکے گر چکا ہوتا ہے۔ اور آپ کا بچہ آپ کی پہنچ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ایسے ہی والدین بچے کی عادات کو نہ سمجھتے ہوئے اس سے سختی سے پیش آتے ہیں جس سے وہ نفسیاتی بیماریوں سمیت احساس کمتری کا شکار ہو کر تمام عمر گھر والوں اور معاشرے کے لیے ایک ناسور بن جاتا ہے۔
ممتاز مفتی نے کہا تھا کہ دو لوگ اگر خاموش بیٹھے ہوں تو سمجھ جائیں وہ باپ، بیٹا ہیں ۔ ایسا نہ ہو آپ کوبھی اسی نشانی کی مدد سے اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے پہچانا جائے۔
ہونا تو یہ چاہیے آپ اپنے بچے کے سب سے اچھے دوست بنیں، آپ کا بچہ آپ کے ساتھ کوئی بھی بات شئیر کرتے ہوئے ڈرے نہیں بلکہ آپ کو باپ سے زیادہ شفیق دوست سمجھ کر مدد کے لیے پکارے۔ آپ کو سمجھنا چاہیے کہ بچے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں۔ جیسے کھلتے پھول کو مسلنے کی کوشش کی جائے وہ مرجھا جاتا ہے ایسے ہی بچے جب کھلتے ہیں تو ان سے پیار اور شفقت سے پیش آیا جائے۔ اگر ان کے ساتھ سختی برتی جائے تو ڈر اور خوف کے سائے میں بچے کبھی کامیاب انسان نہیں بن سکتے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں