• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • فرح محمود۔ پاکستان کی سب سے بڑی باکمال بہترین خاتون ٹریکر۔۔۔۔محمد عبدہ

فرح محمود۔ پاکستان کی سب سے بڑی باکمال بہترین خاتون ٹریکر۔۔۔۔محمد عبدہ

نئے سال میں ٹورازم پر اپنے پہلے مضمون کا آغاز میں ایک بہادر اور نامور خاتون ٹریکر سے کرنے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتا ہوں جن کا نام فرح ناصر محمود ہے اگرچہ اس نام سے کم لوگ واقف ہیں اور جو جانتے ہیں وہ بھی پچھلے چند سالوں سے سن رہے ہوں گے لیکن فرح محمود پچھلی صدی یعنی نوے کی دہائی سے ٹریکنگ کررہی ہیں اس وقت سے بڑے ٹریک کررہی ہیں جب مرد حضرات بھی کم نظر آتے تھے۔
سات سال کی عمر میں ناران سے جھیل سیف الملوک تک پیدل جانے کی ٹھان لی اور جیپ کی بجائے ٹریک کرکے واپس بھی آئیں اور یہیں سے ٹریکنگ میں زندگی گزارنی کا فیصلہ ہوگیا۔ اسلام آباد میں رہنے کی وجہ سے مارگلہ ہلز کا چیہ چیہ چھانتے اور بار بار ہر ٹریک کو کرتے کرتے بڑی ہو گئی-
فرح کی اصل ٹریکنگ اس وقت شروع ہوئی جب وہ ایک بادشاہ کی ملکہ بنیں شادی ان کیلے ایک جیک پاٹ ثابت ہوا گویا کوئی لاٹری نکل آئی۔ آنے والے سالوں میں ناصر محمود و فرح کی باکمال جوڑی نے وہ کمال کیے جو بڑے بڑے ٹریکرز کیلے ایک خواب تھے اور اب مشعل راہ ہیں۔
باقاعدہ ٹریکنگ کا آغاز وادی کاغان میں دودی پت سر اور دوسری جھیلوں سے ہو پھر سوات میں مہم جوئی جاری رہی۔ اسی دوران نیپال جانا ہوا تو ایناپرنا کی خوبصورت چوٹی کے چند جنت نظیر ٹریک پر ہمت افزائی کرتی رہیں۔
پہلا بڑا ٹریک ماذینو پاس تھا اور یہ اس وقت کیا جب مرد ٹریکرز بھی ماذینو نہیں گئے تھے اور پہلی پاکستانی خاتون ٹریکر تھیں جنہوں نے ماذینو کیا۔
اصل میں ان کے ہر ٹریک کے ساتھ یہ لکھا جائے اس لیے بار بار لکھنے کی بجائے ایک بار ہی یاد کر لیں کہ جتنے بھی ٹریک کا زکر ہوگا بلاشبہ انہیں کرنے والی فرح پہلی خاتون ٹریکر ہیں
ماذینو کے بعد کےٹو کی باری آئی اور واپسی پر غونڈوغورو پاس بھی کرلیا۔
اس کے بعد بیا فو ہسپر سنو لیک ٹریک کا نمبر آگیا۔
زلزلے کے دنوں میں امدادی ٹیموں کے ساتھ بالاکوٹ سے ناران تک کے پہاڑوں میں رہنے والوں کو ریسکیو اور ان تک سامان پہنچانے میں مصروف ہوگئیں کہ یہ وہ کام تھا جو ایک تجربہ کار ٹریکر ہی کر سکتا تھا۔
اس کے بعد ۲۰۱۰ میاں تاتو میں بچوں کے سکول کا آغاز کیا شروع میں صرف ۲۲ بچے تھے اور اب سکول میں ۳۰۰ سے زائد بچے پڑھتے ہیں سکول کی تعمیر اور چلانے کے دوران شائد چالیس پچاس بار فیری میڈوز اور نانگاپربت بیس کیمپ کا چکر لگا گیا ہوگا کہ آپ زرا کھانا بنائیے میں فیری میڈوز سے ہوکر آتی ہوں۔
نانگاپربت روپل فیس کی بات کریں تو لاتوبو شیگری ٹریک آٹھ دس بار انجام دے چکی ہیں۔
مزے اور اعزاز کی بات ہے آنسوجھیل کا ٹریک بھی کرچکی ہیں۔
امریکا میں آلاسکا Alaska میں بھی بےشمار وقت گزارا ہے اور چھوڑے بڑے کئی ٹریک ختم کرچکی ہیں۔ دنیا کا ہر بڑا کلائمبر کہتا ہے کہ دنیا میں کوہ پیمائی کا مزہ صرف قراقرم میں آتا ہے اور یہی فرح محمود کا کہنا ہے قراقرم ایک نشہ ہے جو مرنے تک جان نہیں چھوڑتا۔
ایک بار سوست سے اندر چہ پرسان وادی میں مشکل ترین چیلنجی پاس کو عبور کرکے بروغل میں جا نکلیں
پھر اس ٹریک کی باری آئی جو مشکل ترین خبرناک ترین پراسرار ترین ٹریک ہے سب ٹریک کا باپ سمجھا جاتا ہے یعنی خودوپن پاس کو عبور کیا اور ساتھ جانے والے سب مرد ٹریک بتاتے ہیں فرح کوئی ٹریکر نہیں جن بھوت اور بلا ہے تھکتی ہے نا ہمت ہارتی ہے بس چلنا طے کرنا اور کامیاب ہونا فرح کی عادت ہے
فرح کی سب سے بڑی خوبی ان کی سادہ مزاج خاموش طبع اور گمنام رہنے کی طبیعت ہے بقول ان کے، میرے لئے ٹریک کرنا آسان اور کسی کو بتانا مشکل ہے کہ میں ٹریک کر آئی ہوں، فرح نمود و نمائش شہرت تعریف سے بچنے کیلے جانے سے پہلے کیا ٹریک سے واپسی پر بھی کسی کو نہیں بتاتیں۔
فرح محمود کہتی ہیں مجھے الحمداللہ دوران سفر کبھی عورت ہونے کی وجہ سے پریشانی نہیں ہوئی جو دشواری سب کو ہوئی وہی مجھے بھی ہوئی میں نے بڑے ٹریک پر مردوں کو پریشان یا روتے دیکھا ہے ہمت ہار کو واپس جاتے دیکھا ہے اپنے آپ کو کوستے ہوئے سنا ہے لیکن میں اتنا جانتی ہوں جب عورت سوچ لے تو پہاڑ بھی چیر کے گزر جاتی ہے اور میں تھک کر پیچھے ہٹنا پسند نہیں کرتی۔
‏I am not a typical Trekker
میرا پہاڑوں سے میرا محبت اور عشق کا رشتہ ہے- میرے لئے ان میں راستے خود با خود کھل جاتے ہیں میں نے پہاڑوں میں صرف ٹریکنگ ہی نہیں کی بلکہ پہاڑوں کی فطرت کو سمجھا ہے ان کی سختیوں اور ان کے پیار کو سمجھا ہے پہاڑوں میں رہنے والوں کے مسائل کو جاننے کی کوشش کی ہے اور پھر اپنی زندگی ہی ان کیلے وقف کردی ہے ان کاموں کے لئے مجھے فخر ہے کہ میں اللہ کی وہ خاص بندی ہوں جسے بہت خاص مقصد کیلے دنیا میں بھیجا گیا ہے میرا ایمان ہے کہ اللہ نے مجھے یہ ٹیلنٹ صرف اس لیئے دیا کہ میں ان پہاڑوں میں بسنے والے ہر جاندار کی مدد کر سکوں – پھرچاہے وہ بلغار اورتھلے ویلی کے کیچڑ کےسیلاب میں دب جانے والے گھروں کی تعمیر ہو ، رائےکوٹ ویلی کی بے بس بیوہ اور یتیم بچوں کی خوراک اور تعلیم کا مسئلہ ہو ، شانگلہ کے وہ مزدور جو چند روپوں کی خاطر اپنی زندگی کو داو پر لگائے کوئلہ کی کانوں میں کام کرتے ہیں ان کا علاج ہو پہاڑ مجھے بلاتے ہیں اور میں دیوانہ وار بھاگی چلی جاتی ہیں پہاڑوں کے ببغیر رہ نہیں سکتی کہ ان کے بنا میں ادھوری ہوں۔
فرح محمود بلاشبہ پاکستان کی خواتین ٹریکنگ کا سب سے بڑا نام ہے بلکہ خواتین کیا مردوں میں بھی بہت کم ان کے قد و کاٹھ والے ہوں گے میں اپنی ٹریکنگ کے دور میں جہاں بھی گیا میں نے وہاں پہلے ہی فرح کا نام سنا ہے۔
پاکستان ٹریکنگ کی تاریخ فرح کے بغیر ادھوری رہے گی اور فرح کے ہر کام میں اصل محنت ہمت ان کے شوہر ناصر محمود ہیں جو خود بھی پاکستان ٹریکنگ کے چند بڑے ترین ناموں میں سے ایک ہیں۔ فرح خوش قسمت ہیں کہ انہیں شوہر کی شکل میں اپنی ٹریکنگ کی خوشیاں ملیں اور ناصر محمود کو فخر ہے ایسی باکمال بہادر ٹریکر ان کی بیوی ہے۔
میری طرف سے اس ٹریکنگ جوڑی کو سیلوٹ۔

Facebook Comments

محمد عبدہ
مضمون نگار "محمد عبدہ" کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور حالیہ کوریا میں مقیم اور سیاحت کے شعبے سے تعلق ہے۔ پاکستان کے تاریخی و پہاڑی مقامات اور تاریخ پاکستان پر تحقیقی مضامین لکھتے ہیں۔ "سفرنامہ فلپائن" "کوریا کا کلچر و تاریخ" اور پاکستانی پہاڑوں کی تاریخ کوہ پیمائی" جیسے منفرد موضوعات پر تین کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply