امریکہ دنیا کو حیران کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ یا جان بوجھ کر خود شکستگی کا اعلان کر رہا ہے؟ اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔ ہاں یہ سچ ہے کہ امریکہ کا شام و افغانستان سے اپنے فوجی دستوں کی واپسی کا اعلان نئے حوادث کو جنم ضرور دے گا۔ بالخصوص افغانستان میں استحکام اور امن کے لئے کوششوں کو نقصان بھی پہنچے گا۔ اس کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ مثلاً افغانستان میں طالبان کے متوازی داعش کو لاکھڑا کرنا اور اس کی مدد کرنا۔ اس حوالے سے افغان حکومت کے اعلیٰ عہدیداران برملا اظہار کرچکے ہیں کہ امریکہ دہشت گرد تنظیم داعش کو افغانستان میں مدد دے رہا ہے۔ یہ وہ عالمی سچائیاں ہیں جو بالکل آشکار ہیں اور میرے جیسا اخبار نویس بھی ان پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ یقیناً دفاعی تجزیہ کار تو اس سارے سلسلے کو مزید باریک بینی سے دیکھ رہے ہوں گے۔ نیا منظر نامہ یہی ہے کہ خود یہاں سے نکلو اور خطے کا درد پاکستان، ایران، چین اور روس کے ذمے لگا دو۔
ترکی نے شام میں داعش کے خلاف جاری جنگ میں سربراہ بننے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ وہی ترکی ہے جس کے بارڈر سے داعش کے جنگجو شام میں داخل ہوا کرتے تھے۔ پھر بوجہ یہی داعشی جنگجو ترکی کے لئے بھی داخلی خطرہ بننے لگے تو ترکی نے لمحہ بھی ضائع کئے بغیر ان کے خلاف صف آرائی کر لی۔ گمانِ غالب ہے کہ امریکی صدر خود کو شاطر ترین خیال کرتے ہوئے کسی نئی چال کا جال ذہن میں ترتیب دیئے ہوئے ہوں، لیکن انہیں شام سے اپنی فوجوں کے انخلا کے حوالے سے اپنے ہی ملک سے تنقید کا سامنا ہے جبکہ کچھ اعلیٰ عہدیداران امریکی صدر کے اس فیصلے کے خلاف مستعفی بھی ہوچکے ہیں۔ داعش کی تشکیل کے اسباب اور عراق سے شام تک اس کی کارروائیوں میں کون کون مسلم و غیر مسلم ملک ہمنوا رہا، یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ شام کا بحران اصل میں “عرب بہار” کے دوران ابھرا اور اسے سائنٹیفک انداز میں جمہوریت اور آزدی کے لئے استعمال کیا گیا۔ یہی کچھ لیبیا کے ساتھ ہوا۔ یہی یمن کے ساتھ ہو رہا ہے۔
شام میں دو چار ہزار نہیں، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور لاکھوں ہی اپنی جانوں سے گئے۔ یورپ کے مہاجر کیمپوں میں سب سے زیادہ شامی اور افغان مہاجرین ہیں یا پھر افریقی پٹی کے مسلم ممالک کے ستم رسیدہ۔ عراق کے غیور عوام نے مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کی۔ بلا کسی مسلکی تفریق کے سب شیعہ سنی مسلمانوں نے مل کر عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کو شکست دی۔ شام میں بھی داعش کو شکست ہوئی۔ ہاں مگر شام میں براہ راست ایران اور روس کی مدد شامی حکومت کو حاصل رہی۔ یہ بات غیر متعلقہ نہیں ہوسکتی کہ بشار الاسد کی حکومت درست ہے یا غلط؟ ایشو شام، عراق، لیبیا اور افغانستان و یمن میں جمہوریت نہیں بلکہ عالمی و مقامی استعماری ایجنٹوں کے مفادات ہیں۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ جب بشار الاسد کے خلاف اور حق میں آئے روز دمشق کی سڑکوں میں مظاہرے شروع ہوئے تو النصرہ فرنٹ، القاعدہ اور داعش نے وہاں پر اپنی “جہادی قوت” کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ سعودی عرب نے امریکہ کو براہ راست دعوت دی تھی کہ وہ شام پر حملہ کرے، اس جنگ کے اخراجات سعودی عرب برداشت کرے گا۔ اس وقت مگر امریکہ عراق اور افغانستان میں “پھنسا ہوا” تھا۔ بعد میں امریکی فوجی دستوں نے شام کا رخ کیا، جب روس فضائی حملوں میں داعش کو نشانہ بنا رہا تھا۔ شاید گریٹ گیم اسی الجھن اور انہی اسباب کو کہتے ہیں، جو دنیا کے طاقتور ترتیب دیتے ہیں۔
سوال امریکہ کی عسکری شکست یا جیت کا نہیں، میں ان معاملات کو ایک اور انداز سے بھی دیکھتا ہوں۔ عراق میں امریکہ نے اپنے مقاصد حاصل کئے۔ اس میں کتنے عراقیوں کا لہو بہا؟ امریکہ کو اس سے غرض نہیں، لیبیا میں امریکہ اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرا اور بے شک شام اور افغانستان میں بھی امریکہ ہی کامیاب ہوا۔ اگرچہ قارئین ممکن ہے اس سچائی کو تسلیم کرنے میں لیت و لعل سے کام لیں، لیکن زمینی حقیقت آشکار ہے۔ بھلا کیسے؟ عراق، شام، لیبیا، یمن، افغانستان میں تباہ کون ہوا؟ زیادہ نقصان کس کا ہوا؟ انفراسٹرکچر کس کا تباہ ہوا؟ اور آخر میں کون سی قوم اپنے زخموں کا مرہم عشروں تک تلاش کرتی رہے گی؟ یہ تلخ سوالات جذباتی پن کو ہضم نہیں ہوسکتے۔ اب بھی اگر امریکہ شام و فغانستان سے نکل رہا ہے تو اس کا مقصد یہ مت سمجھا جائے کہ وہ ہار کر جا رہا ہے بلکہ اس نے اپنا وہی کردار دہرایا جو نوے کے عشرے میں افغانستان سے روسی فوجیوں کی واپسی کے بعد ادا کیا تھا۔ افغان طالبان کو اب ایک اور طرح کے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہیں اب امریکہ کے بجائے داعش کو ٹھکانے لگانا پڑے گا اور امریکی امداد داعش کے حق میں ہوگی۔
کیا ہم ہیلری کلنٹن کا بیان بھول گئے کہ داعش کو کیسے تخلیق کیا گیا؟ مذہب کے نام پر عسکری گروہ گذشتہ چار عشروں سے “جانے انجانے” میں امریکی مفادات کے فرنٹ لائن اتحادی ہیں۔ شام میں ایران اور روس اگر مزاحمت نہ کرتے تو اسد حکومت چلی جاتی۔ چین کا بھی اس حوالے سے کردار رہا ہے۔ اب نئے عالمی روٹ جسے پاک چین راہداری یعنی “سی پیک” بھی کہا جاتا ہے، اس کے گرد امریکی نگاہیں جارحانہ طواف کر رہی ہیں۔ افغانوں کو اگر امن چاہیئے تو انہیں ہتھیار رکھ کر، اپنے قبائلی مزاج اور اسلام کو الگ الگ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہیئے کہ وہ اس امر پر غور کریں کہ لاکھوں افغانیوں کو مروا کر اور بے گھر کروا کر بھی ان کے ہاتھ کیا آیا؟ آنے والی نسلوں کا مستقبل اسی میں ہے کہ سب مل کر شام سے بھاگے ہوئے داعشیوں کے خلاف صف آرا ہو جائیں۔ چین، روس، پاکستان، ایران، افغان طالبان، سب کے لئے امریکی ہتھیار داعش ہے، جسے وہ پاک افغان سرحد کے اردگرد لا چکا ہے۔ شام اور افغانستان سے یکدم فوجی دستوں کے انخلا کا اعلان ممکنہ طور پر ہر دو جگہ پھر سے آتش ِ جنگ کو تیز کرنا ہو اور یہ داعش جیسے گروہوں کی مدد کے بغیر کیسے ممکن ہوگا؟ پلٹ کر آنے کے لئے بھی تو امریکہ کو جواز چاہیئے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں