کلبھوشن ،عالمی عدالت اور سفارتی طریقے

کلبھوشن ،عالمی عدالت اور سفارتی طریقے
طاہر یاسین طاہر
سامنے کا منظر یہی ہے کہ عالمی عدالت نے فی الحال پاکستان کے دلائل مسترد کرتے ہوئے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی پھانسی کے فیصلے کو معطل کر دیا ہے۔بھارتی وکیل یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے کہ کلبھوشن کو دی جانے والی سزا میں انسانی حقوق کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے اور بھارتی شہری کو قونصلر رسائی تک نہیں دی گئی۔ظاہر ہے عالمی عدالت کے اس فیصلے سے پاکستان کو تکلیف ہوئی ہے۔ ہر محب وطن شہری دل گرفتہ ہے کہ پاکستان اپنا کیس بہتر طریقے سے پیش نہ کر سکا۔اس فیصلے کے قانونی،آئینی اور سفارتی پہلووں پر یقیناً بات ہوتی رہے گی اور ماہرین اپنی رائے دیتے رہیں گے۔اخبار نویس کی بھی یہی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ حالات حاضرہ پہ نہ چاہتے ہوئے بھی “ماہرانہ”سی رائے دے۔یہی ہماری مجبوری ہے کہ عالمی قوانین اور سفارتی آداب کا ادراک نہ ہوتے ہوئے بھی حالات حاضرہ پہ رائے زنی اپنا حق سمجھتے ہیں۔البتہ اگر اخبار نویس سماجی حرکیات اور سیاسی کروٹوں کا جائزہ لے رہا ہو تو اس کا تجزیہ سماجی رویوں کا عکاس ہوتا ہے۔کئی سنجیدہ سوالات ہیں جو اس کیس کے حوالے سے اٹھائے جا سکتے ہیں،جن میں سے پہلا سوال ہی یہی ہے کہ کیا کیس کی پوری تیاری کی گئی تھی؟ کیا ثبوت ناقابل تردید تھے؟اٹارنی جنرل کیوں نہ پیش ہوئے؟
کلبھوش کیس میں” عالمی عدالت انصاف کے جج رونی اَبراہم نے فیصلہ سنایا، جسے 15 مئی کو محفوظ کیا گیا تھا۔انہوں نے پاکستان کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے حکم امتناع جاری کر دیا اور کہا کہ عالمی عدالت اس معاملے کی سماعت کا اختیار رکھتی ہے۔فیصلہ سناتے ہوئے جج رونی ابراہم کا کہنا تھا کہ کلبھوشن کو پاکستانی آرمی ایکٹ کے تحت سزائے موت سنائی گئی جبکہ کلبھوشن یادیو کی جانب سے کوئی اپیل دائر نہیں کی گئی۔
رونی ابراہم کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں 28 دسمبر 1977 سے ویانا کنونشن کے رکن ہیں اور کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرتا۔ آرٹیکل 1 کے تحت عدالت کے پاس ویانا کنونشن کی تشریح میں تفریق پر فیصلہ دینے اور اس کیس کو سننے کا اختیار ہے۔فیصلہ سناتے ہوئے جج رونی ابراہم نے بھارت کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی دینی چاہیئے۔ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے تک کلبھوشن کو پھانسی نہیں دی جاسکتی”۔کیوں نہیں دی جا سکتی؟ اس لیے کہ عالمی عدالت کے خیال میں انصاف کے تقاضے پورےنہیں ہوئے اور جلدی میں کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی دیے بغیر پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔
عالمی عدالت کے اس فیصلے پر ماہرین بڑے اعتماد سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان عالمی عدالت کے فیصلے کا پابند نہیں ہے۔ یہ رویہ کسی بھی طور عالمی سفارتی آداب کے مطابق نہیں اور نہ ہی عالمی برادری سے ہم آہنگ ہونے میں مدد گار ہو سکتا ہے۔حیرت ہوتی ہے ان تجزیہ کاروں اور نقادوں پر جو کہہ رہے ہیں کہ پاکستانی وکیل نے پورے 90 منٹ دلائل نہیں دیے۔ کیا دلائل کا تعلق وقت کی طوالت سے ہوتا ہے یا ان کے وزن سے؟ بے شک دلائل اپنے وزن اور منطق سے مخالف کے کمزور دلائل کو رد کرتے ہیں۔یہ کوئی جواز نہیں کہ بھارتی وکیل نے پورے 90 منٹ دلائل دیے اور پاکستانی وکیل نے 40 سے 50 منٹ۔پاکستانی وکیل کے پاس کہنے کو جو تھا اس نے کہہ دیا۔بھارتی وکیل کے پاس جو کہنے کو تھا وہ کہتا رہا۔یہ بھی سننے کواور پڑھنے کا ملا کہ میچ فکس تھا۔ بخدا اس سماجی رویے پہ افسوس ہوا۔کیا عالمی عدالت پنڈی یا لاہور کی کوئی کچہری ہے ؟یا کلبھوشن کا کیس” ملک قیوم “کی عدالت میں لگا ہوا تھا کہ ایک فون پر اس کی پھانسی پر سٹے لے لیا گیا؟بے شک دنیا ہم سے مختلف سوچتی ہے۔اسی لیے ہم دنیا سے اور دنیا ہم سے بہت مختلف ہے۔آخری تجزیے میں تو ہم سے بے پناہ سفارتی غلطیاں ہوئی ہیں۔ہم اپنا کیس بہتر طریقے سے پیش نہ کر سکے البتہ آئندہ جب اس کیس پر بحث ہو گی تو پاکستان کو چاہیے کہ بہتر انداز میں اس کیس کو مکمل ثبوتوں کے ساتھ عالمی عدالت میں پیش کرے۔
اگر پاکستان نابغوں کی مان کر عالمی عدالت کے فیصلے کو رد کرتا ہے تو یہ بجائے خود عالمی برادری سے کٹ جانے کے مترادف ہو گا ،پاکستان یہ کسی طور گوارا نہیں کر سکے گا کہ اسے عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا جائے اور پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہو۔ہمیں اپنی کوتاہیوں پر نظر کرنی چاہیے۔کسی کچہری کا وکیل بھی بتا دے گا کہ کیس کی پیروی میں بیرسٹر قریشی نے وہی کہا جتنا اسے دفتر خارجہ نے بریف کیا تھا۔عالمی عدالت کے اس فیصلے کو اس تناظر میں بھی دیکھا جائے کہ پاکستان سے سفارتی غلطیاں ہوئی ہیں۔آئندہ اگر بہتر اور مکمل ثبوتوں کے ساتھ اس کیس کی پیروی کی جائے تو بھارتی جاسوس جو سینکڑوں پاکستانیوں کے قتل کی سازشوں کا ماسٹر مائنڈ ہے،بچ نہیں سکے گا۔لیکن عالمی برادری کو یہ سب ثبوتوں کے ساتھ دکھانا پڑے گا۔کلبھوشن کی پھانسی پر سٹے کے فیصلے کو وزیر اعظم کی سجن جندال سے ملاقات کے ساتھ جوڑنا زمینی حقائق سے چشم پوشی کے سوا کچھ بھی نہیں۔کیونکہ وزیر اعظم کے مودی اور بھارتی سرمایہ کاروں سے تعلقات تو ہو سکتے ہیں مگر عالمی عدالت کے ججز سے نہیں۔عالمی عدالت میں کلبوشن کیس کی پیروی سے سیاسی و سفارتی غلطیاں ہوئی ہیں اور ظاہر ہے کہ ان غلطیوں کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔ممکن ہے عالمی عدالتی فیصلے کی آڑ میں کسی نئے “ریمنڈ ڈیوس”سلسلے کی سفارتی تکرار نظر آئے،ایسا ہو جاتا ہے،اورہمارے ہاں تو ہوتا بھی رہتا ہے۔ایمل کانسی ابھی کل کی بات ہے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply