صالحین کا زوالِ مسلسل ۔۔۔۔۔آصف محمود

سید مودودی کی جماعت اسلامی کو سراج الحق صاحب نے کہاں لا پہنچایا ؟ قحط الرجال کے اس خوفناک دور میں اگر سراج الحق امیر جماعت اسلامی بن ہی گئے ہیں تو کیا پوری جماعت اطاعت امیر کا طوق گلے میں ڈال کر اپنی آخری رسومات کی تیاری کر رہی ہے یا اس کی شوری میں چند ایسے نجیب لوگ باقی ہیں جماعت کے نام پر پراپرٹی اور تعلیم فروشی کے کاروبار نے جن کی قوت گویائی سلب نہیں کر رکھی اور وہ سوال اٹھانے کی ہمت رکھتے ہیں اور اپنی قیادت سے پوچھ سکتے ہیں کہ زوال کے اس سفر کی کوئی آخری منزل بھی ہے یا قافلہ انقلاب نے راہِ حق نے اسی طرح استقامت سے غیر فقاریہ پالیسیوں کا بوجھ اٹھائے چلتے چلے جانا ہے۔

سید مودودی جیسے آدمی کی جماعت اور ایسا فکری افلاس ۔ یہ معمولی نہیں غیر معمولی سانحہ ہے ۔ کیا بے سروسامانی کا عالم ہے کہ نہ اس کی کوئی پالیسی ہے نہ کوئی بیانیہ ۔ ایک امیر محترم ہیں جو لایعنی اقوال زریں کا دیوان کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور انہیں خود معلوم نہیں ہوتا وہ کہنا کیا چاہتے ہیں ۔ جماعت اسلامی کبھی بھی ایک مقبول جماعت نہ رہی لیکن بہر حال سیاسی منظرنامے میں وہ ایک سنجیدہ حقیقت تھی ۔ سید مودودی کا زمانہ تھا تو فکر کی دنیا میں جماعت اسلامی ایک بہت بڑی حقیقت تھی ۔ قاضی حسین احمد کا دور آیا تو عدم مقبولیت کے آزار کے باوجود سیاست میں جماعت اسلامی کو سنجیدگی سے لیا جاتا تھا ۔ اب مگر یہ دور آ گیا ہے کہ کوئی اسے غیر سنجیدگی سے بھی نہیں لیتا ۔

سید مودودی کی علمی وجاہت تھی اور قاضی صاحب کی شخصی، سید منور حسن بھی تھے تو کم سے کم ان کی گفتگو سے علمی ذوق کی خبر تو ملتی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ سراج الحق صاحب کے پاس کیا ہے ۔ علم کی دنیا کے تو وہ آدمی ہی نہیں ۔ مقبولیت ان کی آپ کے سامنے تھے۔ صالحین تو کمال کے لوگ ہوتے ہیں مگر کسی گنہ گار عام سے انسان کے لیے کیا ممکن ہے وہ امیر محترم کا خطاب ایک آدھ منٹ سے زیادہ سن سکے؟ نہ خطابت کی چاشنی ہے ، نہ اظہار بیان کی قدرت ہے نہ ہی کوئی ٹھوس موقف ۔ لایعنی قسم کے اقوال زریں کوئی کب تک سنے ؟

رہی سہی کسر ان کے سوشل میڈیا ونگ نے پوری کر دی ہے ۔ ایک شریف النفس انسان کو ان نابغوں نے اپنی حرکتوں سے تفنن طبع کا عنوان بنا دیا ۔ مصنوعی وارفتگی میں امیر جماعت کی مقبولیت ، تقوی ، سادگی اور جانے کن کن اوصاف کے یوں ابلاغ کیا گیا کہ لطائف کا صالحانہ مجموعہ مرتب ہو سکتا ہے۔ کبھی بتا یا جاتا ہے یہ دیکھیے امیر محترم گندم کاٹ رہے ہیں ۔ کبھی شور مچ جاتا ہے یہ دیکھیے سراج الحق ایک گاڑی کو دھکا لگا رہے ہیں ۔ کبھی اعلان ہوتا ہے یہ دیکھیے امیر محترم راستے سے پتھر اٹھانے کے لیے زور لگا رہے ہیں ۔ یہ دیکھیے ایک ڈھابے سے امیر محترم چائے پی رہے ہیں ۔ درویشی اور غربت کی یہ کہانیاں سوشل میڈیا کے ان جانبازوں نے یوں پیش کیں کہ گاہے گماں گزرتا جماعت اسلامی کے اب امیر محترم نہیں بلکہ غریب محترم ہیں ۔

معلوم نہیں یہ ذوق کی پستی ہے یا بلاوجہ خوشامد سے اپنی افادیت ثابت کرنے کی کوشش لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سوشل میڈیا ونگ کے ہوتے ہوئے سراج الحق صاحب کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ۔ آج سے پہلے یہ ممکن نہ تھا کہ امیر جماعت کو تفنن طبع کا عنوان بنایا جاتا ۔ ان سے اختلاف کیا جاتا رہا لیکن وہ مزاح کا عنوان کبھی نہیں بن سکے ۔ سید مودودی کا کوثر نیازی نے ایک کارٹون شائع کیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا باقی کی ساری عمر کوثر نیازی اس کی وضاحتیں دیتے رہے ۔ آج مگر جو عالم ہے وہ آپ کے سامنے ہے ۔ کیا اس سے زیادہ بھی کچھ تکلیف دہ بات ہو سکتی ہے کہ آج کے سیاسی بیانیے میں سب سے زیادہ لطائف امیر جماعت سے منسوب ہیں ۔

غیر سنجیدگی اور فکری الجھنیں دیکھیے سینیٹر ہوتے ہوئے امیر جماعت قومی اسمبلی کا الیکشن لڑے اور ہار گئے ۔ اب چادر جھاڑ کر فرمائیں گے اعلائے کلمۃ الحق کے لیے میں اب میں سینیٹ جا رہا ہوں ۔ قاضی حسین احمد مرحوم کے دور تک عالم یہ تھا کہ انتخابات میں اس کے پاس ایک طاقتور بیانیہ ضرور ہوتا تھا ۔ اسے ووٹ ملین نہ ملیں لیکن اس کا موقف بہت واضح ہوتا تھا ۔ اس بار تو فکری افلاس کا عالم ایسا تھا کہ دیکھ کر خوف آتا تھا ۔ امیر محترم کٹی پتنگ بن چکے تھے جسے کچھ معلوم نہ ہو کس آنگن میں جا اترنا ہے۔ پانچ سال عمران خان کے ساتھ مل کر حکومت کی آخر میں عمران میں کیڑے نکالنے شروع کر دیے ۔ ایسے رویے کو ہمارے ہاں ابن الوقتی کہا جاتا ہے اور جماعت اسلامی سے لوگ اس رویے کی توقع نہیں کرتے تھے۔ سراج الحق صاحب ایک طرف اصولوں کے وعظ فرما رہے تھے دوسری جانب فضل الرحمان صاحب سے انہوں نے اتحاد فرما لیا جن کی سیاست عملیت پسندی کا شاہکار تو کہی جا سکتی ہے لیکن اس پر کسی اصول کی تہمت دھرنا بہت مشکل ہے ۔

مجلس عمل تضادات کا مجموعہ تھی جو صرف مفادات کی خاطر بنائی گئی ۔
مجلس عمل کے بارے میں میرے جیسے طالب علم حیران تھے کہ انتخابات میں اس کا منشور کیا ہو گا ۔ ایک قائد انقلاب نواز شریف اور زرداری کی حکومتوں میں تہتر کے آئین کے تناظر میں تشریف فرما رہے تو دوسرے قائد انقلاب یہودی ایجنٹ کی حکومت کا حصہ رہے ۔ اب یہ کس پر تنقید کریں گے اور کس منہ سے کریں گے؟ مجلس عمل نے اس کا حل لوگوں کے مذہبی جذبات کے استحصال میں تلاش کیا ۔ ووٹ دو جنت لو کے نعرے سے لے کر کتاب کے انتخابی نشان کو قرآن بنا کر پیش کرنے تک لوگوں کے جذبات کا استحصال کرنے کے لیے ان بزرگان بقلم خود نے کیا کچھ نہیں کیا ؟ ان کے اکابرین کی ایسی ایسی تقریریں سوشل میڈیا پر پڑی ہین کہ آدمی حیرت سے سوچتا ہے صرف ووٹ لینے کی خاطر یہ لوگ اس حد تک چلے گئے ۔ لیکن عوام الناس نے الیکشن کے روز انہیں بتا دیا کہ عالی جاہ ! وقت کا موسم بدل چکا ۔ ہم مذہب سے ضرور محبت کرتے ہیں لیکن مذہب کے نام پر آپ کے کمالات کو قبول نہیں کر سکتے۔ ہم بڑے ہو چکے ہیں آپ بھی بڑے ہو جائیے۔

معلوم یہ ہوتا ہے جماعت اسلامی اب اپنی طبعی مدت پوری کر چکی ہے ۔ ہر جماعت کے کچھ ہمدرد ہوتے ہیں جو جماعت کا باقاعدہ حصہ نہیں ہوتے مگر اس کا مقدمہ لڑرہے ہوتے ہیں ۔ جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جس کا کوئی ایسا ہمدرد نہیں جو اس کا باقاعدہ حصہ نہ ہو ۔ جتنے لوگ سوشل میڈیا پر اس کا مقدمہ لڑرہے ہوتے ہیں ان کا پروفائل دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے یہ براہ راست یا بالواسطہ اس کا حصہ ہیں اور اس سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ کسی جماعت پر اس سے برا وقت اور کیا ہو سکتا ہے ۔ پورے ملک میں ایک حلقہ اب ایسا نہیں رہا جہاں سے کہا جا سکے کہ جماعت اسلامی کی جیت یقینی ہے۔ ایک دیر تھا لیکن دوسروں کو اقوال زریں سنا نے والوں نے دیر جماعت اسلامی کے اس احتجاج کو یکسر نظر انداز کر دیا کہ کرپٹ لوگوں کو جماعت اسلامی کے تکٹ کیوں جاری کیے گئے ۔ مقامی جماعت چیخ چیخ کر کہتی رہی فلاں وزیر محترم کرپٹ ہیں انہیں دوبارہ ٹکٹ کیوں دیا گیا لیکن ایران توران کی خبریں لانے والے صالحین نے آپ کو اس احتجاج کی ہوا تک نہیں لگنے دی ۔ خود اسلام آباد میں مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی کے مقابلے میں جماعت اسلامی ہی کا ایک اور آدمی کھڑا ہو گیا اور اس نے نائب امیر پر جو الزامات لگائے ذرا انہیں پڑھ کر دیکھیے ۔ البتہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اور سراج الحق صاحب کو یہودی سازش کے تحت ہرایا گیا ہے ۔ یقین نہ آئے تو بے شک فضل الرحمن صاحب سے پوچھ لیجیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سید مودودی سے جو سفر شروع ہوا تھا وہ سراج الحق تک آن پہنچا ہے۔ کون جانے یہ زوال کا آخری پڑاؤ ہے یا ابھی کچھ اور دیکھنا باقی ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply