• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فاسٹ یونیورسٹی کے زمینی پھولوں کو شاخو ں میں سجانے والا ڈاکٹر ایوب علوی۔۔ سلمیٰ اعوان

فاسٹ یونیورسٹی کے زمینی پھولوں کو شاخو ں میں سجانے والا ڈاکٹر ایوب علوی۔۔ سلمیٰ اعوان

جون 1870ڈھاکہ یونیورسٹی کے ویسٹ پاکستانی سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اجلاس میں ایک نئے نوجوان کو سُنا جس نے بڑے مدلل انداز میں ہم طلباء کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ ایسے نازک حالات میں ہمیں کیا کردار اداکرنے کی ضرورت ہے۔

پوچھنے پر جانا کہ ایوب علوی انجینئرنگ کے لیے آیا ہے۔میری ایک ماہ بعد واپسی تھی۔بہت وقت گزر گیا تھا۔ایک دن ایک عزیز نے اپنے بچے کے فاسٹ یونیورسٹی میں داخل نہ ہوسکنے کا بتایا۔”کسی سے کہنا تھا۔“میرے کہنے پرسننے میں آیا۔”توبہ کرو۔ سخت اور اصول پسند وائس چانسلر ہے جو میرٹ پر فیصلہ کرتا ہے۔“نام پتہ چلا ڈاکٹر ایوب علوی۔ذہن میں ایک برق سی کوندی۔”ہیں“وہی ڈھاکہ والا لڑکا تو نہیں۔

کچھ عرصے بعد اسلام آباد کی بہت معروف علمی اور سماجی شخصیت قیصرہ علوی کے گھر دعوت میں ادھیڑ عمر کے سمارٹ سے جوڑے سے تعارف ہوا۔مسزو ڈاکٹر ایوب علوی۔
”تو تم وہی ڈھاکے والے لڑکے  ہی ہونا۔“خفیف سی متانت بھری مسکراہٹ سے جی کہا۔بیوی سے ہیلو ہائے ہوئی اور پتہ چلا کہ زندگی بس دیانت،فرض،ذمہ داریوں کے لیکچروں میں ہی گزر رہی ہے۔

آج مجھے مسز ایوب کی ایک میل ملی ہے۔ذرا پڑھیے آپ بھی۔القاب و دعا کے بعد لکھتی ہیں۔
ڈاکٹر ایوب علوی انگلستان میں مقیم تھے اور یونیسٹYounust یونیورسٹی میں جاب کررہے تھے۔ایک دن اچانک جسٹس اخلاق حسین اور ان کی بیٹی نسیم زہرہ سے ملاقات ہوئی۔جسٹس صاحب نے اپنے خواب سے آگاہ فرمایا۔”پاکستان کو آنے والے زمانے میں ترقی کرنے کے لیئے ٹیکنالوجی کی بہت ضرورت ہے۔اس کے لیئے میں ایک ریسرچ سنٹر کھولنا چاہتا ہوں۔کیا تم اس سلسلے میں ہمارے ساتھ کام کر سکتے ہو۔“انہوں نے فورا ً ہامی بھرلی۔

انگلستان میں مستقبل کے تمام روشن امکانات کو چھوڑ چھاڑ کر 1982 میں لاہور کے ایم ایم عالم روڈ پر ایک کوٹھی جو اس کام کے لیے کرائے پر لی گئی تھی میں مطلوبہ ریسرچ سنٹر کی بنیاد رکھی۔یہ وہ پہلی اینٹ تھی جس کی بنیاد پر آج کی نیشنل یونیورسٹی تعمیر ہوئی۔
اسی یونیورسٹی کی بدولت آج دنیا کی بہترین کمپنیوں میں کام کرنے والے ماہرین تیار ہوئے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

1990 میں ڈاکٹر علوی نے آرگنائیزیشن کی ذمہ داری سنبھا لتے ہوئے ایک کوٹھی میں ایک میز اور ایک کرسی رکھی اوریونیورسٹی کا سلسلہ شروع کردیا۔اور پھر چند سالوں بعد ہی کیمپس کے لیے زمین خرید کر نئی عمارت کی بنیادرکھ دی گئی۔علوی صاحب نے اپنی زندگی میں کبھی اصولوں پرسمجھوتا نہیں کیا۔ اس کی شہرت نے اہل علم میں زندگی اور شعور کی ایک نئی لہر دوڑا دی۔

لاہور کیمپس پر ایسا وقت بھی آیا۔جب کئی فیکلٹی ممبرز کے عدم تعاون پر علوی صاحب ایک سال تک دو نوں کیمپس چلاتے رہے۔تین دن لاہور ہوتے اور تین دن اسلام آباد۔وہ غریب اور مستحق بچوں کے لیئے اصول نہیں بدلتے تھے اپنے پاس سے فیس ادا کر دیتے تھے۔اسلام آبادکیمپس کوبھی لاہور کی طرز پر ہی شروع کیا۔

بیٹی کو آسٹریلیا کے لیے کچھ کاغذات پر دستخط چاہئیں  تھے جس سے اس کی نیشنلٹی کا پراسس تیز ہو سکتا تھا۔اس کے احباب نے کہا ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ باپ اکلوتی بیٹی کی اس خواہش کو رد کردے۔
بیٹی نے کہا”اوّل تو میں ایسا کبھی نہیں کروں گی۔دوسرے میں اپنے والد کو جانتی ہوں وہ کبھی بھی دو نمبر کام کے لیئے دستخط نہیں کریں گے۔“آزمائش شرط ٹھہری۔بیٹی نے مدعا بیان کیا۔والد مسکراتے ہوئے اچانک سنجیدہ ہو گئے۔اور کہا۔”بیٹا میں نہیں چاہتا تمہاری زندگی کی بنیاد غلط اصولوں پر قائم ہو۔“

اسلام آباد آئے تو ایک بہت بڑی شخصیت ہمارے گھر تشریف لائیں۔انہوں نے فاسٹ چھوڑنے کے عوض بڑی پُر کشش آفر کی۔علوی صاحب نے کہا۔”میں سوچ کر بتاؤں گا۔“ مہمان شخصیت گئی تو میں نے پوچھا۔”کیا سوچا؟“کہنے لگے”اس میں سوچنے والی کیا بات ہے۔ایسی آفرز تو بہت ہیں مگر مجھے فاسٹ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جانا۔“

بچے بڑے ہو گئے تو میں نے علوی صاحب کے بھائی سے مل کر بیرون ملک جانے کے لیئے راہ ہموار کی۔سب کام ہو گیا۔علوی صاحب کو چند ضروری دفتری معلومات دینی تھیں۔ان سے کہا تو انہوں نے درخور اعتناء نہ سمجھا۔ایک دن میں نے غصے سے کہا۔”آپ ہماری تمام محنت ضائع کر رہے ہیں۔“میری بات سن کر انہوں نے میز پر پڑے ہوئے وہ کاغذات اٹھائے جن پر تقریباً ایک لاکھ خرچ ہوا تھا۔ ان تمام کاغذات کو پھاڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیااور مجھے بٹھا کر سمجھایا۔”دیکھو میرے پاس باہر سیٹل ہونے کے ہزاروں مواقع تھے۔مگرمیری پاکستان رہنے کی واحد وجہ یہ ہے۔کہ میں یہاں رہ کر ہزارہا بچوں کا مستقبل سنوار سکتا ہوں۔“میں نے روہانسی ہو کر کہا۔”آپ کے بچوں کی زندگیاں کون سنوارے گا؟“کہا۔”اللہ“

وائس چانسلر بنے تومیں بہت خوش ہوئی۔گزشتہ وائس چانسلر جو سترہ سال کی ایکس ٹینشن کے بعدریٹائرڈ ہو رہے تھے۔ ان کی مراعات کی لسٹ دل میں گدگدی سی کر رہی تھی۔
شاید انہیں پتہ چل گیا۔کہنے لگے۔”خوش کیوں ہو؟عہدے صرف ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔بس ذمہ داریاں بدلی ہیں اور تو کچھ نہیں ہوا۔“اگلے دن ڈائمنگ ٹیبل پر خوش خبری سنائی۔وائس چانسلر کا وسیع العریض کمرہ Finance ڈیپارٹمنٹ کو دے دیا ہے۔اور وائس چانسلر کو ملنے والے تمام ملازمین کو کیمپس بھیج دیا ہے۔

ایک دفعہ مجھے اردو ٹائپنگ سیکھنے کے لیئے کیمپس کے کسی شخص کے پاس جانا طے ہوا۔میں نے مطلوبہ شخص سے رابطہ کیا تو اس نے کہا۔”میڈم آپ نہ آئیں میں خود آپ کے گھر آ جاتا ہوں۔“ میں نے کہا۔”ٹھیک ہے۔“علوی صاحب اس دن گھر جلدی آ گئے کہنے لگے۔”تمہیں تو آج کیمپس جانا تھا؟“میں نے کہا۔”متعلقہ شخص کہہ رہا تھا میں آپ کے گھر آ کر سمجھا دیتا ہوں۔“علوی صاحب کے چہرے پر کئی رنگ آ ئے اور کئی گئے۔
کہنے لگے۔”پیاسا کنویں کے پاس جاتاہے یا کنواں پیاسے کے پاس۔تم نے آفس کے بندے کو گھر کیوں بلایا۔اسے فوراً منع کرو۔“
یہ ہے ان کی زندگی کی ایک مختصر سی جھلک۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب ایسا شخص ٹوٹ تو سکتا ہے مگر مصلحتوں کی چادر اوڑھ کر اپنا تن نہیں ڈھانپ سکتا۔فاسٹ ان کا چوتھا بچہ تھا اور رہے گا۔اولاد کبھی ماں باپ سے جدا نہیں ہو سکتی۔آج فاسٹ یونیورسٹی کی پہلی اینٹ رکھنے والا واحد شخص جس نے 39 سال اپنے خون جگر سے اسے سینچا۔فاسٹ کو خدا حافظ کہہ کر انتہائی مطمئن اور مسرور ہے کہ اس نے ادارے کے لیئے جی جان سے جو بہتر سمجھا کیا۔اور میں بحیثیت بیوی انتہائی فخر محسوس کرتی ہوں کہ ایک ایسے رول ماڈل کی شریک سفر ہوں۔
مسز علوی تو شاید مطمئن ہیں مگر میں کیوں مطمئن نہیں۔جانتی ہوں یونیورسٹی کے کروڑوں،اربوں روپوں کو اللّوں تللّوں میں اڑانے کی کاوشوں والے ہر راستے پر وہ بھاری پتھر کی طرح کھڑا تھا۔ اُسے ہٹاناتو از حد ضروری تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply