سانحہ تلمبہ اور نشانیاں۔۔نذر حافی

رانا مشتاق ایک عام آدمی تھا۔ صرف عام ہی نہیں بلکہ ذہنی معذور بھی تھا۔ اس کے باوجود وہ میرے کالم اور میڈیا و سوشل میڈیا کی زینت بن گیا ہے۔ آج اُس کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی ہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق نماز جنازہ چک 12ھ تحصیل و ضلع خانیوال میں مرکزی غوثیہ مسجد سے ملحقہ جنازہ گاہ میں ادا ہوئی، چک کے سینکڑوں مکینوں نے شرکت کی۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ متوفی فُٹ بال کا بہت اچھا کھلاڑی اور ایک بااخلاق شخص تھا۔ پھر دماغی مرض میں مبتلا ہوگیا۔ گھر والوں نے ماہر نفسیاتی امراض کرنل شیر علی سے کئی سال اس کا علاج کرایا۔ اسی کے علاج معالجے پر خرچ کی وجہ سے اس کی چھ ایکٹر زمین بھی بک گئی۔ خاندان بھی کام کاج کیلئے مجبوراً کراچی منتقل ہوگیا۔ اس کے والد کا نام رانا بشیر فاروقی مرحوم ہے۔ باپ نے دو شادیاں کیں، اس کی سگی اور سوتیلی یعنی دونوں مائیں ابھی باحیات ہیں، جن سے متوفی سمیت تیرہ بہن بھائی متولد ہوئے۔ ایک بہن کی تلمبہ میں شادی ہوئی تھی۔

پھر ہوا یوں کہ یہ دماغی مریض بغیر کسی کو اطلاع دیئے بہن سے ملنے تلمبہ روانہ ہوگیا۔ راستے میں یہ اللہ کے گھر مسجد میں ٹھہر گیا۔ جہاں پر نام نہاد توحید پرستوں اور عاشقانِ رسول ﷺ نے اس ذہنی مریض کو آڑے ہاتھوں لیا۔ سانحہ سیالکوٹ کو دہرایا گیا اور لاتوں، مُکّوں اور پتھروں کے ساتھ اُس کا بھرکس نکال کر اُس کی لاش کو سُنبل کے درخت پر لٹکا کر نام نہاد عاشقانِ دین کی طرف سے اپنی فتحِ مبین کا اعلان کر دیا گیا۔ اس ساری صورتحال کو سمجھنے کیلئے تلمبہ کے رہائشی اور مقامی صحافی توقیر ساجد کھرل کی رپورٹ ملاحظہ فرمایئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے جائے وقوعہ پر عینی شاہدین سے بات کی۔ معلوم ہوا کہ یہ نماز مغرب سے چند لمحے پہلے کا واقعہ ہے۔ مقتول کچھ دیر تک وہاں مدرسے و مسجد کے باہر لگے “گلہ “یعنی چندہ باکس کو توڑتا رہا۔ اسے ایک بار بھگایا گیا، لیکن پھر وہ اسی مدرسے و مسجد کی عمارت میں داخل ہوگیا۔

اُس نے خود کو وہیں اندر بند کرلیا۔ کچھ بچے وہاں ناظرہ قرآن پڑھتے تھے، لیکن اس وقت وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہاں عرصہ دراز سے کوئی قاری بھی نہیں تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق اندر سے دھواں اٹھتا ہوا دکھائی دینے لگا۔ اس کے بعد قریبی مساجد سے اعلان ہوا کہ مسجد میں قرآن مجید کو آگ لگا دی گئی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دو ہزار سے زائد افراد جمع ہوگئے۔ پولیس اور مقامی بزرگوں نے اسے حفاظت کیلئے ایک کمرے میں بند کر دیا۔ ملزم نے اپنا نام نہ بتایا۔ وہ الزام کے بارے میں نفی میں سر ہلاتا رہا اور اُس نے اپنا تعلق لاہور سے بتایا اور کہا کہ مجھے مارو نہیں قانون کے حوالے کر دو، لیکن لوگ اسے قانون کے حوالے کیوں کرتے!؟ ہم نے تو قانونی اداروں کی سرپرستی میں لوگوں کی خود یہ تربیت کی ہے کہ جسے مرضی ہے کافر اور گستاخ قرار دے کر مار ڈالو۔ چنانچہ یہاں بھی قانون ہار گیا اور ہماری تربیت جیت گئی۔

توقیر کھرل کے مطابق مشتعل ہجوم نے مقفل کمرے کا دروازہ توڑا، پولیس کو زد و کوب کیا اور ملزم کو روڈ پر لے جا کر۔۔۔ کئی لوگوں کے پاس پٹرول بھی تھا۔۔۔ پولیس نے لاش کو بےحرمتی سے بچانے کی کوشش۔۔۔ مگر جن لوگوں کے نزدیک زندہ انسان کی حُرمت و عزت نہ ہو، وہ لاش کی حُرمت کا کیا خیال رکھتے۔۔۔ نعروں کا شور تھا، پتھروں، اینٹوں اور گھونسوں کی بارش تھی، پھر کچھ ہی دیر کے بعد لاش کو سنبل کے ایک درخت پر لٹکا دیا گیا، بعد ازاں پولیس نے لاش اپنی تحویل میں لے لی۔ جی ہاں لاش پولیس کی تحویل میں آگئی ہے۔ اب قانونی کارروائی ہوگی، میری طرح کے لوگ کالمز لکھیں گے، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ واویلا کریں گے، انسانی حقوق کی تنظیمیں ٹسوے بہائیں گی، موم بتی مافیا فوری طور پر موم بتی کے تاجروں سے رابطہ کرے گا، مولوی حضرات سکرین پر بھاشن دیں گے، صدر اور وزیرِ اعظم سخت احکامات جاری کریں گے اور پھر اگلے چند دنوں میں یہ خبر آئے گی کہ انسان کُشی کے مرض میں مبتلا ایک ہجوم نے پھر فلاں جگہ پر کسی معصوم انسان کی جان لے لی یا ٹارگٹ کلنگ میں۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم یہاں پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انسان کُشی کا یہ مرض ہمارے ہاں کسی ایک گروہ، ٹولے، تنظیم، لشکر یا سپاہ تک محدود نہیں بلکہ انسان کُشی کی سرکاری سرپرستی میں باقاعدہ تعلیم و تربیت اور ترویج و اشاعت کی وجہ سے ہم سب اس مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ اس میں وردی و غیر وردی کا بھی کوئی فرق نہیں۔ ذہنی معذور صلاح الدین، نوجوان اسامہ ستی، مشال خان، سانحہ میلسی، ڈیرہ اسماعیل خان میں آئے روز قتل، اغوا، ٹارگٹ کلنگ، سانحہ ساہیوال۔۔۔ ہم سب ایک دوسرے کے نشانے پر ہیں۔ ہم سب کو ایک دوسرے سے خطرہ ہے، چونکہ ہم سب ایک دوسرے کو گستاخ، بدمذہب، بدعقیدہ، مشرک، کافر، غدّار، ملک دشمن، دشمنوں کا ایجنٹ اور واجب القتل قرار دے چکے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم انسان کُشی کے مرض میں ہندوستان سے بھی آگے نکل چکے ہیں، اتنے آگے کہ کرناٹک میں شدت پسندوں کے مشتعل ہجوم ایک اکلوتی مسلمان لڑکی کو چھو تک نہ سکا، لیکن ہمارے شدت پسندوں کے آگے قانون، اخلاق، سیاست، تمدّن، تہذیب، انسانیت اور شرافت ہر چیز ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ شدّت پسندوں کے ہجوم میں یہ فرق کیوں ہے؟ اس میں عقل والوں کیلئے نشانیاں ہیں۔ جی ہاں نشانیاں ہیں، جی نشانیاں! کچھ نشانیاں ایسی ہوتی ہیں، جو ہر سانحے کے بعد پولیس ڈھونڈتی ہے اور کچھ عقل والے ڈھونڈتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply