مولانا اور حکومت۔۔۔ایمان شاہ

اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس چیز پر نہ اکسادے کہ تم انصاف چھوڑ دو۔۔

پچھلے چند دن سے مولانا طارق جمیل صاحب تنقید وہرزہ سرائی کی زد میں ہیں۔۔وجہ عمران مخالف عناصر بتاتے ہیں کہ آخر اس زانی انسان اور اس کی قبر پرست بیوی کی تعریف ایک عالم دین نے کیونکر کردی؟؟

مولانا کا تمام علم مشکوک انکی نیت میں فطور، بادشاہ وقت کی چاپلوسی اور جابجا الزامات۔وقت کی قلت کی وجہ سے میں مولانا کے بیانات سن نہ سکی تھی۔اس لئے تبصرے سے بھی گریز کیا۔

حالانکہ ہمارے ماحول میں تو یہ کافی ہے کہ
کوئی سنے بیان کرے
کوئی اس سے سنے اور تبصرہ کرے
کوئی اس تبصرے کو سنے تبصرہ کرے
اور تبصرہ پر تبصرہ سے اصل بات کی ہئیت بالکل قائم نہیں رہتی

یہ بات واضح کردوں کہ مجھے بھی عمران خان اور اسکی پالسیز سے مکمل اختلاف ہے۔لیکن” کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس چیز پر نہ اکسادے کہ تم انصاف چھوڑدو”۔۔۔نے مجھے لکھنے پر اکسایا۔

مولانا طارق جمیل جو مذہبی اختلافات سے دور رہ کر ہر اس فرد سے تعلق قائم کرتے ہیں جو دنیا بھر کی نظر میں گناہ گار ہوتا ہے۔سمجھ لیجئے کہ عمران خان دنیا کا سب سے بڑا گناہ گار ہے۔تو کیا ایک عالم دین کو اسے دھتکارنے کا حق حاصل ہے؟؟

کیا مولانا کو اللہ نے یہ حکم نہیں دیا کہ آخر وقت تک اپنے حسن سلوک سے اسکی رہنمائی کرو؟۔۔

اب آتے ہیں اس بیان کیطرف جو متنازعہ ہوا
مولانا نے فرمایا”مجھ سے کسی اینکر نے پوچھا کہ کیا عمران خان پاکستان کو مدینہ کہ فلاحی ریاست بناسکتے ہیں۔۔

میں نے (مولانا نے) جواب دیا
بنانے والا تو اللہ ہے
میں یا عمران خان کون ہوتے ہیں؟؟
ہاں حکمرانوں کی نیت کا اثر ضرور پڑتا ہے!

جس طرح ایک بادشاہ راستہ گم کرکے جنگل میں بٹھک گیا۔وہاں کسی نے اسے باغ سے ایک انار کا جوس نکال کر پلایا۔بادشاہ کی نیت خراب ہوئی اور سوچا اس پر تو ٹیکس لگنا چاہیے۔ایک اور گلاس جوس کا مانگا تو انار نچوڑنے پر کم جوس نکلا۔۔۔

پوچھا یہ کہا معاملہ ہے؟
پہلے میں زیادہ جوس نکلا
دوسرے میں کم کیوں؟
کسان نے جواب دیا
شاید ہمارے بادشاہ کی نیت خراب ہوگئی ہے
اس کے بعد بادشاہ نے ٹیکس کا خیال دل سے  نکال دیا اور  کہا۔۔
ایک گلاس اور جوس دو
اب کی بار پھر رس بھر کر نکلا۔۔۔
اس پورے واقعے کے دوران مولانا عمران کو دیکھ کر مسکراتے رہے اور پیارے انداز میں نیت درست رکھنے کی تبلیغ کرتے رہے

ہاں یہ لفظ مولانا نے ضرور کہا کہ عمران خان وہ پہلا شخص ہے جس نے مدینہ کی اسلامی ریاست کا تصور دیا۔۔تصور دینا حقیقت ہے۔۔لفظ “بنایا” نہیں کہا تو ہرزہ سرائی کس لئے۔۔۔؟

دوسری بات بشری بی بی کو رول ماڈل بنانے کی تو۔۔پاکستانی معاشرہ جو اسلامی اور لبرل دونوں کے بیچ میں گھومتا رہتا ہے۔پردہ ایک اسلامی حقیقت اور عورت پر فرض حکم ہے۔اس میں مرضی بھی نہیں چلتی۔۔کہ موسم کے مطابق لباس لے لو۔۔

مولانا کا بیان۔۔کہ اگر اتنے بڑے عہدے پر خاتون اول پردہ کرسکتی ہیں تو یہ تمام سو کالڈ ماڈرن بیبییوں کیلئے نمونہ یا رول ماڈل ہیں تو اس میں کیا غلط کہا؟

آخر میں پھر وہی آیت دہراؤں گی،اور فیصلہ آپ سب پر۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس چیز پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف چھوڑ دو!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply