طلاق کا کیک۔۔شاہد محمود

شوہر و سسرال کے ہاتھوں تنگ اک بِٹیا کی خودکشی کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ایک تصویر نظر سے گزری جس میں ایک خاتون اپنی طلاق کی خوشی کیک کاٹ کر منا رہی ہیں ،ساتھ لکھا تھا کہ پاکستانی خاتون نے طلاق کی خوشی میں کیک کاٹ کر نیا رحجان شروع کیا ہے۔ اور یہ بھی خاتون نے “آگ لگا گئی” ہے۔ اب یہ سراسر male chauvinism کی عکاس ذہنیت ہے۔ کیک کاٹ کر طلاق کی خوشی منانا آسان تھوڑی ہے۔ شوہر سے تنگ بیٹی کی طرح کیا یہ کیک کاٹنے والی خاتون بھی خودکشی کر لیتی؟؟؟ ہر گز نہیں۔

خانگی ناچاقی و طلاق انتہائی ڈپریشن میں لے جانے والے امور ہیں۔ اگر اس بیٹی نے celebrate کیا ہے تو یہ اس کی ڈپریشن کو اپنے اوپر طاری نہ ہونے دینے کی بھرپور کوشش ہے۔ یہ male chauvinist معاشرہ “مرد حضرات” کی بجائے “مُردوں” کا معاشرہ ہے جسے جھنجھوڑ کر خواب غفلت سے جگانے کی نجانے کس کی کون سی کوشش کامیاب ہو گی ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میاں بیوی ایک دوسرے کے زوج ہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر شوہر بیوی سے عمر اور زندگی کے تجربے میں بڑا ہوتا ہے تو رشتہ نبھانے میں تحمل، برداشت و بردباری سے کام لینے کی زیادہ ذمہ داری شوہر کی ہے۔ اگر مجازی خدا کہلوانا ہے تو یاد رکھیں جن کے رتبے بڑے ہوتے ہیں ان کی ذمہ داریاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ عورت کی عزت کرنے کی بابت بچپن سے مردوں کی کردار سازی کی ضرورت ہے اور اس کردار سازی میں اہم تریں کردار والدین کا ہے۔ باپ اگر بچوں کی ماں کی عزت کرے گا اور بیٹیوں کے ساتھ بیٹوں کی طرح کا سلوک کرے گا تو کل کو اس کا بیٹا شوہر بن کر عزت کرنے والا بنے گا۔ اور تب وہ معاملات میں توازن رکھے گا تو کسی بھی معاملے میں, کسی بھی رشتے میں تلخی نہیں آئے گی, اسی طرح جب ماں بچوں کے سامنے ان کے باپ کی عزت کرے گی، رزق حلال پر قناعت کرتے ہوئے بچوں کو شکرگزاری, قناعت, محبت و خدمت اور رجوع الی اللہ کا نمونہ پیش کرے گی تو کل کو بیٹیاں اور بیٹے دونوں جب اپنی اپنی ازدواجی زندگیوں اور رشتوں میں داخل ہوں گے تو اپنے رشتوں اور گھروں کو، اپنی زندگیوں کو باغ و بہار بنایں گے۔ انشاء اللہ ۔
اللہ کریم سب پر اپنا کرم فرمائے آمین۔

Facebook Comments