ہوم ورک۔۔فرزانہ افضل

ہم جنوبی ایشیا کے ممالک کے افراد خصوصاً ہماری کمیونٹی اپنی زندگی میں انتہا پسند رویے کے حامل ہیں۔ جہاں تک تو زندگی کے بڑے اور گھمبیر معاملات کا تعلق ہے ان کی ہم یقیناً بہت زیادہ ٹینشن لیتے ہیں۔ اور سوچوں اور پریشانیوں کی وجہ سے خود کو مختلف بیماریوں مثلاً ذیابیطس اور دل کی بیماری وغیرہ میں مبتلا کر لیتے ہیں۔ ہارٹ اٹیک تو عام ہے ہی ، مگر سٹروک یعنی فالج کے کیسز بھی اکثر سننے میں آتے ہیں۔ ہم روزگار، اولاد اور خاندانی معاملات کی پیچیدگیوں میں الجھ کر اپنی صحت کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ گھروں میں بلاناغہ مرغن اور نت نئے کھانوں کا اہتمام نہ ہو تو خود کو غریب اور مظلوم تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ متوازن غذا اور روزانہ ورزش نہ صرف صحت کیلئے فائدہ مند ہے بلکہ آپ کے دماغ کو بھی تروتازہ اور ہشاش بشاش رکھتی ہے اور آپ اپنی طبیعت میں چستی اور مزاج میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ مگر دوسری طرف روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں ہم انتہائی غیر منظم ہیں۔ خواہ شادی بیاہ میں جانا ہو ، کسی دعوت یا کمیونٹی کے پروگرام میں، کبھی وقت سے نہیں پہنچتے۔ یعنی اگر دعوت نامے پر ٹائم لکھا ہے اور ایک گھنٹے کی مسافت ہے تو ہم بجائے پانچ بجے شام وقت کی پابندی کرنے کے ، گھر سے ہی پانچ بجے نکلتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دوست احباب آپس میں اکثر یہ مشورہ کرتے ہوئے بھی پائے جاتے ہیں ، ” پانچ بجے کا ٹائم ہے پروگرام تو چھ ، ساڑھے چھ بجے ہی شروع ہوگا ۔ لہذا آرام سے ڈیڑھ گھنٹے بعد وہاں ملاقات کرتے ہیں۔” حد ہے بھئی پروگرام تو تبھی شروع ہوگا جب سارے مہمانوں کی تشریف آوری ہو چکی ہوگی۔ اور ہر مہمان یہی سوچ کر دیر سے جاتا ہے کہ سب ہی دیر سے آئیں گے۔ یعنی یہ ایک ایسی عادت ہے جو پختہ ہو کر رویے میں ڈھل چکی ہے ، اور افراد کا یہ رویہ قوم کا رویہ بن چکا ہے۔

ایک اور عادت یہ ہے کہ اگر کسی نئی جگہ پر جانا ہو یعنی جس جگہ کا راستہ اور پارکنگ کے انتظامات وغیرہ سے ناواقف ہوں تو بھی بس گاڑی لے کر، نقشہ فون پر ڈال کر خدا کی امان میں نکل جاتے ہیں۔ یعنی سفر چاہے مقامی کسی جگہ کا ہو یا دوسرے شہر جانا ہو ، کوئی پلاننگ کرنے کی ضرورت نہیں۔ پھر جب وہاں پہنچتے ہیں تو ہونقوں کی طرح راستہ اور بلڈنگ تلاش کرتے ہیں۔ ادھر اُدھر پارکنگ ڈھونڈتے ہیں حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ کہیں قریب ہی فری پارکنگ مل جائے، یا پھر کوئی جگہ دیکھ کر فٹ پاتھ پر ہی گاڑی چڑھا دیتے ہیں، چند پاؤنڈ کی پارکنگ بچانے کے لیے ڈیڑھ دو سو پاؤنڈ یا اس سے زیادہ قیمت کے ٹائر کی بَلی چڑھا دیتے ہیں۔ ایک تو پہلے ہی گھر سے لیٹ نکلتے ہیں اور پھر اس ساری کشمکش میں مزید لیٹ ہو جاتے ہیں۔ مگر جب پروگرام میں انٹری دیتے ہیں تو پورے اسٹائل میں، ٹائی سوٹ نک سک سے ٹھیک کر کے، شانہ چوڑا کر کے بنا کسی خفت اور شرمندگی کے ہال میں داخل ہوتے ہیں۔ انٹری مارنے پر کیا خوب ہٹ گانا یاد آگیا۔ ” تو نے ماری انٹریاں اور دل میں بجی گھنٹیاں رے ٹن ٹن ٹن۔ ”

اس ساری افراتفری اور پریشانی سے بہت آسانی سے بچاؤ ممکن ہے اگر ہم روزمرہ کی زندگی میں منظم ہو جائیں۔ ہم دوراندیشی میں مستقبل بعید کی پلاننگ تو خوب کرتے ہیں مگر کل کیا کام کرنے ہیں ان کو آرگنائز نہیں کرتے۔ ہونا یہ چاہیے کہ اپنے تمام کاموں کو کن اوقات پر کرنا ہے سب اپنی ڈائری میں نوٹ کریں، سمارٹ فونز کا دور ہے جو ہر وقت آپ کے ہاتھ میں موجود رہتا ہے اس کے کیلنڈر ایپ پر جا کر اگلے دن بلکہ پورے ہفتے کی پلاننگ اور کام لکھیں۔ اس پر ہر کام سے پہلے ریمائنڈر یعنی یاددہانی کا الارم بھی لگائیں۔ کہیں یہ نہ ہو کہ ایک بہت پرانے لطیفے کی مانند ڈائری میں سب کچھ تو لکھا مگر ڈائری پڑھنا ہی بھول گئے۔ کسی نئی جگہ پر جانے کا پلان ہو تو پہلے سے پورا ہوم ورک کریں ، گوگل میپ پر سارا روٹ ایک روز پہلے چیک کریں کہ کتنا وقت لگے گا اور اس وقت ٹریفک کی کیا صورتحال ہوگی رش آور ٹائم ہوگا یا نارمل۔ گاڑی میں پٹرول یا ڈیزل ایک روز پہلے ہی کر لیں تاکہ روانگی کے وقت کم از کم اس بات کی فکر نہ ہو کہ” اوہو ابھی تو پیٹرول بھی ڈلوانا ہے۔” کار پارک وغیرہ بھی چیک کریں تاکہ آپ کو وہاں پہنچ کر پریشانی نہ ہو۔ بلکہ میپ پر سٹیپ وائز روٹ کو تصویروں کے ساتھ چیک کریں تاکہ آپ کے ذہن کو راستے کی واقفیت حاصل ہوجائے۔ وقت کی پابندی کرنا سیکھیں ایک دوسرے کی اندھا دھند تقلید کرنا چھوڑ دیں۔
بقول اقبال
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے

Advertisements
julia rana solicitors london

خدارا ایک مہذب قوم ہونے کا ثبوت دیں۔ ہر کام منظم طریقہ سے باقاعدہ پلاننگ کے تحت کریں تو آپ کی زندگی بہت آسان ہو جائے گی۔ اور وقت کی پابندی کی عادت سے ملک اور قوم دونوں کی ترقی ناگزیر ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply