یعنی بندہ خارش بھی نہ کرے؟ ۔۔۔ محمد اشتیاق

حال ہی میں ایک محترمہ نے مکالمہ پر ایک مضمون لکھا جس میں مرد حضرات کی جانب سے چند فطری حرکات پر نکتہ چینی کرتے ہوئے انہیں قہر کا شکار بنایا گیا۔ مضمون کا عنوان تھا “کیا مرد خواتین کے سامنے خاص اعضاء کی خارش بند کر سکتے ہیں؟”۔ مکالمہ ویب سائٹ کی روح کے عین مطابق میں موصوفہ کو مکالمے کی دعوت دیتے ہوئے جواب پیش خدمت ہے۔ 

مضمون میں چند واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے تاہم ان وجوہات پر اظہار خیال نہیں کیا گیا جن کے باعث ایسا عمل کیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک عورت ہونے کے ناطے شاید انہیں یہ عمل کریہہ محسوس ہوتا ہو تاہم اس بارے میں خود سے کچھ بھی فرض کر لینا اور پھر ایک قدرتی امر پر غیر ضروری تنقید شروع کر دینا بھی کوئی عقل مندی نہیں۔ 

محترمہ لکھاری پہلی وجہ کا استدلال فرماتی ہیں کہ اس طرح خارش کرنے کی پہلی وجہ مرد کا اپنے آپ کو غالب ظاہر کرنے کی خواہش ہوا کرتی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ دلیل کہاں سے محترمہ کے ذہن میں آئی تاہم میرا سنجیدہ سوال یہ ضرور ہے کہ بھلا خارش اور وہ بھی مخصوص مقام پر کس طرح سے “غلبے” کا استعارہ ہو سکتی ہے؟ مرد عموماً اپنے بازوؤں کو یا سینے کی کشادگی کو طاقت کے استعارے کے طور پر پیش کیا کرتے ہیں، پھر وہ مقام جو سب سے پوشیدہ رہتا ہے، عوامی سطح پر سامنے نہیں لایا جا سکتا، جس کی نزاکت صرف ایک مرد ہی جان سکتا ہے، اسے عورت کے سامنے طاقت یا غلبہ پانے کے طور پر بھلا کیسے پیش کیا جاسکتا ہے؟

موصوفہ فرماتی ہیں کہ مرد عورت کو دیکھتے ہی جتنی زیادہ جگہ ممکن ہو، پر قابض ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ یہاں ایک سوال ہے، کہ ہوائی جہاز کی سیٹ کم از کم بڑی واضح طور پر تقسیم ہوتی ہے۔ میں وہ طریقہ کار سمجھنا چاہتا ہوں جا کے تحت ایک آدمی ساتھ بیٹھی عورت کی سیٹ کا آئزل کراس کر کے قابض ہو سکتا ہو۔ اس کے مقابلے میں میرا تجربہ یہ ہے کہ مرد حضرات عموماً خود ہی ہوائی جہاز کے عملے سے دوسری سیٹ کی درخواست کرتے ہیں تاکہ خاتون بھی سکون سے بیٹھ سکے اور وہ خود بھی سارے راستے آرام سے اپنی سوچوں میں محو رہیں۔

یہاں یہ یاددہانی کرواتا چلوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک میل ڈامینینٹ معاشرہ ہے جہاں مردوں کو ڈی فیکٹو غالب سمجھا جاتا ہے، تاہم یہ بھی یاد رکھا جائے کہ پاکستان وہی معاشرہ ہے جہاں محض ایک الزام کی بنیاد پر فوری طور پر سارا مجمع کسی بھی خاتون کا بھائی بننے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ 

لکھاری لکھتی ہیں کہ پاکستان میں اپنے ہاتھ ٹراؤزر یا شلوار کی جانب لے جانا قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ یہ فقرہ نامکمل ہے۔ ظاہر ہے مرد کا ہاتھ کسی قبیح حرکت کے لیے شلوار کی طرف جائے گا تو کوئی احمق کی اسے قابل قبول سمجھے گا تاہم خارش وہ حقیقت ہے جس پر کسی کا اختیار نہیں۔ اس میں کسی عضو کی تخصیص ہرگز نہیں۔ خارش ہاتھ پر ہو، ناک پر یا کسی مخصوص مقام پر، نہ تو اپنی مرضی سے محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی اس پر مناسب قدم اٹھائے بغیر اس سے چھٹکارا پانا آسان ہوتا ہے۔ 

پچھلے دنوں مکالمہ پر ہی ایک مضمون چھپا جس میں نوجوان لڑکیوں کی سینٹری پیڈز کے استعمال پر شرم کو موضوع بنایا گیا اور بتایا گیا کہ اس میں شرم یا جھجک کی کوئی بات نہیں۔ میں اس مضمون سے مکمل اتفاق کرتا ہوں تاہم کسی بھی قسم کی شدت پسند فیمینسٹ کو عضوء مخصوص پر خارش جیسے اہم مسئلے کو اجاگر کرنے پر یاددہانی کروانا چاہتا ہوں کہ یہاں بھی کسی شرم کو خاطر میں لانے پر وہی سوچ اپنانی چاہئے جو خواتین کے لیے رکھی جارہی ہے۔ 

حیرت کی بات یہ ہے کہ جہاں ایک طرف خواتین کو کلیویج دکھانے پر باقاعدہ بیان بازیاں ہوتی ہوں یا جس کے حق میں باقاعدہ کیمپین چلائی جاتی ہو اس معاشرے میں خارش کو اس قدر خطرناک کیوں جانا جا رہا ہے؟ بھئی ٹھیک ہے یہ عمل پسندیدہ ہرگز نہیں لیکن اب خارش ہو رہی ہے تو مرد بیچارہ کیا کرے؟ “میرا جسم میری مرضی” صرف عورت کے لیے ہے؟

ایک طرف مرد کو یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ عورت جیسا لباس یا حلیہ رکھے اس کی مرضی ہے، اسے اس بنیاد پر جج نہیں کیا جانا چاہیے۔ مان لیا ایسا ہی ہے۔ لیکن یہ کس قسم کی سوچ ہے کہ آپ اپنے تئیں فیصلہ کر لیں کہ ساتھ بیٹھا بندہ جن اعضاء پر خارش کر رہا ہے وہ کسی ریشز یا کسی مسئلے کی وجہ سے نہیں بلکہ چسکے لینے یا غلبہ پانے کی خواہش کے طور پر ہے؟ آپ کیسے جج کر سکتے ہیں یا کیسے کسی کے دل میں جھانک سکتی ہیں؟ جس ویڈیو کا ذکر اس مضمون میں ہوا، وہ اب تک میری نظر سے نہیں گزری، تاہم کیا شکایت کرنے والی خاتون نے یہ سوچا کہ بندہ اگر کسی مسئلے کا شکار تھا تو ایسی صورت میں انہوں نے اس کے لیے کس قدر خفت کا منظر بنا ڈالا؟ کیا کسی کی مرضی کے بغیر ویڈیو بنانا بذات خود پرائیویسی کے خلاف نہیں؟ 

اٹلی نے اگر اس حرکت پر پابندی لگا بھی دی تو یہ اس بات کی دلیل کیسے ہے کہ یہ قانون ٹھیک ہے؟ اگر استدلال یورپی قوانین ہی ہیں تو پھر فرانس میں برقعہ بین ہونا بھی ہمیں ٹھیک ماننا ہوگا؟ 

اب حقیقت یہ ہے کہ خارش جیسی مصیبت کا شکار کوئی بھی انسان ہوسکتا ہے۔ یا تو آپ کہہ دیں کہ خواتین کو خارش نہیں ہوتی، پھر بات الگ ہے۔ میرا تجربہ تو یہ ہے کہ کئی  بار خواتین کو زیریں جامے ایڈجسٹ کرتے نظر پڑ بھی گئی تو شرم کے باعث آنکھیں ہی پھیر لیں کجا ویڈیو بنانا اور پھر مزید یہ کہ اسے وائرل بھی کر دینا۔ 

مساوات پر مبنی معاشرہ کیا ہے یہ ایک بحث ہے۔ امریکہ میں “فری نپلز” کے نام سے ایک تحریک چل رہی ہے جس کے تحت کئی خواتین ناصرف اپنے جسم کا بالائی حصہ ظاہر کرنے کو اچھا نہ سمجھنا ایک ٹیبو کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ اس تحریک کا آغاز ۲۰۱۲ میں ایک امریکی خاتون فلم میکر لینا ایسکو نے کیا۔ میرا یہ ماننا ہے کہ اس قسم کی مساوات ہماری روایات سے متصادم ہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ عضوء خاص کھجانا بھی کہیں سے کسی روایت کا حصہ نہیں تاہم یہ ایک فطری عمل ہے جسے فطری عمل کے طور پر ہی دیکھنا اور سمجھنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص اس سے بڑھ کر کوئی قبیح حرکت کرتا پایا جائے تو بات الگ ہے لیکن آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی کہ ایسی کوئی حرکت معاشرے میں عام ہرگز نہیں۔ کئی خواتین مساوات کا معیار اتنا بلد رکھتی ہیں جن کا معاشرتی نفاذ ممکن نہیں۔ ایسی خواتین یقیناً اس مضمون کے پہلے چند پیراگراف پڑھنے پر ہی رک گئی ہوں گی۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

باقی سب لوگوں کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ خارش ایک فطری عمل ہے۔ میں مزید وضاحت کرنے میں خوشی محسوس نہیں کرتا مگر اتنا ضرور جانیے کہ مردانہ اعضاء مخصوصہ کی ہئیت کچھ ایسی ہوتی ہے کہ خارش کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ اس پر مزید یہ کہ ہمارے معاشرے میں پرسنل ہائی جین کا اتنا خیال بھی نہیں رکھا جاتا۔ مزید یہ کہ غیر ضروری بالوں کی صفائی ان مقامات پر خارش کی تحریک کو کئی گنا بڑھا دیا کرتی ہیں۔ تھوڑے کو بہت جانیے اور اس فطری عمل کو ایک قومی مسئلہ بنانے کی بجائے کوئی تعمیری کام کیجیے۔ 

Facebook Comments

محمد اشتیاق
Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Mukaalma and other blogs/websites. He is a cricket addict and runs his own platform ( Club Info)where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply