• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • الیکشن، پی ٹی آئی کی حکومت اور مستقبل ۔۔۔۔ ن لیگی ووٹر کے تاثرات/ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

الیکشن، پی ٹی آئی کی حکومت اور مستقبل ۔۔۔۔ ن لیگی ووٹر کے تاثرات/ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

1۔ الیکشن 2018 سے پہلے “سرکاری” جوڑ توڑ ہؤا اور خوب کھل کھلا کر ہؤا ، جیسا کہ ہر بار ہوتا ہے ۔ پچھلی مرتبہ یہ دومسلم لیگوں کا باہمی معاملہ تھا اس لیے سب آنے والوں کی آمد کو “گھر واپسی” قرار دیا گیا۔ اس مرتبہ حکومتی پارٹی کے اراکین کو ایک نئی شاخ پر بیٹھنے کا اذن ہؤا جس پر حکومتی پارٹی کی قیادت نے دبی دبی آواز میں خوب شور ڈالا ۔۔۔۔ تاہم سچ یہ کہ اس طرز عمل کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہونا چاہیے۔ جیسا کہ ہمارا غیر سرکاری قومی مصرعہ ہمیں بتاتا ہے ، چراغ سبھی کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں ۔۔۔ تو جناب بچنا چاہتے ہیں تو آنے والوں کو روکیں تاکہ جانے والوں کو روکنےکے لیے اخلاقی جواز موجود رہے۔

اس بار ایک اضافی معاملہ احتساب کا بھی تھا۔ اسے اتفاق ہی سمجھ لیجیے کہ اس کی زد میں صرف ایک پارٹی ، بالخصوص اس کا لیڈر اور لیڈر کی فیملی ہی “قانون” کے شکنجے میں پوری آ سکی۔ دیگر کے لیے شکنجہ غالباً چھوٹا بڑا ہو گیا اس لیے گمان ہے کہ کسی مناسب وقت پر شکنجہ مرمت کروا کر ان پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا۔ اس احتساب نے پری پول “بندوبست” کے تاثر کو مزید تقویت دی اور یہ صورتحال بدستور جاری ہے۔

2۔ مندرجہ بالا تمام اعتراضات کے باوجود یہ بات اپنی جگہ ایک اہمیت کی حامل ہے کہ پولنگ ڈے پر آر ٹی ایس کے معاملہ کے علاوہ کچھ ایسا ٹھوس سامنے نہیں آیا جس سے کسی منظم یا بڑے پیمانے کی دھاندلی کے الزامات کو ثابت کیا جا سکے۔ الزامات ویسےہی تکنیکی اور مختلف فارموں کی عدم فراہمی کے ہیں جیسا کہ 2013 میں تھے۔ بیلٹ پیپر بھی دائیں بائیں کے کچرا دانوں سے اسی کیفیت و مقدار میں دریافت ہو رہے ہیں جیسا کہ 2013 میں تھا۔ اور تو اور دونوں انتخابات کو ایک ایسی شخصیت نے صاف شفاف (جس قدر کہ پاکستان میں ممکن ہے) قرار دیا جو دونوں ہی بار خود اپنی نشست ہار چکے تھے ۔۔۔ یعنی اے این پی کے سینئیر رہنما جناب غلام احمد بلور ۔ اس لیے اس میں سب کے لیے عبرت کا سامان موجود ہے ۔۔۔ اگر 2013 کے انتخابات درست تھے تو یہ بھی درست ہیں۔ اگر 2018 کے انتخابات صاف و شفاف تھے تو پھر 2013 کے انتخابات پر اس قدر احتجاج سے ملک و قوم کا وقت برباد کیو کیا گیا، اس کا جواب تحریک انصاف پر واجب ہے۔

3۔ تحریک انصاف کی کامیابی نے صوبہ خیبر پختونخواہ کو پاکستانی فیڈیریشن کا ایک نیا حکمران صوبہ بنا دیا ہے ۔ اس عمل سے نہ صرف پاکستان مخالف پختون قوم پرستی کو شدید پسپائی کا سامنا ہے بلکہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے عوام اب پاکستان کے معاملات میں براہ راست اور زیادہ مؤثر طور پر شامل ہو چکے۔ سندھ اور پنجاب کے بعد پختونخواہ بھی اب وفاق کا ایک پراعتماد پارٹنر ہے۔ بعض لوگ کہتے یں کہ سندھ میں بھٹو صاحب کی پھانسی سے اعتماد کو زک پہنچی۔ بالکل ایسا ہی ہے لیکن اس ضمن میں دو باتیں یاد رکھیں ۔۔۔ پاکستان کے لوگ دل سے پاکستانی ہیں اور پاکستان کے نام کو اپنی شناخت کے طور پر پسند کرتے ہیں اس لیے وہ علیحدگی وغیرہ کے نعرے سنتے تو ہیں لیکن محض سیاسی پریشر کے طور پر، وہ اس پر عمل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ سندھ میں آج بھی پیپلز پارٹی کو ووٹ ملتے ہیں۔ چند حلقے اسے کسی طور کی ذہنی غلامی سے جوڑنے کی کوشش کرتےہیں۔ شاید یہ پوری حقیقت نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ہی وہ جماعت ہے جو سندھ کو اسلام آباد کے معامالات میں دخیل رکھ سکتی ہے۔ ان کی ترجیح وفاق پاکستان ہے ۔ اس لیے سندھی قوم پرست جماعتیں ہمیشہ سندھی عوام کے ووٹ سے محروم رہ جاتی ہیں۔ خیبر پختونخواہ بھی اب کم و بیش اسی پیٹرن پر آگے بڑھے گا ، انشاء اللہ۔

وفاق کے موجودہ چار صوبوں میں اب صرف بلوچستان ایسا ہے جسے اسلام آباد تک براہ راست رسائی حاصل نہیں ہوئی۔ وفاق کو یہ دیکھنا ہو گا کہ اس عدم توازن کو کیونکر دور کیا جا سکتا ہے۔ احساس محرومی اس اعتماد سے دور ہوتا ہے جو اپنے زور بازو پر میدان مارنے کے ساتھ خاص ہے۔ احساس محرومی دور کرنے کے نام پر چند عہدے پکڑا دینے سے احساس محرومی بڑھ تو سکتا ہے کم نہیں ہوتا۔ اونر شپ کی کیفیت ہمیشہ براہ راست کامیابی سے آتی ہے۔

4۔ حکومت کسی کی رائے میں جیسے بنی یا تیسے ۔۔۔۔ لیکن ریاست کے قوانین اور پالیمانی اصووں کے مطابق یہی پاکستان کی آئینی و قانونی حکومت ہے۔ اس کو کام کرنے کے لیے کم از کم چھ ماہ دیے جانے چاہئیں ، اس کے بعد تنقید کا عمل شروع ہو۔ اگر یہ حکومت شروع میں ہی سراسیمگی کا شکار ہو گئی تو کسی کا سیاسی فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن ملک کا اس میں کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ ویسے بھی تنقید وہ مناسب لگتی ہے جو ایشوز پر ہو ، محض جھنجھلاہٹ کی دین نہ ہو۔ پنجاب کے وزیر اعلی کی نامزدگی سے دوستوں کو حوصلہ ہو جانا چاہیے کہ خانصاحب تنقید کرنے کے لیے مواد کی فراہمی میں کنجوسی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ خاطر جمع رکھیں اور حکومت کو اپنا بہترین زور لگا لینے دیں۔ وقت سے پہلے تنقید سیاسی ماحول کو بلاوجہ مکدر رکھنے اور حکومت کو مظلومیت کی آڑعطا کرنے کے علاوہ کچھ خاص نہیں کرے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

5۔ حکومت کے لیے بس ایک بات ۔۔۔۔ آپ کے پاس قیمتی ترین ایک سال ہے جس میں پاکستان کے ازلی مسئلہ ، سول ملٹری مناقشہ ، سے آپ کو مکمل آزادی حاصل رہے گی ۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت کے اس “پرامن” دور میں جو بہتر سے بہتر اس ملک کے لیے کر سکتے ہیں کر جائیں ۔۔۔۔ آگے کا راستہ یہیں سے استوار ہو گا۔ اَگے تیرے بھاگ لچھیے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply