غفلت کی نیند۔۔۔۔ایم۔اے۔صبور ملک

دسمبر ایک بارپھر آگیا،سرد موسم،اُجاڑ چمن،سوکھے شجر،چھوٹے دن لمبی راتیں،ادباء کے نزدیک دسمبر ایک اُداس موسم لئے جلوہ گر ہوتا ہے،شعراء نے دسمبر کے حوالے سے بہت سا کلام کہا ہے،ان دنوں نہ چاہتے ہوئے بھی طبعیت میں ایک عجیب سی اُداسی اور ماحول میں اک ویرانی سی چھا جاتی ہے،ہماری ملی وسیاسی تاریخ میں بھی دسمبر کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے،وہ بھی ایک دسمبر کی30تاریخ تھی جب ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی،اور وہ بھی دسمبر ہی کا مہینہ تھا جب الہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں علامہ اقبال نے قیام پاکستان کی تجویز پیش کی،اور وہ بھی دسمبر کی 16تاریخ ہی تھی جب قائد اعظم کے بنائے ہوئے پاکستان کو چند مفاد پرستوں نے اپنے ذاتی  مفاد پر قربان کرتے ہوئے دولخت کردیا،کہاں وہ ڈھاکہ کے گلی کوچے جو لے کررہیں گے  پاکستان، بٹ کے  رہے گا ہندوستان،کے نعروں سے گونج رہے تھے اور کہاں اب یہ وقت کہ اپنے ہوئے پرائے،ہرسال اس اُداس مہینے میں ہمارے ذخم ہرے ہوجاتے ہیں،ہمارا تعلق اس نسل سے ہے جو المیہ مشرقی پاکستان کے بعد پیدا ہوئی۔لیکن اپنے بڑوں کی زبانی سن کر یوں لگتا ہے گو یا ہم ابھی المناک قومی و ملی سانحے کے کرداروں میں سے ہیں،کورس کی کتابوں میں جب قیام پاکستان کی تاریخ وواقعات پڑھے اور بعد  ازاں  جب محض 24سال بعد سقوط ڈھاکہ پر نظر دوڑائی تو معصوم ذہن گویا بھٹک سا گیا،لیکن جب سن شعور بیدار ہوا اور غیر جانبدار ہوکر تاریخ کا ازسرِ نومطالعہ کیا تو معلوم پڑا کہ بقول شاعر
دیکھا جو تیرکھا کے  کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی!
غیروں سے کیا گلہ ہماری کشتی ڈبونے میں سب سے بڑااور اہم کردار ہمارا اپنا ہے،1947سے لے کر 1971تک متحدہ پاکستان کے سیاسی حالات کے تناظر میں نتیجہ یہی نکلنا تھا،دشمن تو موقع کی تلاش میں تھا،کیا وجہ ہوئی کہ 1965میں یک جان ہوکر دشمن کے چھکے چھڑانے والی پاکستانی قوم اور فوج محض 6سال بعد اپنے ہی گھر میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئی؟47سال ہو گئے ہمارے جسد خاکی سے لہو کو رستے، کسی نے مرہم لگانے کی سعی نہیں کی،بس ہر سال اخبارات کے صفحات کالے کرکے گھونگھوں سے مٹی جھاڑنے کا فریضہ سرانجام دے دیا جاتا ہے،یا بہت ہوا تو نجی ٹی وی چینلز پر کوئی مذاکرہ ہو جاتا ہے،عملاً سقو ط ڈھاکہ کے محرکات اور اسباب پر بات ہی نہیں کی جاتی،ووٹ کے ذریعے وجود میں آنے والی دنیا کی سب سے بڑی اسلامی نظریاتی مملکت کے اقتدار پر جب غیر جمہوری قوتوں نے رات کے اندھیرے میں شب خون مار اتو اُسی دن سقوط ڈھاکہ کی بنیاد رکھ دی گئی،اور پھر جو ہوا وہ تاریخ ہے،نام نہاد ترقی کے نام پر ایوب آمریت نے جو گل کھلائے اور کانٹوں کی جو فصل بوئی اس کا کڑوا اور کسیلا پھل 16دسمبر کو پلٹن میدان ڈھاکہ میں ہمیں کھانے کوملا،چند طالع آزماؤں کی ہوس اقتدار نے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی فوج کو جس ذلت سے دوچار کیا اس کی مثال معلوم انسانی اور مسلمانوں کی تاریخ میں نہیں ملتی مشرقی  پاکستان ہم سے جدا ہو گیا اور اہل ہوس اسلام آباد میں ماونوش میں مصروف تھے،ایوب خان کو اقتدار سے الگ ہوتے وقت زمام اقتدار اُصولاً سپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کرنا چاہئے تھا،لیکن آمر نے اپنے جیسے ایک اور آمر کو پاکستان کا اقتدار باپ کی جاگیر سمجھ کر حوالے کیا،اور چلتے بنے،اسکے بعد   یحیی خان نے جب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر  انتخابات کروا دئیے تو اقتدار اکثریتی جماعت کا حق تھا،لیکن مسٹر بھٹو نے جب کرسی ہاتھ سے جاتی دیکھی تو جان بوجھ کر ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں رکاوٹ ڈالی اور اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی،دیکھا جائے تو مشرقی پاکستان کے مارچ 1971سے خراب ہونے والے حالات شیخ مجیب الرحمن کی جماعت کو زمام اقتدار دینے سے شاید ٹھیک ہو جاتے اور مشرقی پاکستان میں پائی جانے والی  بے چینی اور سب سے بڑھ کر اس بات کااحساس محرومی بھی ختم ہوجاتا کہ انھیں قیام پاکستان کے بعد سے 1971تک مرکزی حکومت نہیں ملی،زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا میری ناقص رائے میں شیخ مجیب الرحمن کی حکومت 6ماہ سے ایک سال نکال پاتی اور دوبارہ انتخابات کروانے کی نوبت آجاتی،کم ازکم ہم سقوط ڈھاکہ کی شرم ناک شکست سے تو بچ جاتے،لیکن نہیں،نام نہاد فخر ایشیا ء کو تو یہ کسی طور منظور نہیں تھا،نظر تو یوں آرہا تھا کہ جیسے اسلام آباد میں بیٹھے لوگوں کو مشرقی پاکستان سے جان چھڑانا تھی جو ایک کے بعد ایک غلط فیصلہ کیا گیا اور بقول جنرل (ر)ٹکا خان مرحوم کے ہمیں زمین چاہئے،آبادی نہیں اور جب وقت آیا تو نہ زمین رہی اور نہ آبادی اور 90ہزار سے زائد فوج کو دشمن نے قید کرلیا،ٹائیگر نیازی کاغذی شیر ثابت ہوا،قائد اعظم  کا پاکستان ٹوٹ گیا،آج بھی و ہی حالات ہیں،پاکستان اس وقت بڑی طرح طبقاتی نظام زندگی میں جکڑا ہوا ہے،ترقی کے شواہد صرف چند مخصوص علاقوں میں ملتے ہیں،باقی ملک آبادی ابھی تک خط غربت سے کہیں نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے،سیاسی و سماجی حالات آج بھی 71سے مختلف نہیں،نادیدہ قوتیں آج بھی اپنا مذموم ایجنڈا مکمل کرنے کے لئے پاکستان کو ہدف بنائے ہوئے ہیں،جس کی بڑی مثال عین سقوط ڈھاکہ والے دن آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم بچوں کی شہادت کا سانحہ ہے،دشمن جاگ رہا ہے،غفلت کی نیندسے ہم بیدار نہ ہوئے تو خدا نخواستہ ایک اور سقوط ڈھاکہ ہمارا منتظر ہے،47سال کم نہیں ہوتے سدھرنے کے لئے،ان تمام اسباب و حالات کو ختم کرنا ہو گا جنہوں نے المیہ مشرقی پاکستان کو جنم دیا،اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین،شہدائے اے پی ایس پشاور کی قربانی کو سلام۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply