لاپتہ فریادیں۔منصور ندیم

عزت مآب جناب آرمی چیف صاحب!

سر ، ابھی کچھ دن پہلے ہی میں اک دوست سے ریاستی عسکری اداروں  کی تعریف کر رہا تھا، جبکہ وہ مجھے انتہائی گھٹیا نظروں سے گھور رہا تھا – خیر تو میں اسے بتا رہا تھا کہ پچھلے کچھ عرصے  سے عسکری  ایجنسی اداروں  نے واقعی بہت زیادہ صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور اپنے خلاف،  اپنے مخا لفین کی ہر طرح کی تنقید پر برداشت کا مظاہرہ کرنے کی ایک اعلی  روایت ڈالی ہے۔ مگر اب پھر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ سب کچھ ویسے ہی چل رہا ہے  یا کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ روایت پھر ٹوٹ گئی ہے ۔

عوام پھر سے چلا اٹھی ہے کہ تازہ ترین مسلسل  لا پتہ ہونے والے افراد کے پیچھے ہو نہ ہو  ریاستی عسکری  اداروں کا ہاتھ ہے۔ ابھی ماضی کے بلاگرز کا غم تازہ ہی  تھا کہ سجاد علی شاہ (ابو علیحہ)  کے لا پتہ ہونے کی خبر آگئی، پہلے تو چلیں صرف مرد حضرات غائب ہو رہے تھے، اب تو خواتین اور پوری کی پوری فیملیز کے غائب ہو نے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے ،  خیر اب تو اس عوام کی بھی یہ عادت ہو گئی ہے کہ جو شخص بھی گمشدہ  یا لاپتہ ہو جائے یا مردہ اور نیم مردہ حالت میں ملے بلا تحقیق اس کا الزام اتنے معتبر اور قابل عزت اداروں پر لگا دیتے ہیں ۔یا پھر ملک بھر میں جتنے پولیس مقابلے ہو رہے ہیں ان کو جعلی قرار دیتے ہیں ۔

مرشد! اب آپ بھی تھوڑا خیال کیا کیجئے آپ اور ہم ، چاہیں یا نہ چاہیں، لیکن زمانہ بدل رہا ہے صاحب۔۔۔ جو خفیہ معاملات کبھی چھپانا آسان تھا، اب شاید اتنا آسان نہیں رہا۔ اب   خبر تو کیا افواہ بھی جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے ۔
میرا ان گمشدہ لوگوں سے کوئی رشتے دار یا  کسی سے بھی واسطہ یا بالواسطہ کوئی بھی تعلق نہیں ما سوائے  اس کے کہ ان کی گمشدگی کے بعد ان کے پروفائلز کو کھوج کر اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ اصل مسلہء کیا ہو سکتا ہے ۔

حد تو یہ ہے کہ جیسے پہلے سے ہی معلوم تھا کہ ان کو اغوا کیا جائے گا ۔ میرے خیال میں مسلے کا یہ حل زیادہ عرصہ نہیں چلنے والا۔ اب ہمیں میچور ہونا پڑے گا اب کوئی راہ نکالیے مائی باپ۔۔

یہ کیا کہ کچھ لوگوں نے صرف آرمی کے خلاف بولنا ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے اور یہ کیا کہ جب آرمی کا دل چاہے اپنے ملک کے شہری کو جہاں، جب، جیسے اور بلا قانونی تقاضوں کی تکمیل کے   اٹھا لیا اور ان کے وہ تمام جائز قانونی حقوق( بمطابق آئین پاکستان کے ایک شہری کی حیثیت سے ) کے بغیر گمنام عقوبت خانوں اور قبروں میں پہنچا دیا۔

جو لوگ آرمی یا ریاستی اداروں کی غیر قانونی معاملات اور سیاسی مداخلت پر ان کے خلاف بولتے ہیں ان سے بھی گزارش ہے کہ بات کوسلیقے سے پیش کریں ہر کوئی اپنی ذات میں تلوار نہ  بنے۔ اور یہ آرمی بھی اتنا بڑا ادارہ ہے کہ آدھی ملک کی عوام ہی یہ ادارہ ہے۔ اب اس کو بحیرہ عرب میں تو نہیں پھینکا جاسکتا۔ اور نہ ہی افغانستان اور سعودی عرب کو ہدیہ کیا جاسکتا ہے یہ الگ بات ہے کہ ریال و ڈالر کے بدلے میں کرائے کی آرمی کے طور پر اپنی خدمات بہم مہیا کرنے میں کوشاں رہتے  ہیں ۔

لہذا یہ جیسے بھی ہیں انہیں تھوڑا برداشت کر نے کی روایت ڈالیں ۔بےشک جب تک یہ آپ کے معیار کے مطابق نہ ہو ان کا احترام نہ کریں لیکن بے جا طعن و تشنیع سے بھی ہر ممکن گریز کریں (کیا پتا اگلے ممکنہ مغوی آپ نہ ہو جائیں)۔

یقین مانیں آرمی میں بھی چند سر پھرے ہی ہوتے ہیں جو غلط فیصلے کرتے ہیں ورنہ باقی تو سب ہم جیسے درویش ہی ہوتے ہیں۔ روٹین کے مارے، نصیب کے مارے، اور دل جلے ہی دل جلے۔

اور عزت مآب آرمی چیف صاحب، آپ سے بھی مودبانہ گزارش ہے کہ تھوڑا سا اپنے طور طریقوں کو بدلیں ، کہنے دیں ان بیووقوفوں کو، لکھنے دیں ان کو کون پڑھتا ہے ، جو ان کا دل کرتا ہے کرنے دیں، مستقبل قریب میں اس کا فائدہ ہمارے بچوں کو ہوگا، انہیں اس طرح لاپتہ کرنے سے الٹا آپ کی اور اس ملک کی لرزتی گرتی عزت پر حرف آتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے ملک چین میں اس سے بھی برے حالات تھے ، ذرا ذرا سی بات کہنے والے کو دھر لیا جاتا تھا ، لیکن فائدہ تو کجا ایسا کرنے سے حکومت کو مزید ذلت سہنی پڑی۔ بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ عوام کو دل کی بھڑاس نکالنے کی اجازت دی جائے انہیں پکڑنے سے بیرون ممالک میں بہت تھو تھو ہوتی ہے، آپ کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جس طرح آپ نے اس مملکت خدا داد کے کونے کونے پر نظر(اور تمام وسائل پر قبضہ بھی) رکھی ہوئی ہے، اس سے کئی گنا  گہری نظر دنیا بھر کے چالاک لوگوں نے آپ پر رکھی ہوئی ہے ۔

اب ذرا معاملات کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سلجھانے کی ضرورت ہے، یقین کریں فوج کے خلاف باتیں سن سن کر میرے کان پک چکے ہیں، اب تو معمولی ٹیکسی ڈرائیور اور مزدور تک آپ کے خلاف چونچیں مار لیتے ہیں،مائی باپ للہ  کچھ ہوش کے ناخن  لیں۔

بقول شاعر” زبان خلق کو کس طور بند کرے”

عہد حاضر میں ان سب زبان درازوں کو اپنے حق میں کرنے کا واحد راستہ  یہ ہے کہ آپ واقعی کچھ ایسا کریں کہ لوگ دل سے آپ کی تعریف کریں-

خدارا اب واقعی کچھ ایسا کریں!
اس وقت سے پہلے کہ وقت کی مہلت ختم ہو جائے ۔
ورنہ ظلم تو ظلم ہے ، مٹ ہی جائے گا ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے۔
صاحب نظراں نشہ قوت ہے خطرناک
اس سبک سیر وزمیں گیر کے آگے
علم وہنر , فکر ونظر خس وخاشاک!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply