• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ونگ کمانڈر(شہید )مارون لیسلے مڈل کوٹ (بار ٹو دی ستارۂ جرأت) ستارہ بسالت۔۔۔۔اعظم معراج کی کتاب ’’شان سبز وسفید ‘‘ سے اقتباس

ونگ کمانڈر(شہید )مارون لیسلے مڈل کوٹ (بار ٹو دی ستارۂ جرأت) ستارہ بسالت۔۔۔۔اعظم معراج کی کتاب ’’شان سبز وسفید ‘‘ سے اقتباس

اعظم معراج پیشے کے اعتبار سے ریئل اسٹیٹ ایجنٹ ہیں اس شعبے پر بھی دو کتب تحریر کر چکے ہیں پاکستانی معاشرے میں پاکستانی میسحیوں کی اجتماعی قابل فخر شناخت کو اجاگر کرنے  میں کوشاں ایک فکری تحریک کے بانی ہیں  لیکن خود کو رضا  کار کہتے ہیں جبکہ  انکے ساتھی انھیں بانی رضا  کار کہتے ہیں اس مقصد کے حصول کیلئے آٹھ کتابوں کی سیریز لکھ چکے ہیں جن میں نمایاں ،دھرتی جائے کیوں پرائے شناخت نامہ شان سبز وسفید شامل  ہیں۔

Tribute to the great shaheed on his 45th martyrdom anniversary.An excerpt from my book, “Shanakhat nama, The identity” by Azam Mairaj about wing commander shaheed Merwyn Middle coat SJ with bar. The only shaheed of PAF awarded with sitara-e-jurat twice. And sitar e basalt
ونگ کمانڈر(شہید )مارون لیسلے مڈل کوٹ (بار ٹو دی ستارۂ جرأت) ستارہ بسالت
پاکستان ایئر فورس کے دو دفعہ ستارہ جرت حاصل کرنے والے واحد شہید کی اپنے لہو سے لکھی ہوئی وطن پرستی کی داستان
اعظم معراج کی کتاب ’’شان سبز وسفید ‘‘ سے اقتباس

1940ء جولائی کے مہینے میں ایک اینگلوانڈین ریلوے افسرپرسی ویل مڈل کوٹ کی بیوی ڈیزی مڈل کوٹ اپنے میکے دہلی سے واپس اپنے سسرال لاہور آرہی تھی۔6 جولائی کو جب ٹرین لدھیا نہ اسٹیشن پر پہنچی تو ڈیزی مڈل کوٹ نے جس کے ہاں چوتھے بچے کی آمد متوقع تھی نے ٹرین میں ہی ایک خوبصورت بیٹے کو جنم دیا۔ لاہور پہنچنے پر بچے کا نا م مارون لیسلے مڈل کوٹ رکھا گیا۔ ننھا مارون جب دو سال کا تھا تو اس کے والد پرسی ویل مڈل کوٹ انتقال کرگئے ۔جب ننھا مارون اسکول جانے کی عمر کو پہنچا تو اُسے سینٹ انتھونی اسکول لاہور داخل کروادیا گیا ۔
سینٹ انتھونی اسکول لاہور سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوجوان مارون نے پاکستان ایئر فورس میں شمولیت اختیار کی اور پیشے سے اپنی محبت اور لگن کی بدولت جب ان کا سولہواں جی ڈی (پی)کورس 2 فروری 1954ء میں پاس آوٹ ہوا توگراؤنڈ سبجیکٹ(زمینی مضامین )میں اعلیٰ کارکردگی کی ٹرافی مارون لیسلے مڈل کوٹ کے حصے میں آئی ۔جو کہ کسی بھی کیڈٹ کے لیے ایک اعزاز ہوتاہے ۔
2 فروری 1958ء کو پاک فضائیہ کے جن 16 شاہینوں نے فالکن ایئربیٹک ٹیم کا مظاہرہ کیا اور فضائی تاریخ میں ورلڈ ریکارڈ قائم کیا یہ اُس قابل فخر ٹیم کے بھی ممبر تھے۔ اعلیٰ پیشہ ورانہ معیار کا یہ ہوا بازاعلیٰ اخلاقی اقدار نرم گوئی ،نرم مزاجی خوش گفتاری اور سب سے بڑھ کر وطن کی محبت سے سرشار نوجوان افسرتھا ۔ 27ستمبر 1957ء کو نوجوان فلائنگ افسر مارون لیسلے مڈل کوٹ کی شادی کراچی کے ایک مسیحی اینگلو انڈین خاندان کی بیٹی جین سے ہو گئی۔شادی کے بعد یہ خوبصورت جوڑا پوری پاک فضائیہ میں اپنی خوبصورتی ، اعلیٰ اقدار اور تہذیب یافتہ جوڑے کے طور پر مشہور ہوگیا ۔ یہاں تک کہ جب بیرون ممالک سے ایئر فورس کی اعلیٰ قیادت کے لوگ سرکاری طور پر پاک فضائیہ کے مہمان ہوتے تو غیر ملکی مہمان کے لئے ایئر چیف کے ساتھ مارون مڈل کوٹ اور ان کی اہلیہ کیساتھ جین مڈل کوٹ کومیزبانی کی ذمہ داری سونپی جاتی۔
ء میں انہوں نے ماری پور بیس سے FLS فائیٹر لیڈر اسکول کورس کیا۔ 5 اور 19 اسکوارڈن میں فلائٹ کمانڈر تعینات رہے۔
21 اکتوبر 1959ء کواس جوڑے کے ہاں ایک بیٹی نے جنم لیا جس کا نام لیسلی این مڈل کوٹ رکھاگیا۔ مئی 1961ء کو پی اے ایف کی اعلیٰ قیادت نے پاک فضائیہ کی طاقت میں اضافہ کے لیے 2 فائٹر ایئرکرافٹ F-104 فضائے بیڑے میں شامل کیے۔ ان جدید طیاروں کی تربیت کے لیے جو ٹیم امریکہ کورس کے لیے گئی اُن میں فلائٹ لیفٹیننٹ مارون لیسلے مڈل کوٹ بھی شامل تھے۔ اسکواڈرن لیڈر صدرالدین کے ساتھ وہ پہلے فائٹر پائلٹ تھے جنھوں نے F-104 طیاروں کے جوڑے کو پی اے ایف بیس فیصل سے پی اے ایف بیس سرگودھا پہنچایا۔ ایئروبیٹک اور مڈل کوٹ لازم و ملزوم تھے۔ وہ اس ٹیم کے بھی ممبر تھے جس نے ونگ کمانڈر انور شمیم کے قیادت میں سیبر 9 کا مظاہرہ کیا۔اس ٹیم میں ان کے ساتھ مشہور ہواباز سرفراز رفیقی، منیرالدین، ایم ایم عالم، یوسف علی خان اور یونس حسن شامل تھے۔ اس 9 رُکنی ٹیم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان میں سے 7 نے 1965ء کی جنگ میں ستارۂ جرأت حاصل کیے۔
1965ء کی جنگ کہ دوران مارون جو کہ اب فلائٹ لیفٹیننٹ مارون لیسلے مڈل کوٹ ( العروف کمانڈر لیسلے) ہو چکے تھے ۔ مسرور بیس کراچی میں تعینات تھے ، دوران جنگ ایک اندھیری رات انڈین ایئر فورس نے کراچی پر دھاوا بول دیا ۔ زمین سے دفاع وطن کے لیے پاک فضائیہ کے F-86 سیبرز طیاروں میں سوار جن شاہینوں نے پرواز کی ان میں ایک فلائٹ لیفٹیننٹ مارون لیسلے مڈل کوٹ بھی تھے۔ مادر وطن کی محبت میں سرشار اس جوشیلے شاہین نے پل جھپکتے ہی ہندوستانی ایئرفورس کے دو طیارے یکے بعد دیگر مار گرائے اور ثابت کر دیا کہ مادر وطن کی حفاظت کے لیے اس کے بیٹے نہ صرف جاگ رہے ہیں بلکہ ہر طرح کی جنگ کے لیے تیار ہیں۔ اس دلیرانہ اور پیشہ ورانہ کارکردگی کی بنا پر وہ دوران جنگ ہی پاک فضائیہ میں ’’محافظِ کراچی‘‘ (ڈیفینڈرآف کراچی) کے طور پر مشہور ہو گئے۔ دوران جنگ ہی ان کی تعیناتی لاہور مصحف ائیر بیس پر کردی گئی جہاں انہیں 9 اسکوارڈن کی کمانڈ سونپ دی گئی۔ تین ہفتوں کی اس جنگ کے دوران انہوں نے نہ کہ اپنے اسکوارڈ ن کا حوصلہ اپنے اس یقین سے بلند رکھا کہ کمانڈر کو کمانڈ ہمیشہ سب سے آگے بڑھ کر کرنی چاہیے۔ اس یقین کے ساتھ انھوں نے دوران جنگ 17 ایئر سور ٹیز کی اور تین فوٹو ری کو نسیسنس مشن (ایسا فضائی سروے جس میں دشمن کے علاقوں کا جائزہ لیا جاتا ہے ) کیے جنگ کے خاتمے پر ان کی دلیرانہ اور پیشہ ورانہ قیادت کی بدولت انھیں ستارۂ جرأت سے نوازہ گیا۔ 1967ء میں جب اسکوارڈ ن لیڈر مارون مڈل کوٹ کی تعیناتی سرگودھا ایئر بیس پر تھی۔ ایک دن اسکول میں ان کی 8 برس کی بیٹی لیسلی مڈل کوٹ نے اپنی کلاس میں وطن سے محبت کے موضوع پر تقریر کی ریہرسل کر رہی تھی کہ ایک بچے نے کہا جاؤ آئی بڑی وطن سے محبت کرنے والی، یہ ملک تمہارا نہیں ، ہمارا ملک ہے۔ ننھی لیسلی مڈل کوٹ کے دماغ میں یہ جملہ بم کی طرح لگا اور وہ اس بچے سے لڑنے لگی، تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو، یہ میرا ملک نہیں ہے ۔ اس نے جب سے ہوش سنبھالا تھا، اپنے باپ اور ماں کو وطن سے محبت کی باتیں کرتے سنا تھا۔ اور تو اور ایک دن جب اسکی ماں اسکے باپ کو کہہ رہی تھی کہ ’’مارون تمہارے سب بہن بھائی بھی اور میرے خاندان والے سب بیرون ملک ہجرت کر گئے ہیں۔ ہم یہاں اکیلے رہ گئے ہیں ۔ ہمیں بھی کچھ سوچنا چاہیے۔‘‘ تو اسکوارڈن لیڈر مارون لیسلے مڈل کوٹ نے اپنی بیوی اور بچی کو سامنے بٹھا کر اپنے مخصوص ، نرم اور مضبوط لہجے میں کہا ، سنو ’’یہ میرا وطن ہے۔ میں نے یہاں جنم لیا ہے، میرا دادا، باپ اور میری ماں یہاں دفن ہیں۔میں نے اب تک جو زندگی گزاری ہے وہ اس وطن کی حفاظت کے لیے گزاری ہے اور شاید اس وطن کے لیے ایک دن جان بھی دے دوں گا، لہٰذا مجھے کہیں نہیں جانا۔‘‘ ایسے وطن پرست باپ کی بیٹی ننھی لیسلی نے اس بچے کے منہ سے یہ لفظ سنے تو وہ غصے سے جیسے پاگل ہو گئی، اس نے اس بچے کی تھپڑوں سے خوب تواضع کی اور خود رونے لگی ، اسکول سے گھر جاکر بھی روتی رہی کہ یہ میرا ملک ہے ، اس کو ہمت کیسے ہوئی یہ کہنے کی کہ یہ میرا ملک نہیں ہے۔
سہ پہر کو جب باپ ڈیوٹی سے واپس گھر آیا تو ماں نے بتایا آپ کی لاڈلی نے آج اسکول میں ایک بچے سے مارپیٹ کی ہے، باپ نے بیٹی کو پاس بلایا، ساری بات سننے کے بعد بیٹی سے کہا کہ ’’بیٹا سنو ایک تو اس طرح کی بات کرنے والے سے لڑتے نہیں بلکہ درگزر کرتے ہیں اور اپنے اخلاق اور کردار کواتنا بلند کرلیتے ہیں کہ اس طرح کی آوازیں ہمارے کانوں میں نہ پڑیں اور چھوٹی باتوں میں ہماری طاقت اور توانائی ضائع نہ ہو اور دوسری بات یہ کہ یہ ملک ہمارا کیوں نہیں ہے، یہ پاکستان کا جھنڈا دیکھو یہ سبز حصہ تمہارے اس دوست کا ہے جس کی تم نے پٹائی کی اور یہ سفید حصہ تمہارا ہے اور تمہارے سفید حصے میں وہ پول ہے جس کے سہارے یہ فضاء میں لہراتا ہے لہٰذا ہمیں اس سفید حصے کو مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے تاکہ اس کا سبز حصہ آزاد فضاؤں میں ہمیشہ لہراتا رہے‘‘۔
ء جنگ سے پہلے ونگ کمانڈر مارون لیسلے مڈل کوٹ اردن ڈیپوٹیشن پر جانے سے پہلے آفیسر کمانڈنگ ۔26 اسکوارڈن تھے اور پشاور بیس پر تعینات تھے اور57/II خیبر روڈ پشاور بیس میں رہائش پذیرتھے۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ چھڑتے ہی یہ واپس وطن پہنچے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ جس حوصلے جذبے کے ساتھ جنگ میں شامل ہوئے وہ ان کے ساتھیوں کے حوصلے بڑھانے کا ذریعہ بھی تھا اور ان کے ساتھیوں کی نظر میں یہ قابل قدر مثال بھی تھی۔
دوران جنگ جب پاک فضائیہ کی ہائی کمان نے آپریشن ’’امرتسرریڈار‘‘کا منصوبہ بنایا تویہ ان چھ پیشہ ور شاہینوں میں شامل تھے جنہیں ہائی کمان نے اس مشکل مشن کے لیے منتخب کیا گو کہ1965ء کے جو شیلے فلائٹ لیفٹ مارون لیسلے مڈل کوٹ اب ایک تجربہ کار ونگ کمانڈر تھے لیکن تجربے نے ان کے جوش کے ساتھ مل کر ایک ایسے پیشہ ور ہواباز کا روپ دھار لیا تھا جو دفاع مادروطن کے لیے ہر وقت تیار تھا : ’’آپریشن امرتسر ریڈار‘‘ بنیادی طور پر جام نگر ایئر بیس کو تباہ کرنے کا منصوبہ تھا کیونکہ یہ دشمن کا بہت محفوظ ایربیس تھا جہاں سے طیارے اڑکر وطن عزیز کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ لہٰذا فضائیہ کی ہائی کمان نے دشمن کو اس کے گھر میں گھس کر سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور آپریشن امرتسر ریڈار ترتیب دیا گیا۔لہٰذا 12 دسمبر 1971ء کو جب ونگ کمانڈ ر مارون لیسلے مڈل کوٹ اپنے ساتھی ہوا بازوں کے ساتھ بیس پر کھڑے انڈین ایئر فورس کے طیاروں کو تباہ کر رہے تھے تو زمین سے انڈین ایئر فورس کے 47 اسکوارڈن کے مگ طیاروں نے ان پر حملہ کر دیا کمانڈر لیسلے اپنا مشن مکمل کر چکے تھے لہٰذا انہوں نے نچلی پرواز کرتے ہوئے اپنی اسپیڈ بڑھا کر دشمن کے دو میزائل کے وار خطا کیے اور جب یہ گلف آف کچھپر پہنچے تو ان کے طیارے پر 300 میٹر تقریبا 330گز سے پھر میزائل داغا گیا جو ان کے طیارے پر لگا ۔ ان کے طیارے کو ہٹ کرنے والے انڈین ایر فورس کے فلا یٹ لیفٹیننٹ بھرت بوشن سونی کے مطابق اس نے ان کوطیارے سے اجیکٹ ہوتے اور گہرے سمندر میں گرتے دیکھا اور اپنے ہیڈ کواٹر کو ریسکو ٹیم بھیجنے کیلئے کہا۔ لیکن جب ریسکیوٹیم پہنچی تو کمانڈر لیسلے کہیں نہ ملے ۔
لہٰذا انہیں جنگ میں مسنگ ان ایکشن ڈیکلیئر کیا گیا ۔اوربعد از شہادت انہیں بار ٹو دی ستارہ جرات سے نوازا گیا۔ پاکستان ایئرفورس میں وہ دو دفعہ ستارۂ جرأت حاصل کرنے والے پہلے افسر تھے۔ بعد میں یہ اعزاز ایم ایم عالم نے بھی حاصل کیا اور اب تک یہ اعزاز صرف ان دو افسران کے پاس ہی ہے۔ جن میں سے پاکستان ایئرفورس کے شہداء میں سے یہ اعزاز حاصل کرنے والے ونگ کمانڈر مارون لیسلے مڈل کوٹ شہید اکیلے ہی ہیں۔

ایم ایم عالم کھلے دل سے اپنے ساتھیوں کی تعریف کرتے تھے جو کہ ہمارے معاشرے میں ایک بے مثال خوبی ہے ، ان کی ساتھیوں کی تعریف کرنے کی اس خوبی کی بدولت میں نے ان سے پوچھا کہ 1965 کی  فضائی جنگ میں آپ کے خیال میں کون نشانِ حیدر کا مستحق ہو سکتا تھا یا ہے تو انہوں نے بلا جھجک شہید اسکوارڈن لیڈر سرفراز رفیقی (ہلال جرات ) کا نام لیا اور کہا کہ “ان کی شجاعت اور لازوال قربانی کے باعث وہ نشان ِحیدر کے مستحق ہیں اور اس کےبعد اسکوارڈن  لیڈر علاؤ  الدین احمد (بچ) شہید (ستارہ جرات) کی دلیری اور شجاعت  اور قربانی بھی بے مثال ہے اور بھی نشان ِ حیدر کے مستحق ہو سکتے ہیں”۔

Advertisements
julia rana solicitors

1971 کی جنگ کے متعلق ان سے پوچھاتو انہوں نے فوراً کہا  “بے شک 1971 کے نشان حیدر کے مستحق یقیناً شہید ونگ کمانڈر مارون لیسلے مڈل کوٹ ہیں جنہوں نے انتہائی سنگین حالات میں غیر معمولی شجاعت اور دلیری دکھائی اور قربانی کی ایک لازوال مثال قائم کرتے ہوئے اپنے ملک و قوم پہ جان قربان کر دی”۔
ان کی شہادت کے بعد ان کی بیوہ کو اُردن کے شاہ حسین کا لکھاہوا خط ان کی بچی کے پاس ایک قیمتی خزانے کی طرح محفوظ ہے جس میں اُردن کے شاہ لکھتے ہیں کہ ’’بہن، شہید کی وفات نہ صرف آپ کا اور پاکستان کا بلکہ میرا بھی ذاتی نقصان ہے اور میری یہ خواہش ہے کہ جب شہید کو دفنایا جائے تو بے شک اس کا جسد خاکی سبز وسفید ہلالی پرچم میں لپٹا ہو لیکن اس کے سر کے نیچے یعنی سرہانے میرے وطن اُردن کا پرچم ہو۔‘‘ شہید کی انسان دوستی اور دوسروں کو اپنا بنانے کی یہ ایک عظیم مثال ہے۔ 12 دستمبر 1971ء سے لے کر پانچ سال بعد تک57/II خیبر روڈ پشاور بیس پر شہید کی بیوہ جین مڈل کوٹ اپنے خاوند اور شہید کی معصوم بیٹی لیسلی این مڈل کوٹ اپنے باپ کا انتظار اسی اہتمام اور امید سے کرتی کہ ڈیوٹی سے گھر پہنچ کر وہ جو کپڑے پہنتے تھے ان کو استری کر کے ہینگر کے ساتھ لٹکا دیا جاتا، باتھ روم کے سامنے چپل اسی طرح رکھ دی جاتی کہ ابھی وہ آئیں گے اور سب نارمل ہوجائے گا لیکن وہ نہ آئے کیونکہ انھوں نے اس جھنڈے کو آزاد فضاؤں میں لہرانے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا تھا۔ شہید کی بیوہ جین مڈل کوٹ نے27 جون 2011ء کو اپنی وفات سے پہلے تک جب ان کا کوئی رشتے دار دور دیسوں سے فون کرتا یا خط لکھتاکہ اب اپنی بچی کو لے کر یہاں آجاؤ تو وہ کہتی ’’نہیں آسکتی، سبزوسفید ہلالی پرچم کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کاشہید کا عزم میں بھولی نہیں۔‘‘ اسی طرح اب ان کی وفات کے بعد جب شہید کی بیٹی لیسلی این مڈل کوٹ کو اس کے دُور دیسوں میں بسے ننھیال اور ددھیال والے کہتے ہیں کہ اب توآجاؤ والدہ کی وفات کے بعد تم بالکل تنہا رہ گئی ہو، تو وہ آج بھی یہ ہی جواب دیتی ہے کہ ’’ نہیں آسکتی ،میں اپنے عظیم شہید والد کا سبزوسفید ہلالی پرچم کے سفید حصے میں موجودپول کو اس عزم کیساتھ تھامے رکھنے کا سبق کہ ہمیں اسے اس مضبوطی سے تھامنا ہے تاکہ اس کا سبز ہلالی حصہ آزاد فضاؤں میں تاقیامت لہراتا رہے۔ شہید کا یہ سبق میں ابھی نہیں بھولی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply