• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • (اے نبی ﷺ) یقینا ً آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔۔۔سیدہ ماہم بتول

(اے نبی ﷺ) یقینا ً آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔۔۔سیدہ ماہم بتول

 إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر ﴿1﴾فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ﴿2﴾  إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ﴿3﴾
 ترجمہ: بیشک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔ لہٰذا آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی دیں۔ یقینا ً آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔ (1)
یہ سورۃ بالاتفاق مکی ہے اور شان نزول بھی اس پر شاہد ہے۔ اس کی آیات تین ہیں۔ یہ قرآن کی مختصر ترین اور ساتھ جامع ترین سورہ ہے۔ اس سورۃ المبارکہ میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک اہم ترین خوشخبری ہے اور ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی تکمیل اور تا قیامت باقی رہنے کی ضمانت کا اعلان ہے۔ وہ ہے الکوثر (خیر کثیر) کی عنایت۔ یہ خیر کثیر جناب سیدۃ نسآء العالمین سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی پر منطبق ہے اور آج دین مبین اسلام کی بقا جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی اولاد کی قربانیوں کی وجہ سے ہے اور جو کچھ اس وقت دامن اسلام میں موجود ہے وہ اولاد زہراء سلام اللہ علیہا کے مرہون منت ہے۔
سبب نزول:
اس بات میں کسی کو اختلاف نہیں کہ یہ سورۃ ان لوگوں کی رد میں نازل ہوئی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابتر، لاولد کہتے تھے۔ واقعہ یہ پیش آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرینہ اولاد میں سے حضرت قاسم علیہ السلام کا انتقال ہوا۔ اس کے بعد حضرت عبداللہ علیہ السلام کا بھی انتقال ہو گیا۔ اس پر کفار قریش نے خوشیاں منانا شروع کر دیں۔ جب حضور ﷺ کے دوسرے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو ابو لہب دوڑتا ہوا مشرکین کے پاس گیا اور ان کو یہ خبر خوشی کے ساتھ سنائی:
بتر محمد اللیلۃ ۔۔۔ آج رات محمد لا ولد ہو گئے۔”
ابن عباسؓ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کے دوسرے فرزند حضرت عبد اللہ (؏) کی وفات پر ابو جہل نے بھی ایسی باتیں کی تھیں۔ اسی طرح عقبہ بن ابی معیط نے بھی اسی قسم کی خوشیاں منانے کا مظاہرہ کیا تھا۔ عاص بن وائل نے ایسے موقع پر کہا تھا:
ان محمد ابتر لا ولد لہ یقوم مقامہ بعدہ فاذا مات انقطع ذکرہ استرحتم عنہ“۔
 ترجمہ: محمد ابتر ہیں(نعوذ بااللہ)۔ ان کا کوئی بیٹا نہیں جو ان کی جگہ پر کرے۔ جب وہ فوت ہو جائیں گے تو ان کانام مٹ جائے گا اور تمہیں اس سے چھٹکارا ملے گا۔
 تفسیر آیت:
1۔ کوثر: فوعل کے وزن پر ہے جو کسی چیز کی انتہائی کثرت بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عربی زبان میں جو چیز تعداد یا مقدار میں کثیر ہو اسے کوثر کہتے ہیں۔ سفیان بن عیینہ ناقل ہے کہ کسی نے ایک بوڑھی عورت سے، جس کا بیٹا سفر سے واپس آیا تھا، پوچھا: آپ کا بیٹا کیا لے کر آیا ہے؟ اس عورت کہا: “آب بکوثر”۔ بہت سارا مال لے کر آیا ہے۔ (2)
2۔ خیر کثیر: کوثر کے لغوی معنی جب انتہائی کثرت کے ہیں تو ذہنوں میں سوال آتا ہے، کس چیز کی انتہائی کثرت؟ اس کا جواب ابن عباسؓ دیتے ہیں کہ کثیر سے مراد خیر کثیر ہے۔ اس روایت کو بخاری، ابن جریر اور حاکم نیشاپوری نے ابوبشر سے، انہوں نے سعید بن جبیرؓ سے انہوں نے ابن عباسؓ سے نقل کیا ہے۔ ابو بشیر نے سعید بن جبیرؓ سے کہا: لوگ کہتے ہیں کوثر جنت کی ایک نہر کا نام ہے؟ کہا جنت کی نہر خیر کثیر میں شامل ہے۔ یہی جواب ابن عباسؓ سے بھی منقول ہے۔
أَعْطَيْنَاكَ: لفظ عطا اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جہاں عطا شدہ چیز کو مالک بنانا ہو۔ ممکن ہے اس جگہ یہ بتانا مقصود ہو یہ کوثر ایک ایسا عطیہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔
خیر کثیر کا مصداق:
جب یہ سورہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابتر لاولد کہنے والوں کی رد میں نازل ہوئی ہے اور کوثر کا مطلب خیر کثیر ہے تو اس خیر کثیر کے مصداق کا تعین اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ ’’آپ کا دشمن بے اولاد رہے گا‘‘ سے ہوتا ہے۔ تیرا دشمن لاولد ہے ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے۔ یعنی آپ کو اولاد کثیر عطا کی ہے یا خیر کثیر عطا کیا ہے جس کا مصداق اولاد کثیر ہے۔ اگر کوثر سے مراد اولاد کثیر نہیں ہے تو اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ کاکوئی مفہوم نہیں رہتا جیسا کہ صاحب تفسیر المیزان نے کہا ہے۔ اس جگہ مولف “تفہیم القرآن” نے لکھا ہے:
“اس پر مزید آپ ﷺ پر ایک کے بعد ایک بیٹے کی وفات سے غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ اس موقع پر عزیزوں، رشتہ داروں، قبیلے اور برادری کے لوگوں اور ہمسایوں کی طرف سے ہمدردی و تعزیت کے بجائے وہ خوشیاں منائی جا رہی تھیں اور وہ باتیں بتائی جا رہی تھی جو ایسے ایک شریف انسان کے لیے دل توڑ دینے والی تھیں۔ جس نے اپنے تو اپنے غیروں تک سے انتہائی نیک سلوک کیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس مختصر ترین سورہ کے ایک فقرے میں وہ خوش خبری دی جس سے بڑی خوش خبری کسی انسان کو نہیں دی گئی اور ساتھ ساتھ یہ فیصلہ بھی سنا دیا کہ آپ ﷺ کی مخالفت کرنے والوں ہی کی جڑ کٹ جائے گی۔”
تفسیر محاسن التاویل میں لکھا ہے:
“جو کچھ ہم نے اس سورہ کے شان نزول میں لکھا ہے۔ اسی لیے امام اللغۃ ابن جنی اس بات کے قائل ہو گئے کہ کوثر کی تاویل ذریت کثیرہ ہے اور یہ بات نہایت خوبصورت بات ہے اور سبب نزول سورہ کے ساتھ مناسبت بھی رکھتی ہے۔ ابن جنی نے “شرح دیوان المتنبی” میں لکھا ہے: ابو الفضل نے جو کچھ مجھے لکھایا ہے اس میں یہ بات بھی تھی: قریش اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن یہ کہتے تھے محمد ابتر ہو گئے۔ ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ جب یہ فوت ہو جائیں گے تو ہمیں اس سے چھٹکارا مل جائے گا تو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا: اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ اور کثیر تعداد سے مراد ذریت ہے اور وہ اولاد فاطمہ (س) ہے۔” (4)
 فخر الدین رازیؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
الۡکَوۡثَرَ سے مراد آپ ﷺ کی اولاد ہے۔ کہتے ہیں یہ سورہ چونکہ ان لوگوں کی رد میں نازل ہوا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نرینہ اولاد نہ ہونے پر طعنہ دیتے تھے۔ پس اس کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی نسل عنایت فرمائے گا جو ہمیشہ باقی رہے۔ دیکھئے! اہل بیت کے کتنے افراد مارے گئے پھر دنیا ان سے پر ہے اور بنی امیہ کا کوئی قابل ذکر باقی نہیں رہا۔ پھر یہ بھی دیکھ لو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل میں کتنی بڑی ہستیاں عالم ہیں۔
 کوثر سے مراد حضور اکرم ﷺ کے لیے اولاد کثیر ہے، جو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے پھیلی ہے۔ فخر الدین رازیؒ اس آیت کے ذیل میں کہتے ہیں: دیکھو اہل البیتؑ کے کتنے افراد شہید کر دیے گئے، پھر بھی آج دنیا ان کی نسل سے پر ہے اور بنی امیہ کا کوئی قابل ذکر فرد باقی نہیں ہے۔
? حوالہ جات:
(1) الکوثر، سورہ 108۔
(2) تفسیر قرطبی 21: 219۔
(3) تفسیر کبیر 32: 313۔
(4) محمد جمال الدین قاسمی، تفسیر محاسن التاویل (تفسیر القاسمی)، 9: 555۔

Facebook Comments

سیدہ ماہم بتول
Blogger/Researcher/Writer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply