موبائل فون اور ہمارے بچے۔۔فاطمہ وہاب

موبائل کی تباہ کاریوں سے کون ناواقف ہے؟
اور جب بات آجائے بچوں کی تو آج کے دور میں بچوں کا اس کے بغیر گزارا ناممکن سی بات لگتی ہے، اب چاہے ان بچوں کی عمر دو سال ہی کیوں نہ ہو۔۔۔

جی ہاں! دو سال یا اس سے بھی کم۔
اکثر والدین بچوں کی ضد کی وجہ سے یوٹیوب کھول کر ان کو موبائل پکڑا دیتے ہیں یہ سوچ کر بچہ ہے بہل جائے گا۔ جب دو سال کا بچہ موبائل فون ہاتھ میں لے لیتا ہے اور بڑھتی عمر یعنی پانچ یا چھ سال کی عمر میں وہ شعور کی طرف بڑھتا ہے تو ساتھ ساتھ بچے میں شر اور برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور ذہن بگاڑ کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔

تحقیق کے مطابق موبائل کثرت سے استعمال کرنے کی وجہ سے روحانی بیماریوں کے  ساتھ ساتھ جسمانی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔
جیسے: نظر کا کمزور ہوجانا، بھینگا پن اور ذہنی معذوری وغیرہ۔

موبائل استعمال کرنے کی وجہ سے رفتہ رفتہ بچوں کی عادت پختہ ہوتی جارہی ہے حتی کہ وہ چیزیں بھی ان کو سمجھ آجاتی ہیں جو بڑوں کو نہیں آتیں۔ ہم سے پہلے کی نسل جو آگے جاچکی ہے وہ اس نسل کی رفتار کو سمجھ نہیں پارہی۔

اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں پر کڑی نظر رکھیں (وہ کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں کرتے) لیکن شک کی نگاہ سے نہ دیکھیں بلکہ اصلاح کی نیت سے بچوں پر نظر رکھی جائے، کیونکہ یہ دور ایسا ہے کہ ایک کلک کرنے پر وہ ساری چیزیں سامنے آجاتی ہیں جن سے ہمارے معاشرے میں بےحیائی اور برائی  عام ہوتی جارہی ہے۔

موبائل فون ایک ایسا آلہ ہے جس سے بچے بچ نہیں سکتے، اور آہستہ آہستہ یہ نشے کی طرح ان کی زندگی میں شامل ہوجاتا ہے۔ ان کا تقوی اور پرہیزگاری انٹرنیٹ کے سامنے ضائع ہوجاتی ہے۔

والدین کو چاہیے کہ بچوں کے  سامنے موبائل کا استعمال کم کریں، موبائل بچوں کی پہنچ سے بھی دور رکھیں، انہیں کھیل کود میں مشغول کریں، ان کے ساتھ خود کھیلیں، ایسی مشقیں کرائی جائیں جن سے بچوں کو خوشی محسوس ہوتی ہو جیسے کلر پینسل، کہانیاں اور واقعات سنائیں انبیاء کرام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے تاکہ ساتھ ساتھ ان کا ایمان بھی مضبوط ہو۔

بچے ہی والدین کا سرمایہ ہیں جس کی وجہ سے والدین جیتے ہیں، اگر یہی بگڑ گئے تو والدین کے پاس کیا رہے گا؟
والدین کو چاہیے کہ منصوبہ بندی کریں کہ، کس بچے کو کتنی عمر میں موبائل دیا جائے، اس کے بعد بھی ان پر کڑی نظر رکھی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب سے موبائل ہاتھ میں آیا
سکون بچوں کا تمام ہوا
دیکھتے ہیں دن اور نہ ہی رات
کرتے ہیں بے جا اس کا استعمال
موبائل نہ ملے تو بڑھ جاتی ہے بےچینی
مقدر ہوجاتی ہے ان کو بےسکونی
اب ہیں والدین پریشان
اس مسئلہ کے حل سے انجان
اب کریں تو کیا کریں ہم
کردیا ہے ہم نے بچوں پہ ستم
کہ سنتے نہیں وہ اب ہماری
کرتے ہیں بس اپنی من مانی
کریں گے اک بار کوشش ہم
ان کو پیار سے سمجھائیں گے ہم
کھیل کود میں لگائیں گے ان کا دل
اور کتابوں کی طرف کریں گے مائل
نا جانے کیا ہوگا ان کا مستقبل
کہ پڑھائی میں نہیں لگتا ان کا دل
اب بڑھائیں گے ان کا قرآن  سے ربط
اور دیں گے ان کو بہت سا وقت
یہ تعلق اب ان کا ٹوٹ جائے گا
کہ موبائل کا نشہ چھوٹ ہی جائے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply