یہ آکاش وانی ہے۔۔۔۔جہانزیب خان/قسط2

دوستو! دھماکوں کی بیک گراؤنڈ آوازوں کیساتھ سارا دن آوارہ گردی کرتے، اور رات کو آکاش وانی کے گانے اور زبردستی کی بی۔بی۔سی پشتو کی خبریں سنتے سنتے زندگی گذر رہی تھی لیکن کابل شہر کا ایک مزاج ہے کہ وہ زیادہ عرصے تک ایک ہی حالت میں نہیں رہتا اور نہ ہی اپنے باسیوں کو زیادہ دنوں تک ایک ہی روش پر زندگی گذارنے دیتا ہے۔۔۔
جنگوں کی شدت بڑھی تو جن کے پاس وسائل تھے وہ لوگ تو فیملیز کو لیکر جیسے تیسے یورپی ممالک کو نکل گئے، کم وسائل والے لوگ ایک سیلاب کی شکل میں پاکستان کی طرف امڈے، اور جن کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر تھے وہ لوگ اپنی جان سے زیادہ اپنی عزت اور آبرو بچانے کے لیے شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے اور دوسرے سے تیسرے کونے کوچ کرنے پر مجبور تھے۔۔۔ اب دراصل لوگ ایک دوسرے سے بھی ڈرنا شروع ہوگئے تھے،، ہزارہ پشتون سے ڈر رہا تھا اور پشتون ازبک سے خوف کھاتا تھا، لوگ دوسری قوم کے اکثریت والے علاقے سے گھر چھوڑ کر اپنی قوم کی اکثریت والے علاقوں میں جاکر آباد ہو رہے تھے۔۔۔۔۔

حصہ اول:  یہ آکاش وانی ہے۔۔۔۔۔۔جہانزیب خان

یارو کابل ویران ہوچکا تھا۔۔۔ پورے شہر میں شرطیہ طور پر کوئی ایسی عمارت نہیں تھی جس پر گولیاں اور راکٹ لانچر نہ داغے گئے ہوں۔۔۔ ہمارے گھر کی کھڑکیوں کے سارے شیشے بموں کی آواز کے ارتعاش سے ٹوٹ چکے تھے۔۔۔ لوگ اب شیشے کی جگہ پلاسٹک پولیتھن لگاتے تھے۔۔۔ اب کون روز روز نئے شیشے لگائے۔۔۔
کابل شہر میں صرف وہ لوگ بچے تھے جن کے پاس اس امید کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا کہ جنگ کے بعد ایک بار پھر سے امن آئے گا اور لوگ خوشحال زندگی گذراریں گے، ہمارے ابا جی بھی شاید کسی خوشی کی خبر کے انتظار میں بی۔بی۔سی کی پشتو اخپرونا سنتے رہے، اور ہم زمانے کے ڈھیٹ دنیا جہان سے بے خبر آکاش وانی کے گانوں پہ قطغنی ڈانس کرتے رہے۔۔۔
ایک ہم ہی کیا، کابل کے سب لوگ اب مرنے کا ڈر بھول گئے تھے، لوگوں میں بھوکے رہ جانے کا خوف زیادہ تھا۔۔۔۔۔۔
کئی بار ایسا ہوا کہ ہم شہر کے  کسی حصے میں گھوم پھر رہے ہیں اور ایک دم سے دو دھڑوں کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی، دوکاندار جلدی جلدی   دکانیں بند کر دیتے، ایک افراتفری کا عالم مچ جاتا، بھاگتے بھاگتے دس منٹ بعد دیکھتے کہ تھوڑی ہی دور شہر کے دوسرے حصے میں لوگ گولیوں کی آواز میں بڑے پرامن طریقے سے خرید و فروخت میں مشغول ہیں، کیونکہ جنگ کافی دور دس منٹ کے فاصلے پر ہو رہی ہوتی تھی۔۔ اور پھر جب دو تین گھنٹے بعد واپس شہر کے اسی جنگ زدہ حصے میں جانا ہوتا تو بالکل بھی محسوس نہیں ہوتا تھا کہ دو گھنٹے پہلے یہاں بندوقیں اور راکٹ لانچر چلے ہیں، اور دو مسلح دھڑوں کے کچھ جنگجو “شہید” اور بہت سے شہری “ہلاک” ہو گئے ہیں، سب دکانیں کھلی ملتیں، لوگ خریداری میں مشغول خوش گپیاں لگاتے نظر آتے، کیونکہ یہ اب انکا روزمرہ کا معمول بن چکا تھا۔۔ مرتے کیا نہ کرتے۔۔ شام کو گھر کچھ لیکر بھی جانا ہے، اب جنگ کا بہانہ روز روز تو نہیں چلنے والا نا۔۔

میری عمر کے نوجوان طبقے کے پاس سکول اور کالجز کی عدم دستیابی کیوجہ سے صرف دو ہی راستے بچے تھے کہ یا تو کسی مسلح دھڑے میں شامل ہوجاتے اور ہر قسم کی سرکاری و غیر سرکاری مال و دولت سے فیضیاب ہوتے اور یا پھر کھل کر آوارہ گردی کرتے۔
لہذا میں اور میری عمر کے میرے سارے کزنز (ایک دو کو چھوڑ کر) نے دوسرا راستہ چننے کو بہتر سمجھا۔۔
اب میں اور میرے دو جگری دوست، میرے کزن ریحان اور معصوم جان، صبح گھر سے نکلتے اور سیدھا شہر کے اس وقت کےسب سے بڑے شاپنگ مال “فروشگاہ بزرگ افغان” کا رخ کرتے، وہاں زیادہ تر کاؤنٹرز پہ خواتین چیزیں بیچتی نظر آتی تھیں۔۔۔ دل پشوری ہوتا رہتی  تھی۔۔۔۔
ایسے ہی جا کر کسی ٹیپ ریکارڈر کا ریٹ پتہ کرنا اور “مہنگا ہے” کہہ کر آگے چل دینا، جناب یہ روز کی روٹین بن چکی تھی، اور پھر ہم اس شاپنگ مال میں اتنا گئے، اتنا گئے، اتنا گئے کہ ایک ٹائم ایسا بھی آیا کہ یہاں کا سارے کا سارا عملہ ہمیں ہمارے ناموں سے جاننے لگا۔۔ اور اب وہ آنٹیاں چائے پانی کا بھی پوچھنے لگی تھیں۔۔۔۔

وہاں سے میکروریان ۳ (شہری علاقہ) کا رخ کرتے اور وہاں کی کہنہ فروشی (جہاں لوگ اپنے گھر کا سامان بیچنے کے لیے   لاتے تھے) میں مٹر گشت  کرنا اور آتی جاتی خواتین کیساتھ علیک سلیک بڑھانے کی کوشش کرنا جو کہ “برو گم شو” یعنی چل دفعہ ہو سے آگے کبھی نہیں بڑھ سکی۔۔۔ تو جناب یہ ہمارا ہر شام کا معمول ہوا کرتا تھا۔

آپکو سن کر حیرانگی ہوگی کہ افغان اتنے مضبوط اعصاب کے مالک ہیں کہ اس جنگ زدہ دور میں لوگ نہ صرف شادیاں کر رہے تھے بلکہ رباب، طلبہ، تمبور اور گائیگی کی محفل بھی سجائی جاتی تھی، اور اگر رات کو میوزک کی ذرا سی بھی میوزک آواز کسی طرف سے آجاتی تو ہم تینوں دوست آواز کے تعاقب میں چل پڑتے اور یہ ہمارے لئیے انٹرٹینمنٹ کا بونس ہوتا۔۔۔ ایک بار تو میوزک کی آواز کے پیچھے پیچھے کابل ائیرپورٹ جہاں ہمارا گھر تھا، وہاں سے تقریبا سات آٹھ کلو میٹر دور شہر نو پہنچ گئے۔۔۔ وہاں پہنچے تو شادی کی محفل ختم ہوگئی تھی، واپس گھر پہنچتے پہنچتے دیر ہوگئی۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ کرتے بھی تو کیا کرتے۔۔۔ انٹرٹیمنٹ کے نام پہ خود کو دھوکہ دیتے رہے بڑا عرصہ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک دن میں بیس قسم کی کیفیت بدلتی تھی دوستو۔۔ کبھی ڈر، تو کبھی بے فکری، کبھی رنج اور کبھی خوشی، کبھی دل کرتا بندوق اٹھاؤ، تو پھر دل کہتا نہیں یار فروشگا بزرگ افغان کا شاپنگ مال اچھا ہے۔۔۔
لوگ شاید پاگل سے ہو رہے تھے۔۔۔
روز شہر کے کسی نہ کسی حصے میں جھڑپیں جاری ہوتیں ۔۔۔ اور لوگ بھی اپنی روٹین لائف، (جنگ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے) کو جاری رکھے ہوئے تھے۔۔
خونی جھڑپیں تھیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں اور افغان تھے کہ جھکنا نہیں جانتے تھے۔۔۔
(جاری رہے گا)

Facebook Comments

جانی خان
تعریف اُس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply