میں صبح جب ایک بے خواب نیند سے بیدار ہوئی تو فضا میں کچھ انوکھا پن تھا۔ ہوا بوجھل تھی اور دور پہاڑوں پر سنہرے ہوتے گھاس اور زرد، سرخ، آتشیں خزاں رسیدہ پیڑوں کے باعث منظر ایک ایسی پینٹنگ میں بدل گیا تھا جسے مصور بنا کر سٹور روم کی دھول کے حوالے کر چکا ہو۔
“کیا خزاں آ گئی “؟؟ میں نے حیرت سے خود کلامی کی ۔ میری زندگی میں یہ واقعہ پہلی مرتبہ رونما ہو رہا تھا کہ مجھے موسم کی تبدیلی کا، رت بدل جانے کا احساس ہی نہ ہوا تھا۔ سبز موسم گزر گیا اور مجھے خبر بھی نہ ہوئی؟
دل میں کچھ گنوا دینے کا ملال کافی کی بھاپ کی مانند پھیلنے لگا۔ میں نے اپنے پسندیدہ موسم کو سانس لیتے، کروٹ بدلتے دیکھنے کا وقت کھو دیا تھا۔ خیر! “وقت ایک مہربان طبیب ہے” میں نے ادھوری کہانیوں اور خشک ہو چکے قلم سے دانستہ نگاہیں چرائیں اور وارد ہوتے خیالوں کو دامن سے جھٹک کر ایک بے رنگ اور خشک دفتری دوڑ کے لئے خود کو تیار کرنے لگی ۔
گہرے بھورے بالوں میں سفید بالوں کی تعداد شب ہجراں کی مانند بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ یوں جیسے کوئی ہجر نصیب روتے روتے آنکھوں کی بینائی کھو دے۔سیاہی سے سفیدی کا یہ سفر! آہ۔۔
“اونہہ! ہٹو بھئی! فضول کی جذباتیت! ” میں نے جھنجھلا کر برش پھینکا اور ادھ سلجھے بال یونہی لپیٹ لئیے۔ راستے میں ڈینڈلائن کے سفید سفید پر دار بیجوں کو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ بکھرتا دیکھ کر ایسا لگتا میرے بال ہوا کے ساتھ ساری کائنات میں بکھر رہے ہیں۔ بکھر جانے کا یہ عمل بھی کس قدر دلچسپ حماقت لیے ہوئے ہے۔
محبت کی پہلی کہانی۔ ۔۔۔مریم مجید ڈار
دفتری روٹین میں ایک خوبی یہ ضرور ہے کہ سیاہ اور سفید ہندسے اور روکھے بے جان دفتری الفاظ انسان کو کچھ دیر کے لئے ہی سہی، حساب سود و زیاں اور بیکار احساس تہی دامنی سے بے نیاز کر دیتے ہیں ۔ جی ہاں! اب سپروائزر کو تو داستان ہجر و فراق سے کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہی اسے یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ لیجر تیار کرتے، ورک پلان بناتے اور رپورٹس لکھتے وقت کتنی ہی کہانیاں، افسانے، شعر اور نظمیں مجھے کھا جانے والی نگاہوں سے گھورتے ہیں ۔ میرے لیپ ٹاپ کے کی بورڈ سے سہمی شکلیں لئے جھانکتے ہیں اور میں ہش ہش کہہ کر انہیں بلیوں کی مانند بھگا دیتی ہوں۔
مگر ! آج کچھ خاص ہے! کچھ ہے ضرور!! جو یہ واپس جانے کی بجائے میری آنکھوں، انگلیوں کی پوروں اور قلم کی نوک پر آن بیٹھے ہیں ۔
“تو کیا بے حسی کا یہ خول بھی مجھ سے چھن جانے والا ہے” ؟ میں نے دہل کر سوچا۔ اگر ایسا ہے تو پھر بھلا میں کس طرح خود کو زندہ رہنے کا فریب دے سکوں گی؟ جس دم گھوٹتی کیفیت سے بچنے کے لئے میں نے یہ ناپسندیدہ راہ چنی تھی وہ ایک بار پھر میری بے بسی پر طنزیہ ہنس رہی تھی اور میری یکسوئی میں ایک فون کال، گزر چکی فون کال ٹھک ٹھک دستک دیتی تھی۔
دراصل یہ سرد نیند ٹوٹی بھی اسی فون کال سے تھی جو میں کبھی بھی اٹھانا نہیں چاہتی تھی لیکن اسے سننے کی چاہ بھی سوئے ہوئے بچے کی مانند نیند میں ٹھنکتی رہتی تھی۔
” میں جانتا ہوں کہ یہ تم ہی ہو، سو فون بند مت کرنا” وہ اپنی مخصوص گہری آواز میں جانے کتنے زمانوں بعد میرے پردہ سماعت کو چھو رہا تھا۔ اور تب میں اس بات سے بے خبر تھی کہ میز کے کنارے کو بھینچے میری انگلیاں سفید پڑ چکی ہیں. ۔
“تو گویا یہ طے ہے کہ میرا درد کبھی قصہ پارینہ نہیں بن پائے گا”۔ لہو کا نمکین ذائقہ لبوں سے رسنے لگا۔
“کیسے ہو تم “؟ مروت نبھانے کی عادی زبان خود بخود پھسل پڑی اور وہ اس بات پر غور کیے بغیر، کہ میرے آلہ صوت پر اکھڑی ہوئی کھال کی پھڑپھڑاہٹ میری آواز میں بھی تھی، بے حد سادہ اور آسودہ انداز میں اپنے دلچسپ دنوں کا حال کہنے لگا۔
“ارے میں تو بالکل ٹھیک ہوں! اور پہلے سے کہیں زیادہ پرسکون بھی ” وہ بے فکری سے ہنسا ” ہاں! تمہارے سکون کے خزانے میں میری بے چینیوں کے سکے بھی تو شامل ہیں ” میں نے صرف سوچا تھا۔
“جانتی ہو؟ کینیڈا میں یہ جوبن پر آتی خزاں کے دن ہیں اور میری سرخ گاڑی سہ پہر تک بالکل زرد ہو جاتی ہے۔ ہر طرف پیلے ، سنہری، نارنجی، آتشیں اور سرخ پتے اڑتے رہتے ہیں ” ۔ آہ! وہ کس قدر خوش نصیب ہے! کیسی آسانی اور سادگی بھری اپنائیت سے وہ یہ سب کہے جاتا ہے۔ اس بات سے بے نیاز کہ ہمارے تعلق میں چھ ماہ پہلے جو فیصلہ کن موڑ آیا تھا، اس نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔
“میری کھڑکی کے نیچے کریپر کے تین پتے سُرخ ہو گئے ہیں ” میں نے بلا ارادہ یہ فقرہ ادا کیا اور پھر لب بھینچ لئیے ۔ وہ کیلگری کی حسین خزاں کے مزے لوٹ رہا ہے ۔ اسے کیا غرض کہ ایک دور افتادہ پہاڑی قصبے میں اس عورت پر خزاں کیسے آتی ہے جسے تین لفظ ادا کر کے زندگی اور ذہن دونوں سے بے دخل کر دیا گیا ہو۔ فقط تین الفاظ کی کند چھری سے تعلق کے حصے بخرے کیے جاتے ہیں مگر گھاؤ بھرنے کے لئیے تین صدیاں بھی ناکافی ہوتی ہیں ۔
“میں تم سے بینک اکاؤنٹ کی تفصیل لینا چاہ رہا تھا۔ دراصل۔۔۔ ” وہ کچھ اٹکا۔۔” ابا میری کوئی بات سننے کو آمادہ نہیں ہیں
محبت کی دوسری کہانی۔۔۔مریم مجید ڈار
۔ “وہ میرا فون تک اٹھانے کی زحمت نہیں کرتے۔۔ حالانکہ تم جانتی ہو، کہ میں نے تمہارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی” اسکا شکایتی لہجہ اب اپنی مخصوص خود غرضی کا رنگ اوڑھ رہا تھا۔ اور میں مزید تذلیل سہنے کی ہمت خود میں نہیں پاتی تھی۔ “مجھے تم سے یا کسی اور سے کوئی شکایت نہیں! اور یہ ایک بے معنی سی وضاحت ہے جسکی کوئی ضرورت نہیں ۔ میں ایک مناسب نوکری کر رہی ہوں جس سے میری سبھی ضروریات پوری ہو رہی ہیں ۔ تمہارا بہت شکریہ” میں نے قطعی اور دو ٹوک انداز میں اپنی بات اس تک پہنچا دی اور ایک پل کو تو وہ بھی چپ رہ گیا۔
کچھ لمحے ہمارے بیچ خاموشی سنسناتی رہی۔ اور عین اس لمحے جب میں فون بند کرنے کا ارادہ باندھ رہی تھی، وہ ایک بار پھر گفتگو کا ربط جوڑنے میں کامیاب ہو گیا۔ “تم نے کوئی نیا افسانہ نہیں لکھا کیا؟ بہت دن ہوئے تمہارے اکاونٹ پر سناٹا طاری ہے. ” الفاظ تھے کہ کیا؟ تازہ زخم پر ٹنکچر لگنے جیسی ٹیسوں سے میری روح تک تڑپ اٹھی۔ اس کے نزدیک معاملات اب بھی پہلے کی طرح آسان اور سیدھے تھے۔ مجھے اپنا نام بھی یاد کرنے پر یاد آتا تھا اور وہ مجھ سے افسانے کے متعلق پوچھ رہا تھا۔ واہ رے بے حسی!
“افسانہ! ہاں بس۔۔ وقت ہی نہیں مل پاتا۔۔ ” میں نے لایعنی سا جواب دیا اور وہ بالکل بھی نہیں کہا جو کئی بار تصور میں اس سے کہہ چکی تھی۔
میں چاہتی تھی کہ اس سے واردات ہجر کا قصہ کہوں اور بتاوں کہ روح کا ملمع کہاں کہاں سے کھرچا جا چکا ہے مگر یہ بیکار سی وضع داری جو تعلق کی شراب کو بے مزہ کر رہی ہے ، جیسے سچا موتی تلخ سرکے کے گھونٹ میں تحلیل ہو جاتا ہے ۔بے معنی اور مکھی کی بھنبھناہٹ سا تکلف جس کی کاہش بدن میں بیزار کر دینے والی تھکاوٹ بھر دیتی ہے۔
یہ نادیدہ سی گرہ جو تعلق میں بندھ گئی ہے یہ میرے ہجر کو بھی زنگ لگاتی چلی جا رہی ہے۔ کچھ کہنے سے روک دیتی ہے ۔ خواہش زبان کی نوک پر چوہے دان میں پھنسے جانور کی طرح پھڑپھڑاتی ہے اور سیاہ پتنگے میرے زرخیز تخیل کو راکھ میں بدلتے جا رہے ہیں۔ مگر میں نے اس سب کے بجائے چند رسمی جملے ادا کرنے کے بعد رابطہ منقطع کر دیا ۔
“تو وہ مطمئن ہے” سامنے پڑی چائے پر جمی بھوری جھلی کو غور سے دیکھتے ہوئے میں نے سوچا۔ شاید من کی مراد پا لینے والے یونہی مسرور رہا کرتے ہیں ۔ اس کے لہجے میں تایا ابا کے رویے کی شکایت تو ضرور تھی مگر نہ تو وہ پشیمان تھا اور نہ ہی اسے اپنے عمل پر ذرہ بھر ہی پچھتاوا بھی تھا۔
سیب کے سیاہ تنے والے پیڑ پر ایک میگ پائی بیٹھا تھا اور نیچے بیٹھی بلی کو دیکھ کر اپنی مخصوص آواز میں چلا رہا تھا۔ میں نے بسکٹ کا ایک ٹکڑا اس کی جانب اچھالا جسے اس نے فضا میں ہی پکڑ لیا اور پیڑ پر واپس جا بیٹھا ۔
جانور اور پرندے آنے وا لے خطرے کو وقت سے پہلے ہی بھانپ لیتے ہیں ۔ یہ ہم انسان ہی ہیں جو آخری لمحے تک انہونی کے متعلق لاعلم رہتے ہیں۔
ایسی ہی ایک قہرناک انہونی نے میری زندگی کو یکسر بے سمت کر دیا تھا ۔ تایا نے جب اپنے اکلوتے لخت جگر کے اڑان بھرتے پروں کو جکڑنے کے لئے میرے وجود کی بیڑی کا انتخاب کیا تو میں نے رنگوں بھری اس شام میں اس کے سنہرے گندمی چہرے کو راکھ رنگ ہوتے دیکھا اور میں جان گئی کہ زندگی نے میرے لئے ان چاہی کا لفظ منتخب کر رکھا ہے۔
وہ شام جب رات میں ڈھل گئی اور نیچے سے آنے والی تند آوازیں، غصیلے لہجے، تایا کی دھمکیاں اور تائی کی سسکیاں تھم گئیں اور خاموشی کی جھلی میرے نتھنوں پر لپٹ کر دم گھونٹنے لگی تو میں پندرہ سیڑھیاں اتر کر اس کے کمرے میں آ گئی ۔
وہ ملگجی روشنی میں فون کان سے لگائے کمرے میں چکرا رہا تھا اور فضا اس کے مخصوص سگریٹ کے دھویں سے بوجھل تھی۔ میں چند لمحے تذبذب سے اندر جانے یا نہ جانے کے متعلق سوچتی رہی اور اس کے انہماک میں کوئی فرق نہ آتا دیکھ کر جب میں نے پلٹنے کا ارادہ کر لیا تو اس نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے اندر آنے کا کہہ کر سب کھڑکیاں کھول دیں۔
میں نہیں جانتی کہ میرے چہرے پر کس قدر ٹوٹ پھوٹ نمایاں تھی مگر کچھ تو یقیناً تھا جو وہ قدرے دھیما ہو کر اپنے شاندار مستقبل کی ان پلاننگز کا ذکر کئیے جا رہا تھا جن کی راہ میں میرا بے مصرف وجود رکاوٹ بننے جا رہا تھا۔
“ابا کو جانے کیا بے اعتباری لاحق ہو گئی ہے۔ ؟ یہ چار سالہ ڈگری اور بیس تیس ہزار کی نوکری میری منزل ہرگز نہیں ۔ مگر ابا۔۔ ” وہ دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں میں اپنے بال جکڑ کر دبا دبا سا چلایا۔
“تم پریشان مت ہو! میں خود انکار کر دوں گی” میں نے اسے تسلی دی اور اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اس تمام رات مجھے اس ننھے سے پلے کا خیال آتا رہا جسے محلے والے ترس کھا کر روٹی کے نوالے تو ڈال دیتے مگر جونہی وہ تنہائی اور محبت کا مارا ان کے قریب آنے کی کوشش کرتا تو اسے دھتکار دیا جاتا تھا۔ “ہٹ پلید،! کپڑے ناس کرے گا ! “اب وہ معصوم اپنے پلید ہونے سے ناواقف تھا اسی لئے اگلی مرتبہ روٹی دیکھ کر پچھلی دھتکار بھول جاتا مگر میں تو انسان تھی اس لئے صبح چڑیوں کے بھی جاگنے سے قبل تایا کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ وہ خاموشی سے میری رات بھر کی دلیلوں کو سنتے رہے اور رات کو کھانے کی میز پر انہوں نے اپنے مخصوص ٹھنڈے لہجے میں اسے اپنا سامان پیک کرنے کے لئے کہہ دیا۔ “تم میرے کسی بھی فیصلے سے آزاد ہو، کینیڈا جانا چاہو یا کہیں بھی، جو چاہے کرو ۔ میں تم پر ہرگز کوئی دباو نہیں ڈالوں گا” روٹی کا لقمہ توڑتا اس کا ہاتھ بے یقینی کی وجہ سے ہوا میں ہی معلق ہو کر رہ گیا۔
“ہاں! مگر شرط یہ ہے کہ اس کے لئے تمہیں صرف اپنی قابلیت پر بھروسہ کرنا ہو گا۔ میں کسی بھی قسم کی مدد کے لئے معذرت خواہ ہوں ” وہ اپنی بات مکمل کر کے اٹھ گئے اور اس کا نتیجہ پندرہ روز ہونے والے نکاح کی صورت ميں دیکھنے کو مل گیا۔
رخصتی وغیرہ تو خیر کیا ہوتی، صرف پندرہ سیڑھیاں ہی تو طے کرنی تھیں. تایا ابا مرحوم بھائی کے سامنے سرخرو ہو گئے، تائی کو مستقل دوسراہٹ مل گئی اور اسے کینیڈا کی اڑان کے لئے پروانہ راہداری۔ اس سارے عمل کے دوران مجھے بس ایک نام اور ایک چھت کے نیچے رہنے کا سرٹیفیکیٹ عطا ہوا تھا۔
واہ! روح ، جذبات اور احساسات کے عوض صرف ایک سرٹیفیکٹ! کمرے میں ایک جیتے جاگتے انسان کی موجودگی سے اسے تو کوئی فرق ہی نہ پڑا تھا۔ میں حلال تو تھی مگر پسندیدہ نہیں، لہذا ان چھوئی ہی رہی۔ وہ تو مجھے بعد میں سمجھ آیا کہ وہ مجھ پر مہربانی کرتے ہوئے میرا “نقصان” نہیں کرنا چاہتا تھا۔
دو ماہ کا عرصہ صرف ایمبیسی کے چکر لگانے، اسناد اور دیگر کاغذات کی تصدیق کروانے میں نکل گیا اور جس شب اس نے اپنے خوابوں کے ملک کو پرواز کر جانا تھا، ہوٹل میں ڈنر کرنے کے بعد اس نے مجھے سوزن کے بارے میں پہلی مرتبہ بتایا۔
میپل کے پتوں سے سنہری بالوں والی اور موتیا رنگت والی سوزن! جس کے ساتھ اس نے ایک من چاہی زندگی کے خواب دیکھے تھے اور میرا بے مصرف وجود اس خواب میں ایک ڈراونا موڑ بن کر آ گیا تھا۔
میں بالکل خالی دل اور ذہن کے ساتھ اسے سنتی رہی اور گھر واپسی پر مجھے یقین تھا کہ وہ مجھے کسی دراز سے طلاق نامہ ضرور ملے گا۔ وہ تو نہ ملا مگر ایک منہ بند خاکی لفافے میں رکھی سوزن کی تصویر ضرور مل گئی ۔
اس رات میں اسے اپنے تکیے پر رکھے دیکھتی رہی ۔ وہ بہت حسین تھی اور اگر نہ بھی ہوتی تب بھی من چاہی تھی۔
چھت کا آسرا موجود تھا مگر اس کے عارضی ہونے کا احساس دن بدن گہرا ہوتا جاتا تھا۔
وہ مجھے فون بھی کرتا تھا۔ اپنا خیال بھی رکھنے کو کہتا تھا۔ اکثر میرے کسی افسانے پر دلچسپ تبصرہ بھی کرتا۔ سب کچھ اتنا دوستانہ اور اپنایت بھرا ہوتا کہ مجھے سوزن کا وجود ایک واہمہ محسوس ہونے لگتا اور تبھی” میں نے تمہارا افسانہ سوزن کو ترجمہ کر کے سنایا! بھئی وہ تو بہت ہی متاثر ہوئی کہ میری کزن میں اتنی صلاحیت چھپی ہے” وہ ہنستے ہوئے کہتا اور میرے اردگرد پھیلی تنہائی میں ہش ہش کی آوازیں گونجنے لگتیں اور میری نظریں غیر ارادی طور پر چھت کو ٹٹولنے لگتیں۔
اب اس کی گفتگو میں سوزن کسی ورد کی طرح آنے لگی تھی. “سوزن کو سگریٹ پسند نہیں، اب میں پائپ پیتا ہوں ” وہ کھلنڈرا قہقہ لگاتا اور میری رگیں تڑخنے کی آواز کمرے میں پھیل جاتی۔
وہ دن تعلق کے نیم مردہ وجود کو امید و بیم کے وینٹی لیٹر پر رکھے گزر رہے تھے اور پھر ایک شام وینٹی لیٹر سے نیم مردہ تعلق اتار دیا گیا۔ ان چاہے بوجھ کی سڑن سے اس کی حیات متعفن ہو رہی تھی اور اسے گلدان میں نئے من چاہے پھول سجانے تھے۔
محبت کی تیسری کہانی۔ ۔۔مریم مجید
“میں جانتا ہوں یہ تمہارے لئے آسان نہیں ہو گا۔مگر میں نہیں چاہتا کہ تم بیکار انتظار کی تھکن سے اپنی زندگی بے سکون کرو۔ تمہیں اپنے لئے بروقت فیصلہ کر لینا چاہئے ۔ تم اس نکاح کو ایک ناخوشگوار واقعہ سمجھ کر بھول جانا ! ” وہ نپے تلے الفاظ میں مطمئن انداز میں یوں سادگی سے بات کر رہا تھا جیسے مخاطب میں نہیں، بلکہ کوئی اور ہے۔ “میں نے نکاح کے الفاظ ادا کرنے کے سوا تمہارا کوئی نقصان نہیں کیا۔ایک طرح سے تم غیر شادی شدہ ہی ہو” میں جانتی تھی کہ وہ کس نقصان کی بات کر رہا ہے۔ کس قدر عظیم انسان تھا! اسے گوشت پوست کے جسم کا تو بہت احساس تھا مگر ایک زندہ انسان کو اپنے مقاصد کے لئے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دینے کا کوئی قلق نہیں تھا۔
“پیپرز تمہیں کچھ دنوں میں مل جائیں گے” یہ اس گفتگو کے آخری الفاظ تھے جس کے بعد تعلق کی نوعیت بدل جانی تھی۔
میرے احساسات بہت سرد اور سُن ہو گئے تھے ۔ شاید ٹوٹا ہوا تعلق بھی اس ٹوٹے ہوئے ربڑ کی مانند ہوتا ہے جو آخر تک پکڑے رہنے والے کے منہ پر ایسے لگتا ہے کہ حواس پر مستقل برف جم جاتی ہے۔
پندرہ دن بعد طلاق نامہ موصول ہو گیا تھا اور اس کے اثرات کم از کم میرے لئے اب تباہ کن نہیں تھے۔ دونوں بوڑھے رو پیٹ کر، ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر اور بیٹے سے تاعمر لاتعلقی کے اعلان کے بعد اب خاموش ہو گئے تھے۔
اور میں نے اس نوکری میں پناہ ڈھونڈ لی جس کی مصروفیات نے میرے حرف و لفظ کو، شعر و نغمہ کو اور تخیل کے ہرے پودوں کو سیاہ اور سفید دفتری الفاظ کے تابوت میں دفن کر دیا تھا۔ منجمند احساسات پر دھول اڑنے لگی تھی اور بالوں میں راکھ اتر آئی تھی۔
گہری خاموشی کی دبیز جھلی ہر شے پر یوں لپٹ گئی تھی جیسے کوئی برتن بہت عرصہ پانی میں ڈوبنے کے بعد ایک لیسدار جھلی میں قید ہو جاتا ہے۔ اس نیم اندھیری تہہ میں نہ کسی نگاہ کا تازیانہ پہنچتا تھا نہ کسی آواز کا کوڑا۔ آنکھیں موسموں سے ناآشنا ہونے لگی تھیں اور آئینہ میرے نقش بھول چکا تھا ۔
اور ایسے میں اس کی فون کال نے خود فراموشی کی وہ پناہ گاہ مجھ سے چھین لی تھی جہاں میں محبت کا زہریلا سیب کھا کر اپنے تیئں ہمیشہ کے لئے سو گئی تھی۔
تازہ آنسوؤں کی ایک رو میری آنکھوں میں مچلی اور منجمند سوتے پگھلنے لگے۔ میرے گالوں سے بارش کے پہلے قطروں سے اڑنے والی مٹی کی مہک فضا میں پھیلنے لگی ۔ ڈوبتے سورج کی کرنوں سے سفید بادل گلابی ہو رہے تھے اور ٹنڈ منڈ درختوں کی شاخیں اس پس منظر میں سیاہ معلوم ہو رہی تھیں۔
میں نے کہانی کا ہاتھ تھاما اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی ۔
Facebook Comments
واہ مریم تم ہر دفعہ مجھے حیران کرتی ہو
رب نے تمھیں احساس کے ساتھ الفاظ کے چناؤ اور ان سے موتیوں کی مالا بنانے کا ہنر عطا کیا ہے ۔
اتنا لکھو اتنا لکھو کہ عرش ہل جائے ۔
لو یو ۔
روبینہ فیصل