یہ آکاش وانی ہے۔۔۔۔۔۔جہانزیب خان

دوستو سال تھا ۱۹۹۵۔۔۔ کابل شہر کی خانہ جنگیاں اپنے عروج پہ تھیں، ایک طرف دوستم کی وحشی ملیشیا فورس تو دوسری طرف کابل کا قصائی لقب پانے والے گلبدین حکمتیار کی ظالم جہادی فورس، اور بیچ میں پھنسے ہوئے کابل شہر کے شہری، ایسے میں جب ہزارہ برادری بندوق لیکر پشتونوں کے خلاف میدان میں وارد ہوئی تو کابل کے شہری محصور ہوکر رہ گئے، شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک جانا موت کو گلے لگانے کے مترادف تھا، ایک علاقے میں پشتون کے سر میں “کروت” لفظ کا غلط تلفظ ادا کرنے پہ لوہے کی کیلیں ٹھونک دی جاتی تھیں، تو شہر کے دوسرے حصوں میں غیر پشتون اقوام کو کنٹینر میں بھر کر، کنٹینر کے نیچے آگ لگا دی جاتی تھی۔۔۔

غربت اور افلاس کا اندازہ آپ اس بات سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ ایک بوری آٹا لینے کیلئے پیسے توڑے میں لیجانے پڑتے تھے، لیکن آپکو یہ سن کر حیرانگی ہوگی کہ کابل کے شہری اتنے سخت جان اور زندہ دل ثابت ہوئے کہ دہشت کے اس ماحول میں بھی سینما گھروں میں انڈیا کی فلمیں دیکھنے کو ملتی تھیں، اور لوگ دیکھنے بھی جاتے تھے۔۔۔ لیکن فلم دیکھنے میں دو مشکلیں تھیں۔۔

نمبر ۱.. سینما کے جنریٹر میں اکثر بیچ فلم تیل ختم ہوجاتا اور لوگ دو دو گھنٹے تک تیل کا آنے اور جنریٹر چلنے کا انتظار کرتے۔

نمبر ۲.. فلم اتنی زیادہ سنسر کی جاتی کہ کہانی کی سمجھ ہی نہ آتی کہ ہیرو کون ہے اور ولن کون۔ بس آخر میں جو مر جاتا وہ ولن اور جو بچ جاتا اسے ہیرو سمجھ کے لوگ واپس گھر آ جاتے۔

میرے لئیے تو یہ ایک گھٹن کا دور تھا دوستو، نہ کوئی کام کاج، نہ کوئی منورنجن۔۔۔ بوریت بھری زندگی تھی۔
پھر ایک دن ابا جان نے پتہ نہیں کیسے دل پہ پتھر رکھ کر مجھے اور میرے کزن کو ایک بھرا ہوا توڑا پیسوں کا دیکر کہا “یار ایک ریڈیو ہی لے آؤ، خبریں وغیرہ سننے کیلئے”۔۔۔
قصہ مختصر میں نے توڑا کندھے پر رکھا اور ریحان اور میں بازار جا کر رشین میڈ ریڈیو لے آئے۔
جناب ریڈیو کیا تھا، سمجھو ہمارے گھر نئی نویلی دلہن ہی آگئی تھی۔۔۔
ریڈیو کیلئے پانچ، چھے سفید رنگ کے کشیدہ کاری کیے ہوئے کور بنائے گئے، مجھے ہفتے میں ایک بار صاف کپڑے پہننے کو ملتے یا نہ ملتے لیکن ریڈیو کا کور ہر تیسرے چوتھے دن بدلا جاتا۔
شام کی نماز پڑھ کر ابا جان ریڈیو لیکر بیٹھ جاتے، پشتو ڈرامہ نوے کور نوے جون جو نشر ہونا ہوتا تھا، دوستو ریڈیو پر ڈرامہ سننے کا اتنا مزہ ہوتا کہ ہم انڈیا کی کٹی پھٹی فلم جو سینما جا کر دیکھتے تھے وہ بھول جاتے۔۔۔۔
اب جیسے ہی سوا سات بجتے اور ریڈیو سے آواز نکلتی “دا د بی۔بی۔سی پښتو اخپرونه دہ” کوئی کمرے میں ہوتا یا نہ ہوتا ابا جان چونکتے ہوئے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے “چپ، چپ، چپ” کی صدا لگاتے۔۔۔

اب یہ ایک گھنٹے کا پشتو اور پھر ایک گھنٹے کا بی۔بی۔سی فارسی نشریات کا دورانیہ ہمارے لئیے بہت کٹھن ہوتا کیونکہ آکاش وانی پہ انڈیا کے نئے فلمی گانوں کے پروگرام کا بھی تقریبا یہی وقت تھا،
جیسے تیسے کر کے یہ دو گھنٹے گزرتے تب ابا جان عشا کی نماز پڑھنے کی تیاری کرتے، اور میں ریڈیو اچک کر دوسرے کمرے میں لیجاتا، اور انڈیا کے گانوں کیلئے آکاش وانی کا چینل جلدی جلدی ڈھونڈتا۔۔۔۔ اب پرانے گانوں کے پروگرام پہ گزارا کرنا پڑتا۔۔۔ اور پھر ساری رات ریڈیو کو  سینے پہ رکھ کر سنتے سنتے سو جاتا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر صبح صبح ابا جان کی آواز ہی اٹھاتی “اٹھ اوئے کافر، نماز تو تو نے پڑھنی نہیں ہوتی، ساری رات ریڈیو سنتے رہتے ہو، اٹھ نہیں تو جان نکال دونگا”۔۔۔
اب لاکھوں آسائشیں، ہزاروں انٹرٹینمنٹ کی چیزیں لیکن وہ آکاش وانی کے گانوں اور نوے کور نوے  ڈرامے کے مزے کہاں۔۔ اب وہ دوست بھی کہاں  اور سب سے بڑھ کر ابا جان کی وہ کرخت آواز پتہ نہیں کہاں کھو گئی ہے یارو۔۔۔
پیسے نہیں تھے لیکن سکون تھا،
جنگ تھی مگر آپس میں اتفاق بھی تھا،
بوریت تھی مگر دوست بھی تو تھے۔۔

Facebook Comments

جانی خان
تعریف اُس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply