میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28 میں گزارے 22 ماہ/گوہر تاج(20)

ایسے انسان کی آپ بیتی جنہوں نے باوجود صدمات کو جھیلنے کے اپنی زندگی کے ان واقعات کو دہرانے کی خواہش ظاہر کی جس کے وہ عینی شاہد تھے تاکہ تاریخ کے صفحات پہ انکے سچ کا اضافہ ہوسکے۔یہ داستان ہے 64سالہ ڈاکٹر انور شکیل کی، جو آج کینیڈا کے شہری ہیں ۔ انہوں نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ایک اُردو زبان بولنے والے بہاری خاندان میں آنکھ کھولی ۔ اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ اور جنگ میں ہارنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا کے شہر میرٹھ کی چھاؤنی کے کیمپ نمبر 28 میں زندگی کے 22 ماہ کی قید کاٹی۔

 

 

 

 

 

بیسویں قسط

رہائی  کی خوشی اور انجانا سا خوف

کیمپ میں رہائی  کی خبر میں خوشبو تھی تروتازگی تھی لیکن ساتھ ہی لپٹا انجانا سا خوف بھی کہ خوشیوں کی رہائی کی یہ خبر باد صبا کی مانند اسی طرح مہکتی رہےگی یا کچھ انہونی بھی ہوسکتی ہے۔ میرا دل انجانے خدشوں سے دھڑکنے لگتا۔ اس دن رہائی  کی خبر سن کر فیملی کیج سے جاتے ہوۓ رات کے نو بج گئے۔ میں اسکے بعد اپنےدوست سراج انور کے پاس چلا گیا۔وہی دوست جس کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں۔جو میرا کلاس فیلو تھا ۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ہم ایک دوسرے سے بچھڑ گئے تھے لیکن کیمپ میں ہم ایک بار پھر مل گئے۔اس رات ہم دونوں رہائی  کی خوشی کی خبر سن کر تادیر باتیں کرتے رہے کہ رہا ہونے کے بعد ہم اسکول جائیں گے اور خوب محنت سے پڑھیں گے۔اس رات ٹولیوں کی شکل میں سارے لوگ ہی بجاۓ اپنے بستر میں جانے کے اپنی اپنی خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ بالآخر انتظامیہ کو لاؤڈ اسپیکر پہ اعلان کرنا پڑا کہ آپ اپنے اپنے کمروں میں جا کر سو جائیں۔

رہائی کا اعلان:

یکم ستمبر ۱۹۷۳ء ، ہفتہ کا روز، رات کی گنتی کے وقت کیمپ کمانڈر میجر ورمانے ہم سب کو خبر دی کہ جے پی ایس باجوہ صاحب چھ ستمبر کو کیمپ کے دورے پہ تشریف لا رہے ہیں۔ لہٰذا اس پورے ہفتہ کیمپ میں ہفتہ صفائی منایا جاۓ گا۔اس پورے ہفتہ زور وشور سے صفائی ہوتی رہی۔چھ ستمبر کو برگیڈیئر صاحب تشریف لاۓ ۔ اس دن صبح سے بدلی چھائی  ہوئی تھی اور موسم بہت خوشگوار تھا۔سب قیدیوں سے میدان میں جمع ہونے کو کہا گیا۔ ہمیشہ کی طرح وہ ہمارے لیے تحائف لاۓ تھے لیکن اس دفعہ تحفوں کی تعداد کچھ زیادہ تھی۔قرآن پاک ،جاۓ نماز ، بسکٹ کے پیکٹس کے علاؤہ اخبارات اور رسائل وغیرہ۔ اعلان سننے کے لیے ہم سب زمین پہ بیٹھ گئے۔ انہوں نے آتے ہی اعلان کیا کہ سب لوگ خوش ہو جائیں۔آپ سب لوگوں کی جلد رہائی ہونے والی ہے۔روانگی کی تیاری شروع کیجیے۔

گو چھ ستمبر تو پاکستان میں یوم دفاع کے طور پہ منایا جاتا ہے لیکن ۱۹۷۳ ء میں جنگی سپاہیوں کے ہتھیار ڈالنے اور قیدی بن جانے کی صورت اس دن کی کیا اہمیت رہ گئی تھی؟ برگیڈیر صاحب نے اعلان کیا کہ ہمیں ہائی کمیشن کی جانب سے ہدایات آگئی ہیں کہ آپ لوگوں کی روانگی کی تیاری کی جاۓ۔ لہٰذا یہ عمل ایک ماہ میں شروع ہوجاۓ گا۔یہ خبر سن کر لوگ اپنے جذبات پہ قابو نہ پا سکے اور اس خوشی میں نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے فضا گونجنے لگی۔ برگیڈیر صاحب نے نعرہ بازی کو منع نہ کیا لیکن یہ ضرور کہا کہ کچھ نعرے ہمارے لیے بھی لگا دیں۔اس پر برگیڈیئر صاحب زندہ آباد کے نعرے بھی لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ وطن کی محبت کو نہ کوئی کم کرسکتا ہے اور نہ ختم ہو سکتی ہے ۔ چاہے ہم قید ہی میں کیوں نہ ہوں۔اس اعلان کے بعد برگیڈیئر صاحب نے کچھ اور بھی اعلانات کیے۔ جو مندرجہ ذیل ہیں۔

۱- کل سے آپ کے کام کے اوقات میں دو گھنٹوں کی کمی کردی جاۓ گی۔اور اب آپ چار کے بجاۓ دو گھنٹے کام کریں گے۔

۲۔ اب آپ لوگوں کو روزانہ ناشتہ بھی ملے گا۔ ناشتہ میں ڈبل روٹی ، چاۓ اور پاپے ملیں گے۔

۳۔ اب چونکہ آپ چند ہفتوں کے مہمان ہیں لہٰذا آپ کے ساتھ مہمانوں کا سا سلوک کیا جاۓ گا۔

۴- کل سے کیمپ میں نائی کا انتظام کیا گیا ہے۔تاکہ آپکے بال کاٹے جائیں۔

۵۔ دوپہر کے کھانے کے بعد آپکو روزانہ پھل بھی ملیں گے۔

۶۔ اپنے رشتہ داروں کو خط لکھ کر آپ پارسل منگوا سکتے ہیں لیکن صرف کپڑوں کے۔اوروہ بھی پندرہ اکتوبر سے پہلے یہ پارسل مل جائیں۔ اس بات سے ہم سب نے یہ اندازہ لگایا کہ ہم پندرہ اکتوبر تک ہی یہاں ہیں۔ جو حسن اتفاق سے میری سالگرہ کا بھی دن ہے۔

۷۔ اب دو ہفتہ کے بجاۓ ہر ہفتے کھانے میں گوشت ملے گا۔

انکے ہر اعلان پہ زور دار تالیاں بجتیں۔ ہم سب بہت خوش تھے۔ ابّی بھی خاصی حدتک نارمل نظر آرہے تھے۔

اسکے بعد میجر ورما سے برگیڈیئر صاحب نے کہا آپ کو کچھ کہنا ہے۔جس پر میجر ورما نے کہا “۲۵ ستمبر کے بعد ایک میٹنگ ہوگی جس میں کیمپ کمانڈر ، بیرک اور روم کمانڈر سب شریک ہونگے اور اس میں ساری تیاری کے بارے میں تفصیل طے کی جاۓ گی۔”

لوگ خوشی سے رو رہے تھے۔ اور اللہ کا بار بار شکر ادا کر رہے تھے۔ اسکے بعد عشاء کی نماز کے بعد میدان میں باجماعت نماز ادا کی گئی اور لوگ ٹولیوں میں بٹ گئے۔گفتگو کا محور رہائی  تھا ۔ اور پھر سب اپنے اپنے بستروں میں چلے تو گئے مگر رہائی کی خوشی میں نیند آنکھوں سے اوجھل تھی۔

سات ستمبر کی صبح سے سب کو صبح کا ناشتہ  ملنے لگا۔اور دوپہر کے بعد فیملی وزٹ کے وقت امی کو ساری تفصیل بتائی گئی۔ سب لوگ ہی بے اندازہ خوش تھے۔

رمضان کی آمد آمد تھی۔ اب ہم سب کو یہ امید ہوچکی تھی کہ شاید رمضان ہی میں ہم پاکستان چلے جائیں اور عید پاکستان میں ہی ہو۔

۲۵ ستمبر کو کیمپ میں میٹنگ ہوئی جس میں کیمپ کمانڈر ، بیرک کمانڈر ، اور ہوم کمانڈر نے شرکت کی۔اس میٹنگ میں کچھ باتیں طے پائیں۔ جو مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔رہائی  والے دن کے لیے صاف ستھرے کپڑوں کا انتخاب کریں۔

۲۔ جوتے یا سینڈل بھی صاف ستھرے ہوں اور ان پہ پالش کی گئی ہو۔

۳۔ کوشش کریں کہ سفر کے لیے کم سے کم سامان ہو۔

۴۔ جن لوگوں کے زیورات اور پیسے جمع کراۓ گئے ہیں ان کو روانگی سے دو دن قبل یہ سامان واپس کر دیا جاۓ گا۔اس سامان میں ہمارا ٹرانزسٹر اور ابّی کا ٹائپ رائٹر بھی شامل تھا۔

۵۔ جتنے بھی سامان کے سفری صندوق (جو اس وقت عموماً ٹین کے ہوتے تھے، )ان سب کو براؤن رنگا جاۓ گا۔ اس مقصد کے لیے کل سے آپ سب کو برش اور پینٹ دے دیا جاۓگا۔ ہر سامان پہ خاندان کے سربراہ کا نام، قیدی نمبر اور کیمپ نمبر بھی لکھا جاۓ گا۔

۶۔ اگلے ہفتہ ۲ اکتوبر کو انسپیکشن ہوگی  اور تمام چیزیں چیک کی جائیں گی۔

اب کیمپ میں گویا جشن کا سا سماں تھا۔ لوگ زور و شور سے روانگی کی تیاریوں میں لگ گئے۔ کیمپ کا ماحول بہت ہی خوشگوار ہوگیا تھا۔ اب صبح و شام گنتی تو ہوتی تھی لیکن ناشتہ بھی ملتا اور ساتھ میں پھل بھی ملتے۔

۲ اکتوبر کے بعد گنتی کے بعد انسپیکشن ہوئی ۔ تمام لوگوں اور ان کے سامان کو چیک کیاگیا۔

اس مرحلے کے بعد ایک اعلان یہ ہوا کہ پندرہ اکتوبر کو ریہرسل ہوگی۔ جو کچھ اس طرح ہوگی کہ زمین پہ چونے سے لائین کھنچ کے فرضی ڈبے بناۓ گئے اور سیٹوں کے نشان لگاۓ گیے۔ پھر فہرست کے مطابق ہر شخص کا نام پکارا گیا۔سب کا سامان اور اس پر نام اور پتہ بھی چیک کیا گیا۔اور پھر یہ اعلان ہوا کہ ۲۰ اکتوبر کو نو سو قیدی جو نمبر ایک سے نوسو نمبر تک کے قیدی تھے پاکستان جائیں گے۔چونکہ ہم لوگوں کا نمبر دو سو تھا لہٰذا ہم پہلے گروپ میں شامل تھے۔

میری سالگرہ،یعنی پندرہ اکتوبر کے دن ، اس اعلان سے بڑھ کر بھلا اور کیا تحفہ ہوسکتا تھا۔

ابھی رمضان کا مہینہ چل رہا تھا۔ روزے کی سختی کے باوجود یہ سب کچھ گراں نہیں گزررہا تھا۔وجہ صاف ظاہر تھی کہ قید سے رہائی اور وطن روانگی کی تیاری کی خوشی۔

بیس اکتوبر ۱۹۷۳ء کو ہم لوگوں کی روانگی تھی۔ سترہ اکتوبر کو ایک سے نو سولوگوں کا انسپیکشن اور ان کے تمام سامان کی تلاشی لی گئی۔کافی لوگوں کے پاس ڈائری تھی۔ میرے پاس بھی ایک پیلے رنگ کی ڈائری تھی۔ساری پیٹیاں اور اس پر لکھےنمبر چیک کیے گئے۔لیکن اب ہمارے نام کے ساتھ پی او ڈبلیو یعنی جنگی قیدی کی اصطلاح حذف کر کے سی یو پی سی استعمال ہوئی۔ یعنی سولین انڈر پروٹیکٹوکسٹڈی ۔

اس دوران فیملی میٹنگز  روزانہ  کی بنیاد پہ کر دی گئی تھیں۔ابّی اب بالکل نارمل اوربہت خوش نظر آنے لگے تھے اور ہم سب مل کر لمبی باتیں کرتے اور ہمارا موضوع ہوتا کہ اب پاکستان جا کے کس طرح نئے سرے سے زندگی کی شروعات کرنی ہوں گی۔ اس کی فکرتو تھی مگر رہائی کی خوشی فکر فردا پہ غالب تھی۔

ہماری روانگی سے قبل ساتھ والے کیمپ نمبر ۲۸ سے قبل ہمارے ساتھ والی کیمپ نمبر۵۱ سے ایک گروپ ہمارے سامنے روانہ ہورہا تھا اور روانگی کے اس نظارے سے ہم پوری طرح محظوظ ہو رہے تھے۔

زنجیر شکن وہ کشش فصل بہار

اور زنداں سے نکلنا ترے دیوانے کا

Advertisements
julia rana solicitors

ریاضؔ خیرآبادی
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply