مرحوم یوسفی بڑے ادیب نہیں تھے۔۔۔۔ کامریڈ فاروق بلوچ

یونیورسٹی میں ہوا کرتے تھے، پیسے پورے پورے ملا کرتے تھے، کوئی ایسا دن نہ آیا جب ہمارے پاس پیسے ہوتے، علاوہ ازیں مڈل کلاس کے بچے اگر جامعہ میں کسی طلبہ تنظیم سے منسلک ہو جائیں تو بہت مشکل میں پھنس جاتے ہیں۔ خیر میں نے گھر سے ملنے والی رقم سے بچا بچا کر دو ہزار خرچ کر کے جوناتھن سوئفٹ کی تصنیف گلیور کے سفر (Gulliver’s Travels) منگوا کر پڑھی. یہ بہت مزاحیہ کتاب ہے۔

سچ یہی ہے کہ یورپی سیاسی تناظر اور فلسفیانہ سیاق و سباق کو سمجھے بغیر اِس کتاب کو بطور مزاحیہ سفرنامہ ہی پڑھا تھا۔ لیکن جب دوبارہ 2011ء میں اِسی کتاب کو پڑھا تو یہ یورپی حکومتوں کے حوال اور مذاہب کے درمیان فروعی اختلافات کا ایک طنزیہ منظرنامہ تھا۔ اُسی طرح جب مصنف نے بدعنوانی کا جو طنزیہ تجزیہ پیش کہ آیا یہ فطری نفسیات ہیں یا انسان اپنے معروض سے یہ سب کچھ سیکھتا ہے تو یقین کریں عش عش کر اٹھا۔ اِس کے بعد جارج اورویل کی مشہور طنزیہ کتاب اینیمل فارم پڑھی جو خصوصاً سوویت روس کے حاکمین اور عموماً اشتراکیت کے ‘خلاف’ لکھی گئی تھی. یقیناً یہ مزاح نگار کا شاندار طنز تھا جب اُس نے یہ بتایا کہ سب جانور ‘برابر’ ہوتے ہیں مگر کچھ جانور باقیوں کی نسبت تھوڑے زیادہ ہی برابر ہوتے ہیں۔

یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ابھی میں نے اردو کی کوئی طنزیہ و مزاحیہ تحریر نہیں پڑھی تھی سوائے پطرس بخاری کے ایک مضمون کے جس کا عنوان مجھے یاد نہیں۔ 2013ء کی بات ہے جب میں مال روڈ مری پہ چہل قدمی کرتے کرتے ایک کتابوں کے ٹھیلے پہ جا پہنچا، وہاں ایولین واح کی مشہور کتاب ‘مزید پرچم نکالو’ (Put Out More Flags) مل گئی اور میں نے سات دنوں میں یہ طنزیہ تجزیہ پڑھ لیا کہ یورپ کی سیاست کیسے چلتی ہے یا چلائی جاتی ہے،میں ایک بار پھر طنز و مزاح کی دنیا کو نکل چکا تھا۔

2011ء میں ‘پردیسی پن’ ترک کرکے اپنے شہر لیہ آ گیا۔ کتب بینی کا شوق پھر سے شروع ہوا۔ طنز و مزاح پہ مبنی ابھی تک جوناتھن سوئفٹ کی کتاب ہی پڑھ رکھی تھی۔ خیر گھر آ کر والد صاحب لائبریری میں ڈاکٹر ظفر عالم ظفری کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ “اردو صحافت میں طنز و مزاح کا کردار” دیکھی تو پڑھ ڈالی۔ جیسے ہی ختم کی تو بازار سے اردو طنزیہ کتب کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا جہاں سے مجھے مشتاق احمد یوسفی مرحوم کی کتاب خاکم بدہن مل گئی۔ وہ بھی پڑھ ڈالی مگر سچ یہ ہے کہ دل کو ذرا بھی پسند نہ آئی۔۔ خیر وقت گزر گیا۔

گزشتہ برس یوسفی صاحب کی دوسری کتاب “شام شعر یاراں” کسی دوست کے کہنے پہ پڑھنا شروع کی مگر درمیان میں ہی چھوڑ دی۔ مجھے یوسفی صاحب کی کسی تحریر نے آج تک متاثر نہیں کیا، اِس کی وجہ مجھے یہ محسوس ہوتی ہے کہ شاید میں   انگریزی کی تین اعلی ترین طنزیہ و مزاحیہ کتب مکمل پڑھ چکا تھا۔

یوسفی صاحب پہ ایک الگ تحریر لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے۔ گزشتہ دنوں جب یوسفی صاحب کی وفات کی افسوسناک خبر سامنے آئی تو مشہور سوشل میڈیا ویب سائٹ انتقال کی خبر سے ‘لرز’ اٹھی. جملہ دوست سب کام کاج چھوڑ کر ‘ہشیار’ ہوئے اور خبر ‘بریک’ کرنے کو ‘ٹوٹ’ پڑے، یہ پہلا دھچکا ہے جو مجھے فیس بک کی طرف سے میسر آیا۔ اگر ایسے دو دھچکے مزید ملے تو الیکٹرک میڈیا کی دھوم دھام کی طرح فیس بک کو بھی ترک کرنا ہو گا۔ میرا ایک چچا زاد جس نے آج تک درسی کتب کے علاوہ کچھ بھی نہیں سوچا، اُس کی یہ پوسٹ دیکھی “افسوس! ہم اب عہدِ یوسفی میں نہیں رہ رہے”۔

یقیناً یہ کاپی شدہ پوسٹ تھی۔۔۔۔

سوال یہ ہے کہ یوسفی صاحب کو اچانک ایسی میڈیائی اوج و بالیدگی کیونکر ‘فراہم’ ہوئی؟ حتی کہ طنز و مزاح اردو ادب کی اصناف میں کمزور ترین ہے یا سوال کو مزید تلخ کرتے ہوئے اور چھوٹا منہ بڑی بات کے مصداق مرحوم مشتاق احمد یوسفی صاحب کا ایسا کون سا کام ہے جو یاد رکھنے کے قابل ہے؟ یا اُنہوں نے اردو ادب کو کیا خاص دیا ہے؟

ادب برائے ادب کی ذیلی بحث طنز و مزاح برائے طنز و مزاح کے تحت بحث کرنی ہے تو مرحوم یوسفی اردو ادب کے درخشاں ستارے ہیں، اور تو اور اُن کو کمالِ فن ایوارڈ، آدم جی ایوارڈ، بابائے اردو مولوی عبدالحق ایوارڈ، ستارہ امتیاز، ہلال امتیاز بھی مِل چکے ہیں، اب تو اُن کو ‘بڑا ادیب’ ماننا ہو گا۔

علاوہ ازیں اُن کی تمام کتب فلاں بڑے ادارے(وں) نے چھاپی ہیں۔ اب تو اُن کو ‘بڑا ادیب’ ماننا ہی پڑے گا، ٹیلی ویژن پر بھی پروگرامات آتے رہے، بس! اب تو وہ بڑے ادیب ہی ہیں۔

میرا سوال وہیں کھڑا ہے کہ مرحوم یوسفی کا کون سا پیراگراف “واہ واہ” کے قابل ہے؟ ایلن ووڈ نے کہیں لکھا تھا کہ سرمایہ داری کی وجہ سے عموماً مگر بحران کے دنوں میں خصوصاً ہر زبان کے ادب کو ناموافق حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یوسفی صاحب چونکہ اچھے خاصے امیر (پیٹی بورژوازی) طبقے سے تھے اس لیے بڑے مزاح نگار بن گئے، ایسے طبقے کے لوگوں کی نفاست اور ادائیگی ویسے ہی ذی شان ہوتی ہے، اِن کی باتوں پہ تو ویسے ہی ہنسنے کو دل کرتا ہے  لیکن یقین جانیے ، اِن کے لطیفے ‘جگت’ کے معیار پر بھی پورا نہیں اترتے۔

معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کرنے والے عظیم شاعر کو کتنے لوگ جانتے ہیں؟ اُن کو کتنے ایوارڈ ملے؟ ان کی یوسفی صاحب کے مقابلے میں کتنے کتنے منٹ کی ویڈیو ریکارڈنگ دستیاب ہیں؟ یہ وہی شاعر ہیں جن کا مشہور شعر تمام مڈل کلاس جانتی ہے، مگر شاعر کا نام نہیں جانتی ہے کہ۔۔۔

یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

میرے موقف کے ناقدین فوراً سے پہلے سوچیں گے گوگل کرکے اِس مشہور شعر کا گمنام شاعر تلاش کر لیتے ہیں، یہاں سے اُن کو حبیب جالب کا نام ملے گا کہ ‘اچھا اچھا حبیب جالب کو ہم جانتے تو ہیں، اور وہ اُن کی وہ والی نظم میں نہیں مانتا والی تو مجھے کافی پسند بھی ہے، کامریڈ فاروق تو ایسے ہی بس چھوڑتا رہتا ہے، کتنے بڑے اداروں نے پہلے پہل حبیب جالب کو چھاپا تھا؟ حبیب جالب کا لباس مرحوم یوسفی کے لباس سے کتنا کمتر ہوتا تھا؟ حبیب جالب کے چہرے کی جھریاں اور مرحوم یوسفی کا چہرہ دمکتا تھا۔ کس نے کتنی عمر پائی اور کس نے کتنی عمر پائی؟ کس کو کار میسر آئی اور کس کو مار میسر آئی؟ اگر حبیب جالب سیاسی نہ ہوتا تو اُس کو کوئی کتنا  جانتا اور اگر مرحوم یوسفی پیٹی بورژوازی (امیر) نہ ہوتے تو شاید اُن کو کوئی نہ جانتا۔

میرا سوال ابھی تک وہیں کھڑا ہے کہ مرحوم یوسفی کی کونسی تحریر کس “وجہ” سے لائق مطالعہ ہے؟ میں نے وجہ یعنی مقصد پہ زیادہ زور دیا ہے، آخر مرحوم یوسفی کی تحریروں کا مقصد کیا تھا؟ ویسے تو اُن کے فقروں کی بناوٹ اور بین السطور تراش خراش بہت خوب تھی  کیوں کہ اعلی ترین لگژری موسم میں ڈوبا ہوا کمرہ، کمرے میں موجود دلربا خوشبو سے معطر مشتاق احمد یوسفی اعلی ترین مشروب سے محظوظ ہو کر فقروں کو جیسے نکھارنے میں مگن ہوتے تو خوبصورت فقروں کی آمد ممکن تھی جبکہ حبیب جالب کی کسی ایک طنزیہ نظم ‘تم کہو’ اور ‘اُس نے کہا’ کے کسی ایک شعر کا موازنہ کرنے کے لیے مرحوم یوسفی کے پاس ایک سطر بھی نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ یوسفی صاحب کی طنز میں کچھ مقصد نہیں ہے، بلامقصد کا ادب برائے ادب ہوتا ہے جو کچھ بھی نہیں ہوتا ۔

ٹی وی پہ آنا، ایوارڈ اور ستارے اگر بڑا ادیب ہونے کا معیار ہیں تو وجاہت مسعود صاحب کے پاس بھی ایوارڈ ہیں کیا اُن کو بھی بڑا لکھاری مان لیا جائے؟ لبرل طبقہ کے پاس کسی بات کا کوئی مقصد نہیں، بس عجیب یوٹوپیائی آزادی کا نعرہ ہے۔ نہ اِن کے پاس کسی مقصد کے لیے وقت  ہے۔ یہ لوگ ہر مسئلے کا موجد صرف اور صرف مذہب و مذہبی بورژوازی کو سمجھتے ہیں۔ اصل مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ لبرل ازم کی بنیاد ہے، یعنی آزاد منڈی کی معیشت! دو وقت کی روٹی کے چکر میں الجھے بڑے بڑے طنز کہنے والے غیرمعروف پھر رہے ہیں۔ جناب یوسفی والی آسائشیں سب کو میسر آ جائیں تو اِن سے بڑے بڑے طنز نگار پیدا ہوں کہ یوسفی صاحب کو آخری لائن میں جگہ ملے گی، یہ یوسفی کے عہد کا خاتمہ نہیں ہے، بلکہ امیر یوسفی کے عہد کا خاتمہ ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: بحیثیت مدیر اس تحریر کے مندرجات سے اختلاف ہے۔فاضل مصنف چونکہ ایک مخصوص نقطہ نظر کےحامی ہیں اور ادب کو بھی اسی تناضر میں دیکھنے کی کوشش میں  نظر آتے ہیں اس لئے اگر کوئی ان کو جواب دینا چاہتا ہے تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مرحوم یوسفی بڑے ادیب نہیں تھے۔۔۔۔ کامریڈ فاروق بلوچ

  1. ہٹ کر دیکھنا یا ہجوم سے ہٹ کر چلنا جہاں قافلے سے پیچھے رہ جانے ، نظر انداز یا تنقید کئے جانے کے ڈر کا حامل ہوتا وہیں ۔۔۔۔ ایک attention gaining حکمت عملی بھی ہے ۔ ۔
    آپ نے یہ کالم 3، 4 پہلو ایک ساتھ مکس کر کے اور انکا تقابلی جائزہ کے طور پر پیش کیا ۔ ۔ ویسے بھی ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی دو جدا گانہ نظریات ہیں اور موخرذکر کے مطابق یوسفی صاحب نے کسی کے لئے کیا کیا ۔۔یقینن کسی انقلاب کی راہ نہیں نکلتی نہ وہ دعوی کرتے ۔۔۔۔۔۔
    اردو میں مزاح کو ایک سبجیکٹ دیکھ کے پڑھیں آپ وھان یوسفی صاحب کا مقام کیا بنتا ۔۔۔ اپ اسکا تقابلہ مقصدیت سے لکھے گئے gulliver travels ya animal farmسے نہیں کر سکتے ۔۔۔۔۔۔یہاں اس مقصدیت سے بہت سے افسانے ناول لکھے جا چکےآپ ان سے جوڑ سکتے انہیں ۔اس دور میں انکے حالات اور اس دور کے حالات یا آزادی اظہار کےقوانین میں بھی فرق۔۔۔۔۔۔
    آپ کو یوسفی صاحب کی آب گم پڑھن چاھئے ۔۔۔ اگر پبلشر کسی غریب شاعر کی کتاب نہیں چھاپتا اس میں قصور وار پڑھنے والے ریٹنگ والے چینلز والے ان پہ اندھا اعتماد کرنے والے کاپی پیسٹ کرنے والے یوسفی صاحب کم اور ہم سبب اسی سوسائیٹی کا حصہ ہوتے ہوئے زیادہ ہیں ۔۔۔
    ایک مزاح نگار کے مقابلیے دو مزاحمتی شعرا کا ذکر دلیل کو کمزور کرتا۔۔ ھاں اگر سوال یہ ہے کہ وہ بھی اپنے کام چھوڑ کے غریب یا اینٹی سٹیٹ ایجنٹ ہوتا تو کیا اتنی پزیرء ملتی ۔جواب تب بھی ھاں ہو سکتا اگر فیض صاحب کو دیکھا جائے ۔اور اگر ہندو تو اسکا بھی یوسفی صاحب نے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی ہونی
    اگر چی گویرا ۔لینن یا ٹراٹسکی کی سٹرگل دیکھ کے تقابلی طور پہ کہا جائے پاکستانی لیفٹ نرگسیت ڈرامہ بازی اور حرام خوری کے سوا کچھ نہ کر سکی تو بہت سوں کے لئے یہ ہتک عزت اور ہرجانے کا نوٹس بھجوانے کا بہانہ بنے ۔۔۔۔
    اپ انگلش کے کسی ادب برائے ادب والی سوچ کے مزارح نگار سے ۔۔۔دیکھتے
    ۔۔۔۔۔ باقی جاتے ہوئے کو سونے کے تابوت میں دفن انا اس قوم کا چلن ۔۔ یہ ایک رات میں 12 لاکھ تنخواہ کا نوٹس لئے جانے پہ گردے فیل کرا بیٹھتی ہے ۔۔جھنڈیوں کے بجائے درخت لگاتی ۔کالا ڈیم بناتے ووٹ کے بدلے جنت کی ٹکٹ دے کے نان سے اگلی صبح ناشتے کرتے وہ بھی ۔۔۔۔والے نان۔۔۔۔
    یہ زیادتی عالمی ادب میں بھی دکھائی دیتی ۔۔ساراماگو کی پہلی کتاب 25۔30 سال تک یا شاید 40 تک پبلشر اسلئے نہیں چھاپی کہ وہ مشہور نہیں ۔نوبل انعام ملا تب چھاپی۔۔۔
    ہم خود کیا کرتے جب تک کوئی نقاد نہ کہے کتاب نہیں پڑھتے مرے نہ پھول نہیں بھیجتے آسکر نہ ملے مووی نہیں دیکھتے تو گلہ یوسفی صاحب سے کیوں ۔۔۔
    اگر اسکی کسی کتاب میں کوئ پڑھنا چاہتا ۔۔۔بغیر کسی عینک کے تو آب گم مین مل جاتا بہت کچھ ۔۔۔ ھاں وہ بڑے شہر مہین رھتے بینکار ہر طرح کی آسائش اور علی گڑھ سے رشتہ اسکی خامی خوبی تھی اسکا انکار بھی نہیں کیا ہوگا انہوں نے ۔۔۔
    اور آپکے سوال کا جواب ہی اسی میں ہے کہ جہاں ایسے ایسوں کو ایواڈ دئے ۔۔ جہاں کیمرہ قلم قول سیاست سب مغرب سے کاپی کی جاتی وہ کچھ اپنا لکھ جاتے یہ ایج انہیں دیا جانا چاہئے

Leave a Reply