قصور کس کا ؟/محمد جنید اسماعیل

مورخہ 21اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن کا ایک بڑا فیصلہ آیا ہے جس میں پاکستان تحریکِ انصاف کے موجودہ چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان صاحب کو پانچ سال کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے ۔بلاشبہ یہ فیصلہ قابلِ مذمت ہے اور یہ واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ سیاسی مفادات کے لیے یہ فیصلہ جاری کروایا گیا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے پاس ابھی اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا حق موجود ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ سپریم کورٹ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے گی ۔

اس بڑے فیصلے کے علاوہ بھی ایک بڑا بیان سامنے آیا ہے۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے کہا ہے کہ وہ اگلے پانچ ہفتوں میں ریٹائرڈ ہوجائیں گے اور پاک فوج کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں کرے گی ۔ان دونوں بیانات کو اگر ہم ملا کر دیکھیں تو بہت سی الجھنیں حل ہوسکتی ہیں ۔ یہ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں پاکستان میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوسکتی ہیں ۔جیسا کہ ہمارے علم میں ہے کہ عمران خان صاحب ویسے تو کئی  ماہ سے آرمی چیف کی تعیناتی پر واویلا کر رہے تھے لیکن پچھلے چند ہفتوں سے اُن کے اس مطالبے میں کافی شدت محسوس کی جاسکتی تھی ۔اپنے حالیہ بیانات میں اُن کا جلد الیکشن کا مطالبہ ماند پڑتا دکھائی  دیتا تھا اور آرمی چیف کی تعیناتی پر اُن کے اثر ڈالنے کا مطالبہ زیادہ موثر ہوتا جارہا تھا۔اپنے کل کے سرگودھا یونی ورسٹی کے بیان میں انہوں نے آرمی چیف کی تعیناتی اور جلد الیکشن کے لیے ایک لانگ مارچ کے بہت جلد اعلان کا ذکر کیا تھا ،یہ اندازہ لگانا بالکل مُشکل نہیں کہ وہ بہت جلد لانگ مارچ کا اعلان کرنے بھی والے تھے ۔ایسے میں اُن کی آواز کو دبانے کے لیے اس سے زیادہ کارگر ہتھیار حکومت کے پاس موجود نہیں تھا ماسوائے اُنہیں نااہل کرانے کے ۔ایسے میں لانگ مارچ کو روکنے کے لیے حکومت نے اُنہیں ایک نئے   جھنجھٹ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا لیکن اُنہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ عمران خان نااہلی کا سُنتے ہی لانگ مارچ کا اعلان کردیں گے ۔عمران خان صاحب کی طرف سے لانگ مارچ کا اعلان حکومت کی توقع کے برعکس تھا لیکن یہ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت اس بات سے پہلے آگاہ تھی ،اس وجہ سے سکیورٹی کے سخت انتظامات تھے اور پورے مُلک میں سکیورٹی ہائی  الرٹ تھی ۔یہاں پر فقط یہ فائدہ حکومت کو ملے گا کہ اب عمران خان صاحب کا زور آرمی چیف کی تعیناتی اور جلد الیکشن کے مُطالبے سے ہٹ کر فقط اپنی نااہلی کو کالعدم قرار دیئے جانے پر ہوگا ۔

یہاں پر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ عمران خان سیاسی شہید بننے کی کوشش کریں یا ہیرو بننے کی کوشش کریں لیکن وہ تاریخ کی اُن تاریک اور فاش غلطیوں کو کو فراموش نہیں کرسکتے جو اُنہی سے سرزد ہوئی  ہیں یعنی جب 28 جولائی  2017 کو میاں نواز شریف کو فقط بیٹے کی اُس تنخواہ چھپانے پر تاحیات نااہل کیا گیا جو تنخواہ ادا بھی نہیں کی جارہی تھی، تو یہی عمران خان اُسے احتساب کی جیت قرار دے رہے تھے ۔میاں نواز شریف کے پاس تو اُس فیصلے کو چیلنج کرنے کا بھی کوئی  اختیار نہیں تھا کیوں کہ عدالتِ عُظمی کی طرف سے وہ فیصلہ دیا گیا تھا ۔عمران خان صاحب نے تب سیاست دانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے اِس سلوک کی نہ تو مزمت کی اور نہ جب وہ برسرِ اقتدار آئے تو ایسے فیصلوں کی آئندہ روک تھام کے لیے کوئی  اقدامات اُٹھانے کی زحمت کی، بلکہ اُنہوں نے اسی فیصلہ کی بنیاد پر ایک سیاسی نعرہ گھڑ لیا کہ چوروں کو ووٹ نہیں دینا ،حالانکہ نواز شریف پر کرپشن کے شواہد نہیں ملے بلکہ اُنہیں صرف تنخواہ چھپانے کی سزا ملی، جبکہ عمران خان صاحب پر تو الیکشن کمیشن کی جانب سے باقاعدہ کرپشن کے شواہد ملنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے ۔

اس حقیقت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہ ہر سیاسی  جماعت اپنی مخالف سیاسی جماعت کی تذلیل کرنے کا کوئی  موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ،یہ امکان موجود ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بھی عمران خان کے خلاف “چور اور فراڈیا “کا بیانیہ بنائے گی لیکن غالباً یہ بیانیہ عمران خان کی شہرت اور مقبولیت کے پیچھے دفن ہوجائے گا ۔نواز شریف سے پہلے پاکستان کے اُس وقت کے موجودہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی صاحب کو بھی فقط اس وجہ سے نا اہل کردیا گیا کہ اُن پر توہینِ عدالت کا ایک معمولی سا کیس تھا۔ہم دیکھ چُکے ہیں کہ ابھی حال ہی میں اُسی طرز کے توہینِ عدالت کیس میں عمران خان کو اتنی واضح چھُوٹ مل چُکی ہے ۔ جب سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو نا اہل کیا گیا تو اُس وقت اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتوں بشمول عمران خان سب نے اِس فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ۔

ان سب حقائق کو مدِ نظر رکھ کر اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ تمام سیاست دان بس اپنی باری پرجمہوریت پسند بنتے ہیں، ورنہ عام حالات میں اُنہیں  مخالفین کو دی جانے والی تمام سزائیں بھی جمہوری اور قانون کی پاسداری لگتی ہیں ۔نواز شریف کے بعد عمران خان صاحب کی باری کا آنا اور شاید اگلی باری آصف علی زرداری کی ہو ،یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ سیاست دان ہی قصور وار ہیں کیوں کہ وہ ہرن ہوتے ہوئے بھی تب شیر کی حمایت کرتے رہے جب شیر کسی دوسرے ہرن کو اُٹھا کر بھاگ رہا تھا لیکن بات وہی ک   ایک شعر معمولی ردوبدل کے ساتھ لکھنے کی گُستاخی کروں گا

نااہلی سے کِس کو رستگاری ہے

آج عمران تو کل زرداری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

ایک اہم نقطہ جسے تمام تجزیہ کار اور مبصرین اُٹھانے سے قاصر ہیں کہ پاکستانی عوام نے عمران خان کے بیانیے سے متاثر ہوکر نیوٹرل کے خلاف مُہم تو شروع کردی لیکن وہ تو ہمیشہ اپنے سیاسی کردار کی تردید کرتے آئے ہیں اور کُچھ حد تک انہوں نے یہ ثابت بھی کیا ہے ،لیکن یہاں پر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ” بد اچھا بدنام بپرا” کے مصداق نیوٹرل کے بدنام کردار کو استعمال کرتے ہوئے دوسرے ادارے اپنا غیر آئینی اور سیاسی کردار تو ادا نہیں کررہے جیسے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان وغیرہ ۔ان دونوں اداروں کے گُذشتہ چند فیصلے بڑے ہی متنازع  اور جانبدارانہ معلوم ہوتے ہیں ۔میرے خیال میں اس سوال کی کھوج لگانا بہت ضروری ہے ،شاید ہم کسی نتیجے پر پہنچ سکیں ۔۔

Facebook Comments

محمد جنید اسماعیل
میں محمد جنید اسماعیل یونی ورسٹی میں انگلش لٹریچر میں ماسٹر کر رہا ہوں اور مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں کالم اور آرٹیکل لکھ رہا ہوں۔اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے ٹیلنٹ مقابلہ جات میں افسانہ نویسی میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کرچکا ہوں،یونیورسٹی کی سطح تک مضمون نویسی کے مقابلہ جات میں تین بار پہلی پوزیشن حاصل کرچکا ہوں۔مستقبل میں سی ایس ایس کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ۔میرے دلچسپی کے موضوعات میں کرنٹ افیئرز ،سیاسی اور فلاسفی سے متعلق مباحث ہیں۔اس کے علاوہ سماجی معاملات پر چند افسانچے بھی لکھ چکا ہوں اور لکھنے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply