• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان کے سلگتے مسائل ،پاکستانی اور بھارتی میڈیا /شیر علی انجم

گلگت بلتستان کے سلگتے مسائل ،پاکستانی اور بھارتی میڈیا /شیر علی انجم

کہتے ہیں میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہوتاہے، خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کا کردار معاشرے کو سنوارنےاور معاشرتی مسائل ارباب اختیار تک پہنچانے میں نہائیت اہم ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں میڈیا معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہا ہے۔ صحافتی اصول کو چھوڑ کر ریٹنگ اس وقت میڈیا کاٹارگٹ  نظر آتا ہے ۔صورتحال اس قدر سنگین ہوچکی ہے کہ وہی میڈیا جس کا کام ہماری تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرنا تھا ، فی زمانہ ڈراموں ، سنسنی خیز خبروں اور اشتہارات کے ذریعے اس قدر فحاشی اور بے حیائی کے ساتھ اخلاقی اقدار کی پامالی پیدا کر رہا  ہے کہ   اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا محال ہوگیا ہے۔

طبقاتی فرق نےجہاں  زندگی کے دیگر معاملات کو شدید متاثر کیا ہے وہیں میڈیا کے اندر پائے جانے والا طبقاتی اور سیاسی فرق  معاشرے میں مایوسی مزید بڑھا رہاہے۔ سوشل میڈیا کے آنے سے الیکٹرانک میڈیا کی ضرورت کم ہوئی،لیکن الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت سے بھی انکار کرنا مناسب نہیں۔بدقسمتی سے  معیشت کو درپیش مسائل،اقتصادی چیلنجز ، محکوم قوموں کے مسائل کی نشاندہی اور ان مسائل پر ڈیبیٹ، ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کاکام ہی نہیں۔ خاص طور پر گلگت بلتستان ، بلوچستان کے مسائل پر ایسی چُب لگی ہوئی ہے کہ  جیسے ان علاقوں کا کوئی وجود ہے نہ مسائل۔

گلگت بلتستان آئین پاکستان اور سلامتی کونسل کی  قراردادوں کی روشنی میں پاکستان کا قانونی حصہ نہیں بلکہ ریاست جموں کشمیر کی اکائی ہے  اور شمولیت کیلئے اقوام متحدہ کی موجودگی میں رائے شماری ہونا باقی ہے۔ قدرتی وسائل، آبی ذخائر سے مالا مال یہ خطہ  جو چار ایٹمی ممالک کے سنگم پر واقع        ہونے کے ساتھ سی پیک کی مرکزی گزرگاہ اور مسئلہ کشمیر کی اصل کنجی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی گریٹ گیم کے تحت یہ خطہ نیوورلڈ آرڈ ر کا مرکز نگاہ ہے ۔ لیکن اس خطے کی بین الاقوامی قانونی حیثیت کے باجود بیوروکریسی وہی کام کر رہی  ہے جو 5 اگست 2019 کو نریندر مودی نے  جموں کشمیر لداخ کے حوالے سے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کو ختم کرکے، جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے ،جموں کشمیر کو تقسیم کرکے، خطہ لداخ کو یونین ٹیریٹری کا درجہ دیکر براہ راست دہلی سرکار کے ماتحت کی تھی۔

اس مسئلے پرپاکستان نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر شدید احتجاج کیا اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سلامتی کونسل کی  قراردادوں کی پاسداری کا مطالبہ کیا ۔ اُس وقت کے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی سے خطاب میں واضح طور پر کہا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ رائے شماری کے ذریعے ہی حل ہوگا اور استصواب رائے ریاست جموں کشمیر(یعنی گلگت بلتستان،لداخ،جموں،وادی کشمیر،اور آزاد کشمیر) کے عوام کا بنیادی حق ہے۔ لیکن دوسری طرف گلگت بلتستان میں گزشتہ کئی  دہائیوں سے خالصہ سرکار نامی اصطلاح جو سکھوں کے زمانے کی ہے کے نام پر عوامی زمینوں کو سرکاری زمین قرار دیکر قبضہ کرنے اور عوام کو بیدخل کرکے احتجاج کرنے پر دہشت گردی کے قوانین کے تحت زد وکوب کرنا معمول بن چکا  ہے۔ خطے کے عوام گزشتہ کئی سالوں سے  سراپا احتجاج ہے۔

اب بھی   کئی دنوں سے پورے خطے میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری ہے۔ لیکن میڈیا یہ دیکھنے سے قاصر ہے۔ جبکہ ہندوستانی میڈیا سوشل میڈیا سے ویڈیو اُٹھا کر اپنی مرضی کا بیانیہ بناکر پرائم ٹائم میں خبریں دے رہا ہے ۔ ملکی  میڈیا نے آج تک یہ جاننے کی کوشش کی اور نہ ہی خطے کے کسی اہم اسٹیک ہولڈر کو مدعو کرکے پوچھا کہ حساس ترین خطے میں ایسا کیوں ہوتا ہے کون کرتا ہے وجہ کیا ہے؟۔

بدقسمتی  سے خطے میں جو بھی پارٹی برسر اقتدار آتی ہے،وہ  خالصہ سرکار کے نام پر سرکاری قبضوں کا دفاع کرتی رہی ہے،لیکن جب اقتدار سے باہر ہوجاتی ہے تو یہی لوگ عوام کے ساتھ سڑکوں پر ہوے ہیں۔۔یہ بات بھی انتہائی غور طلب ہے کہ جس طرح 5 اگست 2019 تک ہندوستان کے زیر انتظام جموں وکشمیر لداخ میں بھی سٹیٹ سبجیکٹ رول بحال تھا جس کے تحت ہندوستان نے سٹیٹ سبجیکٹ رول کو اپنے آئین میں آرٹیکل 35 اے کے تحت تحفظ دیا ہوا تھا۔ بالکل اسی طرح  آزاد کشمیر میں پہلے معاہدہ کراچی پھر 1974 کے ایکٹ میں اسے تحفظ دیا گیا اور آج بھی آزاد کشمیر سٹیٹ سبجیکٹ رول نافذ العمل ہے جس کے تحت کوئی غیر ریاستی باشندہ وہاں کا ڈومیسائل لے سکتا ہے نہ زمین خرید سکتا ہے ۔ گلگت بلتستان بھی آئین کے آرٹیکل 257 اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے متعدد فیصلوں اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں متنازع  ریاست کی اکائی اور دونوں ریجن کی قانونی حیثیت یکساں ہے مگر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے ساتھ مختلف سلوک روا رکھا گیا ہے۔ گلگت بلتستان میں قانون باشندہ ریاست 1928 سٹیٹ سبجیکٹ رول  کی خلاف ورزی دہائیوں سے جاری ہے جس میں اچانک تیزی آئی ہے اور باقاعدہ طور پر نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز نے گلگت بلتستان میں گھروں کی تعمیر کیلئے اخبارات میں اشتہارات تک دینا شروع کردیے ہیں۔ جو مسئلہ کشمیر پر ریاست پاکستان کے اصولی موقف کی سنگین خلاف ورزی اور ہندوستان کے عزائم کی تائید ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لہذا ریاست کو اس حوالے سے تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں گلگت بلتستان میں کام کرنے والی بیوروکریسی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو کمزور کرنے کیلئے  مودی کے عزائم کی تکمیل  اور عالمی گریٹ گیم کے کرداروں کی سہولت کاری تو نہیں کر رہی؟۔کیونکہ اس وقت عام طور پر  عوام میں تاثر کچھ اس طرح ہی نظر آتا ہے اور عوام کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ سٹیٹ سبجیکٹ رول بحال کرو خالصہ سرکار نامنظور۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply