پیشاب کی بدبو کا جھونکا اتنا زور آور تھا کہ مجھے لگا نتھنوں کے بال جل جائیں گے یا سانس بند ہوجاۓ گی۔ اپنے کمرے میں فائل پر لکھتے ہوۓ لگا میں سالوں پہلے کے بوہری بازار میں کسی عوامی پیشاب خانے کے باہر سے گزر رہی ہوں یا پھر کسی ایسی دیوار کے قرب میں ہوں جس پر موٹے موٹے حروف میں کندہ ہوتا ہے” یہاں پیشاب کرنا منع ہےیا یہاں پیشاب کرنے والا کتے کا بچہ ہے” ہر دو صورتوں میں دیوار کے ساتھ درجنوں پیشاب کی دھاروں کے نشاں مالکوں کی اصلیت کی کہانی سنا رہے ہوتے ہیں۔
بدبو برداشت کی تمام حدوں کو پار کر گئی، تو مجھے اُٹھ کر دروازے تک آنا پڑا۔ دروازے کے باہر کامنظر انتہائی دل خراش تھا۔ میرے کمرے کے باہرایک بیس بائیس سال کی لڑکی آدھا چہرہ دوپٹہ میں چھپاۓ دروازے سےچپکی کھڑی تھی۔ حلیے سے اپنے صوبے کے کسی چھوٹے شہر یا گاؤں سے لگتی تھی۔
اوپر سے نیچے تک اس کا جائزہ لیتے ہوئے دل میں سوچا بدبو اس میں سے آرہی ہے۔ تب ہی میری نظر اس کے قدموں تک گئی تو آتی ہوئی ابکائی کا گلا بہت مشکل سے دبایا۔ اس کے کپڑوں سے پیشاب بارش کے دھیمے پڑ جانے والے قطروں کی طرح ٹپک رہاتھا۔ جن جوتوں میں اس کے پاؤں تھے وہ پیشاب سے لبریز تھےاور دروازے سے چپکی جس جگہ وہ ایستادہ تھی وہاں پیشاب کاایک جزیرہ سا بنا ہوا تھا۔
انتظار گاہ پر ایک نظر ڈالتے ہوۓ میں نے پاس کھڑے وارڈ بواۓ سے پوچھا” صفائی والا کدھر ہے،”فورا ًجواب ملا وہ mob دھونے گیا ہے۔ آدھے گھنٹے سے یہ ہی ہورہا ہے یہ جدھر کھڑا ہوتا ہے پیشاب کر دیتا ہے،پتہ نہیں کیسا عورت ہے،اس کو بتایا بھی کہ باتھ روم سامنے ہے پھر بھی کھڑا ، کھڑا پیشاب کررہاہے۔ “
کھڑی اردو اور کھڑے تیور ومزاج کے ساتھ اس نے جواب دیا اور ناک دباتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
بی بی !تمہارے ساتھ کون ہے؟میرے پوچھنے پر اس نے باہر لان میں کھڑے ایک آدمی اور عورت کی طرف اشارہ کیا۔
سچ بات یہ ہے کہ میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھاکہ اسے کھڑا رہنے دوں، بیٹھنے کا کہوں یا باہر نکل جانے کا اشارہ کروں۔
ایمر جنسی کے ڈاکٹر اور لڑکی کے ساتھ آۓ مردوزن کو بلانے کا اشارہ کرتے ہوۓکمرے میں آئی تو پھر سے لگا میں ایمپریس مارکیٹ کی پچھلی گلی کے برابر سے گزر رہی ہوں۔
لڑکی کے ساتھ آنے والی عورت نے کمرے میں داخل ہوتے ہی میرے پیروں کو چھونے کی کوشش کرتے ہوئے ،اپنی مادری زبان میں بولنا شروع کردیا۔ آنسوؤں میں بھیگی اس کی گفتگو سے میں اتنا سمجھ گئی کہ چھ ماہ قبل اس کے مری ہوئی بچی پیدا ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے اس کاپیشاب نہیں رکتا۔
گو کہ میں ڈاکٹر نہیں لیکن عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ ڈاکٹروں کے سنگ اٹھتے بیٹھتے بہت کچھ جان اور سیکھ گئی لیکن یہ ایک بات سمجھ سے بالاتر تھی۔ ایمر جنسی کا ڈاکٹر آچکا تھا اور مریضہ کی زبان میں بات کر رہا تھا۔ گفتگو کا اختتام کرتے ہوۓ اس نے صرف اتنا کہا” میری سمجھ میں نہیں آتا اگر بچی مری ہوئی پیدا ہوئی یا پیدا ہوتے ہوتے مرگئی اس سے پیشاب کے نہ رکنے کا کیا تعلق ہے۔ پھر کہنے لگا آپ سرجن سے بات کرئیے۔
میرے کمرے کے باہر سے بہتا ہوا پیشاب صاف نظر آرہا تھا بدبو کی طاقت میں پہلے سے کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا۔ کچھ سوچتے ہوۓ میں نے “ باباۓ نیفرولوجی کو فون کیا اور مختصر ترین الفاظ میں صورت حال بتاتے ہوۓ پوچھا کیا اسے سرجن کے پاس بھیجوں یا آپ ملنا چاہئیں گے”۔ میں آتا ہوں،مریضہ کو ادھر اُدھر مت بھیجو ،خواہ مخواہ اس کا تماشا بنے گا۔
ڈاکٹر صاحب نیچے آۓ ایمر جنسی کے ڈاکٹر کے توسط سے مزید سوال جواب کئے ،پھر میری طرف مڑتے ہوۓ کہا “ وہ اپنےڈاکٹر ٹیپو کا بھیا عورتوں کے فسٹیولاکی مرمت اور پیوند کاری میں مہارت کی ڈگری لے کے آیا ہے۔ اس کو ہسپتال بھیج دو، وہ کچھ کر سکا تو ضرور کردے گا،آج کل اس کے کام کی بڑی شہرت ہے، باقی کسی کے بس کی بات نہیں، ڈاکٹر مسعود بھی کر سکتے تھے لیکن یہ خالص بگڑا ہوا گائینی کا کیس ہے۔ یورولوجسٹ کے بس کی بات نہیں”۔
میرے چہرے پر لکھی حیرت کو دیکھتے ہوۓ ڈاکٹر نقوی بولتے رہے۔
پیشاب میں بھیگی لڑکی اور اس کے ساتھ آۓ مردوزن کو ایک اور ہسپتال کا پتہ بتاتے ہوۓمیں نے آدھی درجن مرتبہ سمجھایا کہ وہ عورتوں کا ہسپتال ہے اُدھرایک نیا ڈاکٹر باہر سے پڑھ کے آیا ہےوہ ہی ٹھیک کر سکتا ہے۔
جاتے جاتے میں نے اس سے پوچھا کیسے جاؤگی، میرے سوال کے جواب میں اس نے ہاتھ میں پکڑے تھیلے سے پلاسٹک کا ایک ٹکڑا نکالتے ہوۓ بتایا کہ اس پر بِٹھا کے ،پھر کہنے لگی آتے ہوۓ رکشہ والے نے بہت دور یہ کہہ کے اُتار دیا کہ اس کا رکشہ ناپاک کر دیا۔
لڑکی کی آنکھوں سے آنسو اور شلوار کے پائینچوں سے پیشاب ٹپک رہا تھا۔ وہ آگے کی طرف بڑھ رہی تھی اور پیچھے پیچھے پیشاب چل رہا تھا۔ میں ناک پر دوپٹہ رکھے سوچ رہی تھی یہ کیسی تکلیف ہے جس کا مداوا اتنے بڑے ہسپتال میں نہیں۔
اگلی صبح ڈاکٹرز کے راؤنڈ کے درمیان میں نے گزرے دن کا واقعہ ڈاکٹر نقوی کی موجودگی میں دہراتےہوۓ پوچھا” زچگی سے مثانے کی خرابی کا کیا تعلق ہے”۔
خرابی کے تعلق کو بیان کرتے ہوۓانھوں نے دائیوں کے ہاتھوں عورتوں کی تا عمر تباہی کے جو واقعات بیان کئے وہ رونگٹے کھڑے کرنے کے ساتھ ساتھ خون کے آنسو بھی رُلا گیا۔
میں اکثر سوچتی پتہ نہیں پیشاب میں ڈوبی اس لڑکی کو کوئی رکشہ والا منزل مقصود تک لے گیا ہوگا کہ نہیں؟یا وہ ایسے ہی پیشاب بہاتی پھر رہی ہوگی۔
وقت کا کام آگے ہی آگے چلتے رہنا ہے سو وہ چلتا رہا۔ اس چلتے وقت کے دوران ایک اچھی بات یہ ہونے لگی کہ اخبارات ،ٹی وی پروگرامز اورعورتوں کی مختلف انجمنوں میں دوران زچگی بننے والے اس فسٹیولا کی باتیں ہونے لگیں۔ اس کے سدباب کا تذکرہ ہونے لگا، خواتین ڈاکٹروں نے بھی تربیت حاصل کرنی شروع کردی۔
دوران زچگی ایک عورت زندگی اور موت کی جن سرحدوں کو چھو چھو کر واپس آتی ہےاس کا اندازہ ایک مرد تو کیاکچھ حالات میں عورتیں بھی نہیں کر سکتیں۔
شہروں میں رہنے والی،ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے ہاتھوں بچے جنم دینے والی ایک عورت بھلا کیسے جان سکتی ہے اس عورت کے درد کو جو چھوٹے شہروں، دیہاتوں اور گاؤں میں دائیوں اور مڈ وائفوں کے ہاتھوں میں پھنسی ہوتی ہے۔
آج بھی کراچی سمیت مختلف شہروں کے پس ماندہ علاقوں کی عورتیں زچگی کے درد کو دو،دو دن گزر جانے کے بعد انتہائی کسمپرسی کے عالم میں ہسپتالوں میں لائی جاتی ہیں۔ یہ عورتیں مردہ بچوں کو جنم دیتی ہیں اور زچگی کے بعد ان کا پیشاب( بعض عورتوں کا پاخانہ) وجائنہ کے راستے مسلسل نکلتا رہتا ہے۔ یہ نا صرف متعلقہ عورت کے لئےایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے سماج کا رویہ بھی بہت بُرا ہوتا ہے۔ اکثر شوہر اپنی بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں جب کہ خاندان کے دیگر افراد اس کو اُچھوت بنا کے مرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔
آج بھی اکثر لوگ پو چھتے ہیں کہ فسٹیولا بنتا کیوں ہے؟
پاکستان میں اس تکلیف کے پہلے ماہر ڈاکٹر شیر شاہ کا کہنا ہے”بچہ باہر آنے کے لئے جو جدوجہد کر رہا ہوتا ہےاس کا تمام دباؤ ایک عورت یا ماں کے اندرونی اعضاء پر ہوتا ہے۔ زچگی کا عمل جتنا طول پکڑتا ہے، مسائل اتنے ہی گھمبیر ہوجاتے ہیں کہ انسانی جسم کے اندر پیشاب کا مثانہ ، پاخانے کی جگہ اور وجائنہ قریب قریب ہونے کے ساتھ سب ہی اعضاء بہت نازک بھی ہوتے ہیں اور بچے کے باہر آنے کی جدوجہد کے نتیجے میں چھوٹے علاقوں میں ناکافی سہولیات کے سبب ماؤں کے بڑے نقصانات ہو جاتے ہیں۔
اس سب میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایک بچے کی پیدائش کاعمل محفوظ ہاتھوں میں محفوظ جگہ پر ہونا بہت ضروری ہے۔
پاکستان میں اب تک چالیس کے قریب گائنا کولو جسٹ کو ڈاکٹر شیر شاہ فسٹیولا کا ماہر بنا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ ڈھائی ہزار سے زائد مڈوائفوں کو فسٹیولا کے مریضوں کی نگہداشت کی تر بیت بھی دے چکے ہیں۔
آج ڈاکٹروں کو پتہ ہے کہ عورتوں کو فسٹیولا ہونے کی صورت میں کیا کرنا ہے اور کہاں بھیجنا ہے۔ کوہی گوٹھ ہسپتال اس تکلیف کے علاج کی سب سے بہتر جگہ ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں