• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گل نوخیز اختر سے ایک تفصیلی ملاقات۔۔۔۔عبدالحنان ارشد/انٹر ویو

گل نوخیز اختر سے ایک تفصیلی ملاقات۔۔۔۔عبدالحنان ارشد/انٹر ویو

یہ تحریر پڑھنے سے پہلے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے کبھی ایک مہینہ میں اتنے ٹیلی فون نہیں آتے، جتنے اس ملاقات کے دوران آئے، مجھے تو ایسا محسوس ہونا شروع ہو گیا تھا کہ اس دفتر سے باہر دنیا تباہ ہو رہی ہے اور میں اکیلا اس کو  بچانے والا ہوں( ڈھائی گھنٹہ کی ملاقات میں کوئی تیس سے زیادہ  بار فون بجا)

لمبے عرصہ سے جناب گل نوخیز اختر کو پڑھ رہا ہوں۔ جو لوگ گل نوخیز اختر کو نہیں جانتے انہیں اتنا ہی کہوں گا، گل نو خیز ہمارے زمانے کا مشتاق احمد یوسفی ہے۔
وہ طنزومزاح میں ایسی ایسی بات کہہ جاتے ہیں جس کو پڑھ کر بندہ مزا بھی لیتا ہے، اثر بھی لیتا ہے اور بعض اوقات آنسو بہائے بغیر نہیں رہ پاتا۔

میں ان سے ملنا چاہتا تھا، ان سے بیٹھ کر باتیں کرنا چاہتا تھا پوچھنا چاہتا تھا وہ   کیسے اتنا عمدہ مزاح لکھ لیتے ہیں۔

لاہور گیا تو گل نوخیز اختر صاحب سے ملاقات کے معاملات طے پا گئے۔اُن سے ملاقات کے لیے ازراہِ عقیدت ہم ان کے دفتر اُس وقت پہنچ گئے جب دفتر پر ایک بڑا سا قفل ہمارامنہ چڑا رہا تھا۔

پھر جب وہ تشریف لائے تو گلے لگا کر ہمیں ملے اور اپنے خادم کو چائے لانے کا کہا۔ ویسے تو میں چائے نہیں پیتا لیکن ازراہِ تبرک چائے کو انکار کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

تعارف کے بعد گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھا۔ میں نے بتایا مکالمہ پر لکھتا ہوں تو فوراً سے پہلے کہا انعام رانا ہمارا ایک بہت اچھا دوست ہے جو کہ لوگوں کو سیدھی راہ دکھلا کر گمراہ کررہا ہے وہ لوگوں کو سوچنا سکھاتا ہے۔ اُس کے بعد قمر نقیب والے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے اُس شخص نے اتنے شفیق انسان کے ساتھ ایسا کرکے اسے مشکلات سے دوچار کرنے کی کوشش کی سوچو اگر وہ پاکستان میں موجود ہوتا تو اس کے مشال خان کی طرح کتنے خطرناک نتائج نکل سکتے تھے، انعام رانا کو مشورہ ہے وہ دوست دیکھ کر بنائے، لیکن یقین ہے وہ ایسا نہیں کرے گا، کیونکہ وہ کسی سے نفرت نہیں کر سکتا۔ قمر نقیب کے بارے میں کہا اُسے سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔

نئے لکھنے والوں کو مشورہ دیا کہ انہیں لکھنے کی بجائے پڑھنے کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے، اردو ادب کے اکابر ابنِ انشاء، راجیندر سنگھ بیدی، منشی پریم چند، عصمت چغتائی،پطرس بخاری اور احمد ندیم قاسمی صاحب کو لازمی پڑھنا چاہیے، یوں کہہ لیجئے اُن کو پڑھنا اپنے اوپر فرض کر لینا چاہیے۔ آج کے دور میں لوگ پڑھنے کی بجائے لکھنے کی طرف زیادہ توجہ دے رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ انہیں معلوم نہیں کہ وہ لوگ اپنا نقصان کررہے ہیں۔

مجھے مشورہ دیا کہ   مختصر کہانیاں لکھو، لیکن اپنی ساری توجہ اس جانب مبذول نہ کرکے بیٹھے رہو، کیونکہ جو مختصر کہانیاں لکھ رہے ہیں وہ اس سے پہلے افسانے بھی لکھ چکے ہیں، اُن کا تجربہ بہت گہرا اور مطالعہ بہت وسیع ہے، اس صنف کو لکھنے کی بجائے افسانے لکھنے کی کوشش کرو، دراصل ہماری قوم سہل پسند ہو چکی ہے چاہتی ہے دماغ کی ورزش نہ ہو، دماغ کو کہیں کھپانا نہ پڑ جائے اس لیے مختصر کہانیاں لکھنے کی طرف گامزن ہو رہے ہیں۔ یہ صنف تو پانچ منٹ میں لکھی جا سکتی ہے، اس میں دماغ کہاں کھپایا گیا، لمبا بیٹھ کر کس جگہ سوچا گیا اس لیے مشورہ ہے اور ہدایت بھی ہے کہ اس طرف سے ہاتھ کھینچ لو۔

سوال: آج کل نوجوان نسل سیاست پر لکھنے کی طرف بہت زیادہ متوجہ ہورہی ہے، اس کا سبب اُن کا سیاست کے بارے میں باخبر ہونا ہے، تحقیق کا پہلو کارفرما ہے یا کوئی اور بات ہو سکتی ہے؟

جواب: کیونکہ اس کو لکھنے کے لیے کوئی تحقیق نہیں کرنی پڑتی، چار پانچ اخبار لیں، خبریں اور کالم کشید کئیے، اور ان چار پانچ اخباروں کی بنیاد پر اپنی رائے بنا کر ایک ہابڑید سا تجزیہ لکھ دیا جاتا ہے۔ اور میں دعویٰ سے کہتا ہوں اس میں ان کی اپنی ذاتی رائے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، ( یہ بات ثابت کرنے کے لیے انہوں نے میرے ساتھ ایک کھیل کھیلا جس میں مجھے ہزیمت اٹھانی پڑی، یہاں لکھ کر مزید شرمسار نہیں ہونا چاہتا۔۔

سوال: عطا الحق قاسمی صاحب سے آپ کا تعلق اتنا پرانا اور گہرا ہے جتنا آپ کا لاہور سے تعلق، اور ابھی ان کے خلاف آنے والی سزا کے بارے میں آپ کا کیا موقف ہے؟

جواب: جب سے میں لاہور آیا ہوں، قاسمی صاحب کا ایک شفیق استاد کے روپ میں ہمیشہ سایہ شفقت میرے ساتھ موجود رہا ہے۔ قاسمی صاحب سے بہت کچھ سیکھا ہے، میں نے مزاح لکھنا اُن سے سیکھا ہے، قاسمی صاحب کو ہر دور میں جمہور اور عوام کی بات کرتے دیکھا ہے، وہ آمریت کے خلاف استصواب کی بات کرنے والے ہیں۔ اب بھی انہیں صرف جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہونے اور جمہور کی بات کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ یہ اتنا سا اُن کا جرم ہے۔
اگر قاسمی صاحب اُس عہدے کے لیے موزوں نہیں تھے تو مجھے بتا دیں اُن سے زیادہ اور کون شخص اِس عہدے کی اہلیت رکھتا تھا۔ قاسمی صاحب کا احتساب کیا جا رہا ہے، لیکن اُن سے پہلے اس عہدے پر براجمان رہنے والے کسی صاحب کی بازپرس نہیں کی گئی، جو اس عہدے کے لیے قاسمی صاحب کے قد سے بہت چھوٹے ہیں۔ میں تو کہوں گا، قاسمی صاحب کو صرف سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اگر کوئی قاسمی صاحب کو غلط کہتا ہے تو مجھے لگتا ہے وہ مجھ پر بھی انگلی اٹھا رہا ہے کیونکہ میری قاسمی صاحب سے تیس سال پرانی رفاقت ہے، تو کیا میں ایک غلط بندے کے ساتھ اتنا عرصہ گزارتا رہا ہوں اور مجھے اس کا علم بھی نہیں ہوا۔

سوال: آج کے اس دور میں جیسے جیسے سیاسی شعور بڑھا ہے، اسی طرح عدم برداشت میں شدت آئی ہے، سیاسی مخالفت عروج پر ہے، کوئی بھی حریف کی بات سننا پسند نہیں کرتا۔ آپ کے خیال میں جدت کے اس دور میں لوگوں میں برداشت زیادہ نہیں ہونی چاہیے؟

جواب: اصل میں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا علم تو بڑھ رہا ہے شعور نہیں بڑھ رہا، سوچنے میں وسعت پیدا ہوئی ہے لیکن صرف ایک خاص زاویے میں سوچنے کی حد تک۔
ہمیں بچپن سے ہی یہ باور کروا دیا جاتا ہے، تم بالکل ٹھیک ہو، تمہارا مسلک سب سے اعلی ہے، تم جو کر رہے ہو بہترین ہے، اس سے بچہ بچہ نرگسیت کا شکار ہو جاتا ہے۔
جب بچپن میں ہی ایسی باتیں بچہ میں سرایت کر جائیں گی تو وہ خود کو ٹھیک اور باقی سب کو غلط سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ جبکہ آج کے اس دور میں جس کسی کو برا دکھانا ہو اُس کے مخالف ایک narrative بلڈ کیا جاتا ہے، اور ہماری نوجوان نسل اُس بارے میں تحقیق کرنے کی بجائے بھیڑ چال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میں چاہوں گا بچوں کو چاہیے خود سے تحقیق کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنا لیں۔ کوئی بھی بات سنیں یا پڑھیں پہلے خود ریسرچ کریں پھر اُس پر اپنا ردِعمل دیں یا اُس کو آگے بڑھائیں۔ لیکن تحقیق اولین شرط ہے۔ آج کل جو فیک نیوز کی شورش ہے اگر ان باتوں پر عمل کر لیا جائے تو یہ وبا اپنی موت آپ مر جائے گی۔

سوال: جس طرح آپ بھی اپنے کالم میں انگلش کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، کیا اردو زبان میں اردو کی بجائے کسی اور زبان کے الفاظ ‎استعمال کرنا مناسب ہے؟ اردو کے وہ الفاظ جو غلط العام ہو چکے ہیں انہیں ٹھیک انداز میں لکھنے اور بولنے کی طرف توجہ مبذول کروانے کے لیے آپ جیسے بڑے لکھنے والوں کوکردار ادا کرنا چاہیے؟

جواب: کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کو اردو کا باقاعدہ حصہ ہی سمجھا جاتا ہے، اب سکول کو اردو میں بھی سکول ہی لکھا جائے گا، موبائل فون اور سپیکر کو آپ اور کیا کہہ کر پکاریں گے۔ سپیکر کو اب اگر اعلی صوت کہا جائے تو یقیناً  نوے فیصد لوگ اس کو نہ  جان سکیں۔ کیونکہ اب سپیکر اور موبائل ہی ہماری رگوں میں رچ بس گئے ہیں، اور ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے ہمیشہ سے یہ اردو کا ہی حصہ رہے ہیں۔ میرا نہیں ماننا اس طرح ہم زبان کی تذلیل کر رہے ہیں بلکہ یہ تو ہماری زبان کی وسعت  ہے جو ان سب الفاظ کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے۔
دوسری بات کچھ چیزیں ہوتی ہیں غلط العوام اور کچھ ہوتی ہیں غلط العام، اسی میں دوسرے سوال کا جواب پنہا ہے کہ وہ الفاظ جو غلط العوام ہیں انہیں اگر ٹھیک کرکے پڑھنے کی کوشش کریں گے تو لوگ اس کو سمجھ نہیں سکیں گے  اور زبان کا بنیادی مقصد کہ پیغام رسانی کرنا ہے وہ فوت ہوجاتا ہے۔

سوال: بہت سے لوگ اس بات کا گلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے بہت نقصانات ہیں۔ لیکن میرے ناقص علم کے مطابق اردو کو اس سوشل میڈیا نے ہی زیادہ دوام بخشا ہے۔ لوگ اردو میں لکھنے کی طرف گامزن ہو رہے ہیں۔ آپ کی اس کے متعلق کیا رائے ہے؟

جواب: جہاں سوشل میڈیا کے نقصانات ہیں، دوسری طرف واقعی یہ بہت بڑا فائدہ ہوا ہے، اور اس معاملے میں ہمیں سوشل میڈیا کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ کالم اب اخباروں سے زیادہ واٹس یپ گروپوں اور فیسبک پر زیادہ تعداد میں پڑھے جاتے ہیں۔ نئے قاری مل رہے ہیں۔
ایک اور بات جس طرح پرانے زمانے میں لوگ فخر سے بتاتے تھے کہ اُن کے دادا جان انگریزی بہت اچھی بولتے تھے جلد ہی ایک دور آئے گا لوگ فخر سے بتائیں گے اُن کے دادا جان اردو بہت روانی اور عمدگی سے بولتے تھے۔
پہلے اردو کا پیپر ہوتا تھا  اور ہم لوگ امتحان کی رات کھیلتے کودتے تھے اور انگریزی کے پرچہ کے لیے مہینہ پہلے تیاری میں جت جاتے تھے۔ پھر بھی اکثر نامراد لوٹنا پڑجاتا تھا۔ انگریزی کے معلم کا ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا۔ اب آپ دیکھیں ماں باپ اپنے بچے  کی اردو کے لیے فکر مند ہوتے ہیں اس کی ٹیوشن لگواتے ہیں۔ اردو پڑھانے والوں کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

سوال: ‎جس طرح آپ اپنے کالموں میں مزاج کے برخلاف پوسٹ پڑھنے ‎پر پھر ان پر گالیاں دینے کا ذکر کر چکے ہیں مطلب مزاح لکھنے والے کو بھی نہیں چھوڑا جاتا، ایسا  کیوں ہوتا ہے؟

جواب: اس کے متعلق میں بھی اکثر حیران ہوتا ہوں کہ جو بندہ سیاست پر نہیں لکھتا، کسی کی بھی پسندیدہ سیاسی جماعت کے بارے میں اظہار خیال نہیں کیا نہ ہی کبھی کالم میں اپنی سیاسی وابستگی کا اظہار کیا، پھر بھی اس کو گالیاں پڑیں۔۔ تو یہ ظاہر کرتا ہے لوگوں کو تربیت کی ضرورت ہے، کہاں ہنسنا ہے اور کہاں گالی دینی ہے۔ اب امان اللہ کی مثال لیں لے، اب  اس شخص کو کوئی گالی دیتا ہے تو آنسو بہنا بنتا ہے، اس سے کسی کا کیا بیر ہو سکتا ہے۔ شاید وہ لوگ کسی اور بات پر غصہ میں ہوتے ہیں اور ہماری تحریر پڑھ لیتے ہیں، تو اپنا غصہ ہم پر نکال دیتے ہیں۔ انہیں مشورہ ہے تازگی کی حالت میں میرا کالم پڑھیں  اگر چہرے پر شفتگی نہ آئے تو پیسے واپس ۔

سوال: آپ نے عرصہ قبل ننجا ماسٹر سے سکول ماسٹر کے نام سے ایک کالم لکھا تھا، وہ سیدھی سیدھی گولا باری کی کچھ خاص وجہ( جن کو اس بارے میں خبر نہیں ان کے لیے اچھا ہے، کیونکہ یہ میرے بھی پسندیدہ شاعروں میں سے ہیں، یہ سوال پوچھنے کی بھی یہی وجہ تھی)؟

جواب: گولا باری بالکل بھی نہیں تھی، آپ دیکھ لیں میں نے اُس میں تو نام بھی نہیں لکھا تھا۔ صرف اپنا نوحہ لکھا تھا جو ایک کمال کا شاعر تھا، میں آج بھی اس کے شعروں کا معترف ہوں لیکن اُس شخص نے اپنی انانیت اور خود نفسی کی وجہ سے خود کو تباہ کر لیا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو وہ اردو ادب کا ایک لاجواب شاعر جانا جاتا مگر صدائے افسوس بلند کرنے کے علاوہ کچھ کیا بھی نہیں جا سکتا۔ جس چیز کا مجھے آج تک رنج اور غم ہے۔

سوال: نوجوان نسل کو کتاب کی طرف کیسے لایا جا سکتا ہے؟

جواب: کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کتاب صرف ہارڈ فارم میں خرید کر پڑھنی چاہیے۔ میں اس چیز کے خلاف ہوں کتاب کسی بھی حالت میں ہو کتاب تو ہے۔ یہ ڈیجٹل کا زمانہ ہے ہم خود ماڈرن دنیا کی بات کرتے ہیں تو ہارڈ فارم کی حدود قیود کیوں لگا دیتے ہیں۔ اگر کوئی جس شکل میں کتاب پڑھ رہا ہے اسے پڑھنے دیں۔ اور والدین کو چاہیے بچوں کو ساتھ لے کر بیٹھیں، انہیں کوئی کتاب سے متعلق ایکٹویٹی کروائیں چاہیے ٹیبلٹ پر کروائیں تاکہ بچوں میں بچپن سے ہی کتاب،  کا شوق ہو ۔   میں کہوں گا پڑھنے کی طرف راغب کریں۔ وہ اب آپ پر منحصر کرتا ہے آپ کس طرح یہ سرگرمی سرانجام دیتے ہیں۔

یہاں ملاقات اختتام پذیر ہوئی۔ایک عدد کتاب ازراہ شفقت ہمیں عنایت کی، ہم نے کتاب پر دستخط لیے تاکہ کبھی گل نوخیز سر کے اکاوئنٹ سے پیسے نکلوانے پڑ جائیں تو دستخط تو پاس ہوں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ملاقات کے اختتام پر تصویریں بناوائیں  تاکہ ضرورت پڑنے پر بطور سند پیش کی جا سکیں۔ اپنی کرسی سے اٹھ کر ہمیں لفٹ تک خود چھوڑنے آئے۔ راستے میں ہم نے ایک دوسرے سے رابطہ کی غرض سے اپنے ٹیلی فون نمبروں کا تبادلہ کیا اور دوبارہ ملنے کا وعدہ کرکے ہم نے  گھر کی راہ کی۔

Facebook Comments

عبدالحنان ارشد
عبدالحنان نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملک کے چند نامور ادیبوں و صحافیوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ سو لفظوں کی 100 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply