ابابیل اور حجرالخطاف۔۔۔۔ثنا اللہ خان احسن

ایک پراسرار پرندہ اور پراسرار پتھر۔۔
حجرالخطاف کیا ہوتا ہے؟
جوگی اور سنیاسی اس پتھر کی تلاش میں کیوں رہتے ہیں؟
کیا ابرہہ کے لشکر پر حملہ کرنے والے پرندے ابابیل تھے؟

آپ نے اکثر آسمان پر انتہائی  بلندیوں پر اس پرندے کو بغیر پر پھڑپھڑائے پرواز کرتےدیکھا ہوگا۔ خاص طور پر بارش سے پہلے آسمان پر اس کا نظر آنا اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ اب بارش لازمی ہوگی۔یہ ایک چھوٹی سی چڑیا جس کے پر سیاہ اور سینہ سفید ہوتا ہے۔ پرانے گنبدوں ۔ کھنڈروں ، اونچے ٹیلوں اور پہاڑیوں کی چٹانوں میں اور تاریک مقامات پر مٹی کا گھونسلا بنا کر رہتی ہیں۔اس کے اڑنے کی طاقت بے مثال ہوتی ہے۔ یہ پرندہ اپنی پرواز کے دوران کھا بھی سکتا ہے۔ انگریزی میں اس کو Swallow کہا جاتا ہے۔


واضح رہے کہ چھوٹی جسامت ہونے کے باوجود ابابیل (سوئفٹ) کا شمار دنیا کے بلند پرواز اور تیز رفتار پرندوں میں کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے مسلل  طویل ترین مدت تک پرواز کا ریکارڈ 6 ماہ تھا جو ابابیل ہی کی ایک قسم ’’الپائن سوئفٹ‘‘ کے پاس تھا۔ عام ابابیل نے، جسے سائنسی زبان میں ’’ایپس ایپس‘‘ (Apus apus) کہا جاتا ہے، یہ ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔ یورپ سے افریقہ تک موسمی نقل مکانی (سیزنل مائیگریشن) کرتے ہوئے یہ ابابیل مسلسل 10 ماہ تک بغیر رُکے اور بغیر زمین پر اُترے پرواز کرتی ہے۔سویڈن کی لیونڈ یونیورسٹی نے ڈیٹا حاصل کرنے کا ایک نیا طریقہ اختیار کرتے ہوئے 19 سوئفٹ پرندوں کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ جب یہ پرندہ اپنی نسل نہیں بڑھاتا تو اس دوران 10 ماہ کے عرصے میں 99 فیصد وقت میں پرواز ہی کرتا رہتا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ سوئفٹ پرندوں کی زندگی بھی طویل ہوتی ہے اور ایک پرندہ اوسطاً 20 سال تک زندہ رہتا ہے۔ ان کے مسلسل سفر کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ایلپائن سوئفٹ اور عام ابابیل، دونوں پرندے ہی اپنی 20 سالہ زندگی میں اتنے فاصلے تک پرواز کرلیتے ہیں جو چاند تک آنے اور جانے کے 7 چکروں جتنا طویل ہوتا ہے۔

دنیا بھر میں ابابیل کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سرد علاقوں کی ابابیلیں سرفہرست ہیں ۔ دو قسم کی ابابیلیں گرمی کے موسم میں سرد علاقوں سے ہجرت کرکے ایشیائی ممالک میں آتی ہیں ۔ جبکہ دوسری قسم کی مستقل طور پر یہاں پائی جاتی ہیں ۔ ابابیل ایک چھوٹا اور نازک پرندہ ہے لیکن غیر معمولی طور پر اس کے پر لمبے ہوتے ہیں ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عام پرندوں کی نسبت زیادہ سفر کرتی ہے ۔ اس کے پنجے نہایت کمزور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ دوسرے پرندوں کی طرح زمین پر بھاگ دوڑ نہیں سکتی ۔ البتہ درختوں کی پتلی شاخوں اور بجلی کے باریک تاروں پر بیٹھنے میں یہ پنجے اسے بے حد مدد دیتے ہیں ۔ اس کے پروں میں چمک دمک پیدا کرنے والے کیمیائی ذرات ہوتے ہیں جو مختلف رنگوں میں منعکس ہوکر اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں ۔ ہر سال اس کے پر جھڑتے جاتے ہیں اور نئے پر نکل آتے ہیں۔ اس کے گھونسلے عام طور پر غیر آباد جگہوں جیسے دریاؤں ، تالاب کے کناروں ، پہاڑوں ، غاروں اور درخت کے اندر بنے ہوئے سوراخوں میں پائے جاتے ہیں ۔ کسانوں کیلئے یہ بہت فائدہ مند پرندہ ہے کیونکہ یہ فصلوں کو نقصان پہونچانے والے کیڑوں کی سخت دشمن ہے ۔ جہاں انہیں پاتی ہے چٹ کرجاتی ہیں ۔ اس کی اڑان ہمیشہ جھنڈ کی شکل میں ہوتی ہے ۔ اڑتے وقت یہ منہ سے مختلف قسم کی آوازیں نکالتی ہیں ۔ خوراک کی تلاش اور کھانے کا عمل یہ دوران پرواز ہی سر انجام دیتی ہے ۔ اڑتے وقت یہ اڑنے والی چیونٹیوں کو اس طرح اپنی غذا بناتی ہے کہ پورا منہ کھول لیتی ہے جس کی وجہ سے ڈھیروں چیونٹیاں ایک ہی وقت میں اس کے منہ میں چلی جاتی ہیں ۔

عربی میں ابابیل کو خطاف کہا جاتا ہے۔ عربی زبان میں ابابیل کے معنی گروہ اور جھنڈ کے ہیں اور یہ اسم جمع ہے ۔ بعض کے نزدیک اس کا واحد ابل ، ابالہ یا ابول ہے اور بعض کے نزدیک اس کا واحد کوئی لفظ نہیں۔ یعنی کہ عربی میں ابابیل کسی پرندے کا نام نہیں بلکہ پرندوں کے جھنڈ یا غول کو کہا جاتا ہے۔ ۔
‏‎سوال یہ ہے کہ اردو میں یہ تصور کہاں سے آیاجب کہ قرآن مجید کے تقریبا ً سارے ہی اردو تراجم ’’ابابیل‘‘کا ترجمہ غول در غول ، جھنڈ در جھنڈ، گروہ در گروہ یا جیسا کہ مولانا آزاد نے ابابیل کا ترجمہ جھلڑ کے جھلڑ ،سے کیا ہے پھر ابابیل پرندہ کے معنی میں کیسے مشہورہو گیا؟میرا خیال یہ ہے کہ ہوسکتا ہے بر صغیر میں ابتدا میں اصحاب فیل کا واقعہ بیان کرتے وقت یہ کہا جاتا رہا ہو کہ اللہ تعالی نے ابرہہ کی ہلاکت کے لیے طیراً ابابیل یعنی غول در غول پرندے بھیج دیے جنہوں نے اسے ا ور اس کے لشکر کوہلاک کردیا، پھر اس واقعے کی شہرت کی وجہ سے طیر ابابیل کوصرف ابابیل کہنا شروع کردیا گیا۔
‏‎لفظ ’’ابابیل‘‘ قرآن مجید میں صرف ایک بار یعنی سورۃ الفیل میں وارد ہوا ہے۔ یہ سورت اصحاب الفیل کے واقعے کو بیان کرتی ہے جو عوام وخواص سب کے یہاں مشہور ومعروف ہے۔ ابرہہ کے اس حملے کے موقع پر مکہ کے باشندے عبد المطلب کی رائے سے جان بچانے کے لیے گھاٹیوں میں بکھر گئے۔ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر جا چھپے۔ جب لشکر پر عذاب نازل ہوچکا تو اطمینان سے اپنے گھروں کو واپس آگئے۔ یہ ایک عظیم الشان نشان تھا جس کا ظہور مسلمان اور عیسائی دونوں تسلیم کرتے ہیں بلکہ یہ خود آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے ظہور کا نشان تھا۔ جن کی ذات حقیقی طور پر بیت الله کی حفاظت کی کفیل تھی۔

اس معجزے کا ذکر الله تعالی نے قرآن مجید میں خاص طور پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو خطاب کرکے کیا ہے أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ۔ وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ تَرْمِيهِم بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّيلٍ فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا اس نے ان کی تدبیر کو اکارت نہیں کر دیا اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے۔ جو ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے۔ پھر ان کا یہ حال کر دیا جیسے جانوروں کا کھایا ہوا بھوسہ۔ (سورة الفیل)
سورة الفیل اس واقعہ کے تقریبا 45 سال بعد نازل ہوئی۔ غالباً اس وقت متعدد لوگ زندہ موجود ہوں گے جو اس واقعہ کے چشم دید گواہ ہوں گے اور ایسے تو ہزاروں ہوں گے جنہوں نے یہ واقعہ خود دیکھنے والوں سے سنا ہو گا۔ کفار جو ہمیشہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو جھٹلانے کی کوشش میں رہتے تھے اگر یہ واقعہ غلط ہوتا تو ضرور اس کی تکذیب کرتے اور علانیہ اس کی تردید کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے اس واقعہ کی سچائی میں کوئی شبہ نہیں۔ کعبہ پر حملہ کرنے والا ابرہہ عیسائی تھا چنانچہ واقعہ کی خبر اس وقت کی متمدن دنیا کے بیشتر علاقوں تک فوراً پہنچ گئی۔ اور دنیا کی نگاہیں کعبہ کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ انہیں بیت الله کی عظمت اور بڑائی سے آگاہی ہوئی اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس گھر کی عظمت میں کوئی شبہ نہیں۔ یہ الله جل جلالہ کا منتخب مقام ہے لہٰذا یہاں سے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا دعوٰی نبوت کے ساتھ اٹھنا بیت الله کے تقدس کے عین مطابق ہو گا۔اس واقعے کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ حبشہ کے بادشاہ کی طرف سے یمن میں ابرہہ الاشرم گورنر تھااس نے صنعاء میں ایک بہت بڑا گرجا گھر تعمیر کیا اور کوشش کی کہ لوگ خانۂ کعبہ کے بجائے عباد ت اورحج وعمرے کے لیے ادھر آیا کریں۔ یہ بات اہل مکہ اور دیگر قبائل عرب کے لیے سخت ناگوار تھی چنانچہ ان میں سے ایک شخص نے ابرہہ کے بنائے ہوئے عبادت خانے کو غلاظت سے پلید کردیاجس کی اطلاع اس کو کردی گئی کہ کسی نے اس طرح اس گرجا کو ناپاک کردیا ہے جس پر اس نے خانۂ کعبہ کو ڈھانے کا عزم کرلیا اور ایک لشکر جرار لے کر مکہ پر حملہ آور ہوا، کچھ ہاتھی بھی اس کے ساتھ تھے جب لشکر وادیٔ محشر کے پاس پہنچا تو اللہ تعالی نے پرندو ں کے غول بھیج دیے جن کی چونچوں اور پنجوں میں کنکریاں تھیں جو چنے یا مسورکے برابر تھیں جس فوجی کو یہ کنکری لگتی وہ پگھل جاتا اور اس کا گوشت جھڑ جاتا اور بالآخر ابرہہ کا بھی مکہ پہنچتے پہنچتے یہی انجام ہوا اس طرح اللہ تعالی نے اپنے گھر کی حفاظت کی۔ یہ واقعہ مشہور قول کے مطابق اُس سال پیش آیا جس سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تھی اس لیے عربوں میں اس کی خبریں مشہور تھیں۔ اب وہ پرندے جو غول در غول آئے وہ کیا تھے اور کیسے تھے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

‏‎ابابیل کے گھونسلے کا پتھر حجرالخطاف

خطاف عربی میں ابابیل کو کہتے ہیں یہ پرندہ اپنے آشیانے میں دو قسم کے پتھر رکھتا ہے ان دونوں پتھروں کا رنگ سرخ اور سفید ہوتا ہے۔ اس پتھر کو حجرالصنوبر بھی کہتے ہیں۔ اس پتھر سے بہت سی پراسرار داستانیں جڑی ہیں۔ اکثر بوڑھے جوگی حضرات بھی اپنے پاس یہ پتھر رکھتے ہیں۔حکیم اور طبیب حضرات اس پتھر کے بہت سے طبی خواص بیان کرتے ہیں ۔ سفید پتھر مرگی کے مریض کے گلے میں مثل لاکٹ ڈالنے سے اس مرض کا دورہ نہیں پڑتا۔ قوت باہ میں معاون ہے اور دافع یرقان ہے، چشم بد کو دور کرتا ہے یعنی کہ اسے پاس رکھنے والے کو نظر بد نہیں لگتی۔ واللہ عالم!!۔ اکثر بچوں کو سوتے میں ڈرنے کی بیماری ہوتی ہ ے، سرُخ پتھر بچے کے سرہانے رکھنے سے بچہ ڈر اور خوف سے محفوظ رہتا ہے-


‏‎ایک بہت بوڑھے اور تجربہ کار سنیاسی جوگی نے بتایا کہ یہ پتھر ہر ابابیل کےگھونسلے میں نہیں ہوتا بلکہ اس کو منگوانا پڑتا ہے۔۔ سنگ خظاطیف کے لئے مشہور ہے کہ ابابیل کے گھونسلے سے یہ پتھر حاصل کرنے کے لئے اس پرندے کے بچوں کو زرد رنگ میں رنگ کر گھونسلے میں رکھ دیا جاتا ہے ۔ ابابیل اسے بچوں کی بیماری سمجھ کر یہ پتھر خدا جانے کہاں سے لاتی ہے ؟!! وہ اس پتھر کو تلاش کر کے اپنے گھونسلےمیں لاکررکھ دیتی ہے تا کہ اس کے بچوں کا مرض یرقان یعنی پیلیا جاتا رہتا ہے- قدرت نے اس پتھر میں یہ خاص صفت رکھی ہے کہ مرض یرقان دفع کرتا ہے۔
لیکن کچھ تجربہ کار حضرات یہ بتاتے ہیں کہ یہ پتھر ابابیل کے پوٹے میں پایا جاتا ہے۔ ابابیل کو مار کر اس کے پوٹے یا سنگدانے کو چیرا جائے تو اس میں یہ پتھر ملتا ہے۔ ابابیل کے بچوں کے پوٹے میں بھی یہ پتھر پایا جاتا ہے۔ بعض عامل حضرات اس پتھر کے کچھ طلسمات وغیرہ بھی تیار کرتے ہیں جو اسٹاک اور حصص کا کاروبار کرنے والے افراد کے لئے خوش بختی لاتا ہے۔ اب اس پتھر کے طبی فوائد تو آزمودہ ہیں لیکن یہ بد بختی اور خوش بختی وغیرہ محض ضعیف العقیدہ افراد کی نفسیات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ ہر وہ چیز جس کا حصول انتہائ دشوار ہو یا عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو تو اسے عجیب و غریب فوائد کا حامل بتا کر لوگوں سے پیسے بٹورے جاتے ہیں ۔

اب تو جدید دور ہے، یرقان کا علاج بھی ہو جاتا ہے اور مرگی کا بھی لیکن جس زمانے میں ان بیماریوں کا مکمل علاج نہ تھا لوگ اکثر اس پتھر کی تلاش میں رہتے تھے۔ اس پتھر کو حاصل کرنا آسان نہ تھا کیونکہ ابابیل عموما” انتہائ بلندی پر عمودی چٹانوں پر اپنا گھونسلہ بناتا ہے جہاں تک پہنچنا انسان کے لئے تقریبا” ناممکن ہوتا ہے۔ ابابیل کا گھونسلہ بھی کچی مٹی کی ہانڈی جیسا ہوتا ہے جسے یہ پرندہ بڑی مہارت سے دریا یا جھیل سے گیلی مٹی لا لا کر بناتا ہے۔ اس کی وڈیو آپ گوگل پر دیکھ سکتے ہیں۔

علامہ دمیری نے اپنی کتاب حیات الحیوان میں ابابیل کے بارے میں بڑی دلچسپ باتیں لکھی ہیں جن کا جدید سائنسی حقائق سے کوئ تعلق نہیں لیکن ابابیل سے متعلق کچھ عجیب و غریب حقائق کا علم ضرور ہوتا ہے۔
علامہ لکھتے ہیں کہ ابابیل کا سب سے بڑا دشمن چمگادڑ ہے اور اکثر ابابیل کے گھونسلے میں اس کے بچوں کی تاک میں رہتا ہے۔ ابابیل چمگادڑ سے بچنے کے لئے اپنے گھونسلے میں اجوائن کے پودے کی لکڑیاں لا کر رکھتا ہے جس کی وجہ سے چمگادڑ گھونسلے کے قریب نہیں آتا۔ ابابیل اپنا گھونسلہ گیلی مٹی اور تنکوں کی مدد سے بناتی ہے۔ یہ گیلی مٹی میں تنکے ملا کر اس مٹی سے گھونسلہ لیپتی ہے۔
اگر ابابیل کے بچے بیمار ہوجائیں تو یہ کہیں سے دو عدد پتھر کی کنکریاں اپنے گھونسلے میں لاکر رکھتی ہے جن کے اثرات سے بیماری ختم ہوجاتی ہے۔یہ ایک چھوٹی سی پتھری ہے جو سنگ سنونو ( سنگ ابابیل) کے نام سے مشہور ہے۔ پرانے زمانے میں سنیاسی اور فقیر اس پتھر کی تلاش میں رہتے تھے کیونکہ اس کے گلے میں لٹکانے یا پانی میں گھس کر پلانے سے مرض یرقان دور ہوجاتا ہے۔
حکیم ارسطو نے لکھا ہے کہ اگر ابابیل کی آنکھ کسی کپڑے میں باندھ کر کسی کے پلنگ سے باندھ دی جائے تو اس شخص کو نیند نہیں آئے گی۔

اگر ابابیل کی آنکھ کسی عمدہ قسم کے تیل میں گھس کر وہ تیل کسی عورت کو پلادیا جائے تو وہ تیل پلانے والے سے شدید محبت کرنے لگے گی۔ ابابیل کا دل سکھا کر پانی میں گھس کر پلانا مرد کی قوت باہ کے لئے بہت مفید ہے۔ ابن الدقاق کا کہنا ہے کہ ابابیل کے گھونسلے کی مٹی پانی میں گھس کر پلانا سلسل البول یعنی پیشاب کی زیادتی کی بیماری میں مجرب ہے۔ ابابیل کا خواب میں نظر آنے کو کبھی مرد یا عورت یا مال سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ اگر کوئ خواب میں ابابیل کو پکڑے تو یہ مال حرام ملنے کا اشارہ ہے جبکہ اگر ابابیل خود گھر میں داخل ہوتے دیکھے تو یہ مال حلال ملنے کا اشارہ ہے۔ واللہ اعلم!

Advertisements
julia rana solicitors london

(اس مضمون کی تیاری میں مختلف کتب، ویب سائٹس، بلاگز اور انسائیکلوپیڈیا سے مدد لی گئی ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply