وہ خواب جو ترکی نے حماس کے بارے میں دیکھا ہے

وہ خواب جو ترکی نے حماس کے بارے میں دیکھا ہے
علی تہرانی

ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے چند روز قبل اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت نے اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے دباو بڑھا دیا ہے۔ انہوں نے بدھ کے روز واشنگٹن میں داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا ترکی نے حماس پر زور دیا ہے کہ وہ اسلحہ پھینک کر اسرائیل سے امن مذاکرات کا آغاز کر دے۔ ترک وزیر خارجہ نے دعوی کیا کہ حماس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور پارلیمانی انتخابات منعقد کروانے کیلئے آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ المیادین ٹی وی چینل کے مطابق ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انقرہ اور تل ابیب کے درمیان تعلقات معمول پر آ جانے کے بعد امن مذاکرات کا افق زیادہ واضح ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں سے مذاکرات میں تسہیل سمیت تل ابیب سے ہمارے تعلقات میں بہتری کے دیگر نتائج دونوں اطراف کے فائدے میں ہیں۔

دوسری طرف حماس کے ایک اعلی سطحی عہدیدار نے المیادین ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کی تائید کی کہ ترک حکومت نے ان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس سے امن مذاکرات شروع کرنے کیلئے دباو ڈلا ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ حماس نے اس دباو کو مسترد کرتے ہوئے ترکی کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ یاد رہے ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات اس وقت کشیدہ ہو گئے تھے جب 2010ء میں اسرائیلی مسلح افواج نے غزہ کے محصور شہریوں کیلئے امدادی سامان لے جانے والی ترکی کی کشتی پر دھاوا بول دیا تھا جس کے نتیجے میں کئی ترکی شہری جاں بحق اور بعض اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے تھے۔ گذشتہ برس کئی سالوں کے مذاکرات کے بعد ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بحال ہو گئے تھے۔

ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی کے بعد ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی میں حماس کے کردار کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ حماس کے بارے میں کوئی مسئلہ نہیں پایا جاتا۔ انہوں نے کہا تھا: “ہم فلسطین میں اتحاد اور مساوات کی برقراری اور مشرق وسطی میں قیام امن کیلئے حماس اور الفتح سے تعلقات برقرار رکھیں گے۔ اسرائیل سمیت بعض ایسے ممالک جو ماضی میں حماس سے ہمارے تعلقات پر پریشانی کا اظہار کرتے تھے اب ہمارے اہداف سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں لہذا ان کے تحفظات برطرف ہو گئے ہیں۔ لہذا اسرائیل سے ہمارے تعلقات کی بحالی میں حماس کے بارے میں کوئی شرط نہیں لگائی گئی اور ایسی شرط لگانا ممکن بھی نہیں”۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حماس سے تعلقات استوار کرنے میں وہ اہداف جن کی جانب ترک وزیر خارجہ نے اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل بھی انہیں بخوبی درک کر چکا ہے وہی ہیں جن کے بارے میں انہوں نے حال ہی میں اظہار خیال کیا ہے اور کہا ہے کہ ترکی نے حماس پر اسلحہ ترک کرنے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے دباو ڈال رکھا ہے۔ لہذا ترکی دو بڑے اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہے:
1۔ حماس کو اسلحہ پھینکنے پر مجبور کرنا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلقات کی بحالی کیلئے ترکی اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی بات چیت میں اس ایشو پر بات ہو چکی ہے۔ اسرائیل کئی بار ترکی سے مطالبہ کر چکا ہے کہ وہ اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس میں اپنے اثرورسوخ کی بدولت اس تنظیم کو اسلحہ پھینک کر مذاکرات کی میز پر آنے کی ترغیب دلائے۔
2۔ حماس کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیا جانا۔ یقینا پہلے مقصد کے حصول میں کامیابی خود بخود دوسرے مقصد کے حصول کو بھی ممکن بنا دے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ترکی اپنے ان مقاصد کی تکمیل کیلئے حماس کو محض ایک سیاسی گروہ بنانے کا عزم کر چکا ہے اور اس کے تمام ملٹری ونگز ختم کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ کیونکہ جب تک حماس کے ملٹری ونگز موجود ہیں اس کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مزید برآں، ترکی مذکورہ بالا دو مقاصد کے ذریعے بعض دیگر بڑے اہداف تک پہنچنے کیلئے تگ و دو میں مصروف ہے۔ یہ بڑے اہداف عرب اسرائیل امن مذاکرات میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا، اسرائیل سے مزید گہرے تعلقات کا قیام اور آخرکار اسلامی مزاحمتی بلاک کو کمزور کرنا ہیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply