بعض دفعہ، معاشرے اور افراد تبدیلی سے خائف ہوتے ہیں اور ان کو بدلتے دیکھنے سے گھبراتے ہیں۔ وہ بھی جن کی مہارت ہی اس میں ہونی چاہئے لیکن ہمارے آگے بڑھنے کی طاقت ہی اس تبدیلی میں رہی ہے۔
آرٹ نئے اور اچھوتے خیالات کو سامنے لانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ خوبصورتی کیا ہے؟ انیسویں صدی میں فرنچ آرٹ اکیڈمی نے تصویری آرٹ میں معیار کی تعریف بنانے کی کوشش شروع کی۔ لوگ کیا پسند کرتے ہیں؟ کونسا آرٹ دیکھا جاتا ہے اور خریدا جاتا ہے؟ اس کو دیکھ کر ماہرین نے اچھے آرٹ کے سٹینڈرڈ کی گائیڈ لائن بنائی۔ اکیڈمی میں ہر طرح کے ماہرین تھے، کلاسیکل آرٹ سے لے کر رومانٹک آرٹ کے لیڈرز تک۔ ہر دو سال بعد اکیڈمی کی نمائش ہوتی تھی۔ کسی آرٹسٹ کو اپنا کام منوانے کے لئے یہ بہترین جگہ تھی۔ اس میں چناؤ کا طریقہ بہت کڑا تھا۔ اکیڈمی اپنی گائیڈ لائن کے مطابق فیصلہ کرتی تھی۔ ہزاروں کام مسترد ہو جاتے تھے۔ اس فیصلے کو تسلیم کئے بنا کوئی چارہ نہ تھا۔ ماہرین کے اس جامد اور تنگ معیار کے خلاف بغاوت ہوئی۔یہ اتنی زیادہ توجہ لے گئی کہ نپولین سوئم مسترد فن پارے دیکھنے گئے۔ ان کے کہنے پر مسترد شدہ کام کی الگ نمائش لگی تا کہ دیکھنے والی خود فیصلہ کر لیں۔ یہ اس شاندار جگہ پر تو نہ تھی جہاں آفیشل نمائش تھی لیکن شائقین کی بڑی تعداد نے اکیڈمی کا قائم کردہ معیار مسترد کر دیا۔ اس میں مانے کا شہرہ آفاق کام بھی تھا۔ یہ نمائش مغربی آرٹ کا ٹریننگ پوائنٹ تھا۔ انسانی ذہن مسلسل بدلتے ہیں۔معیار کی گوند سے بدلتی سوچ نہیں جمائی جا سکی، خواہ اس کے پیچھے جو بھی ہو۔ یہ اس نمائش کا سبق تھا۔
یہ آرٹ تک محدود نہیں۔ جب وگنر نے گھومتے پھرتے براعظموں کا نظریہ پیش کیا تو جامد خیالات رکھنے والے ماہرین نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا۔ ذہن کی اس سے بھی بڑی طاقت خود اپنے ذہن کو بدل لینے کی اہلیت ہے۔ ہم خود اپنے آپ سے بغاوت کر سکتے ہیں۔ آرٹ میں اس کی بہت مثالیں ہیں۔ سائنس میں اس کی ایک مثال ای او ولسن ہیں۔
ارتقائی بائیولوجی میں ای او ولسن صف اوّل کے سائنس دان ہیں۔ سوشیوبائیولوجی میں ان کے پائے کا سائنسدان نہیں اور دو پلٹزر پرائز جیت چکے ہیں۔ ان کی لکھی کئی کتابیں مشہور ہیں۔ خاص طور پر جانوروں کے معاشرتی رویے پر۔ چیونٹیوں پر لکھی ایک کتاب میں ان کا یہ دلچسپ فقرہ چیونٹیوں کی زندگی کی بڑی خوبصورت وضاحت کرتا ہے۔ “کارل مارکس بالکل ٹھیک کہتے تھے۔ سوشلزم واقعی کام کرتا ہے۔ انسانوں پر نہیں، چیونٹیوں پر۔ صرف نوع غلط تھی”۔ کئی دہائیوں کی تحقیق میں ایک معمہ ان کو تنگ کرتا رہا۔ ایثار و قربانی کا۔ کوئی جاندار دوسرے کو بچانے کے لئے اپنی جان تک کیوں قربان کر دیتا ہے۔ اس پر بنی کن سلیکشن تھیوری میں سب سے زیادہ حصہ ولسن کا رہا۔ لیکن ولسن نے اپنا ذہن گوند سے نہیں جوڑا تھا۔
پچاس سال تک کن سلیکشن تھیوری کی حمایت کرنے کے بعد انہوں نے اپنی پوزیشن بدل لی۔ نیا ڈیٹا قائم کردہ ماڈلز سے متصادم تھا۔ قریبی رشتہ دار کیڑوں کی کئی کالونیاں قربانی کا جذبہ نہیں دکھاتی تھیں۔ اس طرح کچھ کالونیاں جہاں پر جین پول میں ڈائیروسٹی تھی، وہاں یہ جذبہ ملتا تھا۔ ولسن نے اس پر ملٹی لیول سلیکشن (گروپ چناؤ کا نظریہ) دیا۔ یعنی تعاون کا تعلق صرف جینز سے نہیں۔ ماحول اور رہن سہن کے طریقے سے بھی ہے۔ جہاں ٹیم ورک کام نہیں کرتا، وہاں خودغرضی دیکھنے کو ملتی ہے۔
خود اپنے ہی خیال کو بدلنے پر ان کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی طرف سے جو پرانے نظریے سے آگے بڑھنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے۔ ارتقائی بائیولوجسٹ کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے عجیب ری ایکشن رچرڈ ڈاکنز کی طرف سے آیا۔ نئے خیال کو خوش آمدید کہنا تو درکنار، ان کا جواب شخصی حملہ تھا۔ انہوں نے ولسن کو اپنے شعبے میں کالی بھیڑ کا اور خبطی کا خطاب دیا۔
ولسن کا خیال ٹھیک ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر یہ انسانی ذہن کی سب سے بڑی طاقت کا مظاہرہ ہے۔ نئے حقائق سامنے آنے کے بعد ولسن اپنی پوری زندگی کا کام ایک طرف رکھ آگے بڑھنے سے نہیں ہچکچائے۔ جس کام پر خود انہیں انعام ملا تھا، وہ اسی کو مسترد کرنے سے خوفزدہ نہ تھے۔
خیالات منجمد کرنے کی گوند خواہ فرنچ اکیڈمی سے آئے یا ڈاکنز سے، بڑھنے میں رکاوٹ تو ڈالتی ہے، ہمیں روکتی نہیں۔ اگر ہم اس گوند کے قیدی ہوتے تو غاروں سے ہی نہ نکل سکتے۔
نوٹ: ڈیوڈ ایگلمین کی کتاب رن اوے سپیشز کے ساتویں باب سے ترجمہ
ولسن اور ڈاکنز تنازعہ پر
https://www.theguardian.com/…/richard-dawkins-labelled-jour
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں