البرٹ آئن سٹائن نے اپنی مشہورِ زمانہ تھیوری آف جنرل ریلیٹیویٹی میں تحلیلِ وقت (Time Dilation) کا جو تصوّر دیا وہ سائنسی تجربات کی کسوٹی پر پرکھا، جو کہ ایک تسلیم شُدہ حقیقت بن چُکا ہے اور انسانی عقل کے سامنے یہ دیرینہ گُتھّی سُلجھ چُکی ہے کہ دراصل وقت آگے یا پیچھے سفر کا نام نہیں، بلکہ وقت تو خلاء کے ساتھ مل کر خُود ایک جہت ہے اس تین جہتی دُنیا three dimensional world کےلیے چوتھی جہت یعنی فورتھ ڈائمینشن یہی وقت ہی ہے جسے آئن سٹائن نے Space-Time کا نام دیا ہے۔
بات بہت باریک ہے لیکن سمجھنے لائق ہے کہ جسے ہم ماضی، حال یا مُستقبل سمجھتے ہیں اُس کا انحصار دراصل مشاہدہ کرنے والے یعنی observer پر ہے کہ وہ کائنات میں کس مقام پر موجود ہے اور کیا مشاہدہ کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر فرض کریں کہ ایک observer زمین سے 10 نُوری سال کے فاصلے پر کائنات میں کہیں موجود ہے اور وہاں سے وہ ہبل یا جیمز ویب جیسی طاقتور ٹیلی سکوپ کے ذریعے زمین کو دیکھ رہا ہے تو اُس کے سامنے گُزشتہ 20 سال کے واقعات رُونما ہو رہے ہونگے۔ یعنی 20 سال کا ماضی اُسے اپنے سامنے ہوتا ہوا نظر آرہا ہوگا۔ وہی observer اگر کائنات میں اپنا مقام تبدیل کرلے اور کسی دیگر مقام سے دیکھے لیکن فاصلہ 10 نُوری سال ہی رہے تو وہ دُوبارہ وہی 20 سالہ ماضی repeat ہوتے ہوئے دیکھے گا۔ گویا لامحدود (infinite) بار لیکن ایک ہی فاصلے سے دیکھنے پر observer کو زمین پر وہی واقعات لامحدود (infinite) بار ہی repeat ہوتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اب فرض کریں کہ ایک observer اسوقت زمین پر ہے اور دوسرا 10 نُوری سال کے فاصلے پر کائنات کے کسی بھی دیگر مقام پر ہے تو دونوں کےلیے الگ الگ منظر ہیں۔ زمین والے کی نظر میں گُزشتہ 20 سال کے واقعات ماضی ہیں اور وہ اُنہیں نہیں دیکھ سکتا لیکن 10 نُوری سال کے فاصلے پر موجود observer کے سامنے وہی واقعات ابھی ابھی ہو رہے ہیں یعنی وہ اُسکا حال ہے۔ سو کائنات میں دو مختلف observers کا مشاہدہ مختلف ہے ایک کا ماضی دوسرے کا حال ہے۔ اسکا مطلب ہوا کہ وقت جسے ہم linear اور بہتا ہوا سمجھ رہے ہیں وہ دراصل جامد ہے اور دوسرے observer کے سامنے بار بار repeat ہو رہا ہے۔
آئیے اب آگے چلتے ہیں اور فرض کرتے ہیں کہ 10 نُوری سال کے فاصلے پر موجود observer سے اُوپر ایک اور observer ہے جو کائنات میں 100 نُوری سال کے فاصلے سے دیکھ رہا ہے۔ اُسے زمین پر 10 نُوری سال والے فاصلے سے بھی زیادہ نظر آ رہا ہے۔ زمین والے کا جو ماضی ہے وہ 10 نُوری سال والے کو حال کے طور پر نظر آئے گا اور 10 نُوری سال والے کےلیے جو مُستقبل ہے وہ 100 نُوری سال والے کا حال بن جائے گا اور اُسکے سامنے زمین کے 200 سال کے واقعات repeat ہو رہے ہونگے۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ ماضی، حال اور مُستقبل دراصل observer کے مقام کے لحاظ سے relevant ہیں absolute نہیں ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں ایونٹس ایک ساتھ ہی برپا ہورہے ہیں۔
ماہرینِ فلکیات کے مطابق آج تک کی observable universe زمین سے 93.5 ارب نُوری سال کے فاصلے تک پھیلی ہوئی ہے۔ گو کہ ‘کُن فیکوں’ کا عمل جاری ہے اور کائنات لامحدود ہے تاہم اس سے آگے ابھی تک انسان دیکھ نہیں پایا۔ سو اب اگر کوئی observer اس observable universe کے edge سے زمین کو فوکس کرکے دیکھ رہا ہو تو اُس کے سامنے ہر واقعہ رُونما ہو رہا ہے۔ ہر 10 نُوری سال کے فاصلے پر موجود observer کے سامنے زمین کے گُزشتہ 20 سالوں کے واقعات repeat ہورہے ہیں۔ اور یُوں ازل سے ابد تک ہونے والے تمام واقعات درحقیقت ایک ساتھ ہی رُونما ہو رہے ہیں۔
جان لیجیے کہ زمین سے تقریباً 40 نُوری سال کے فاصلے پر موجود observer کےلیے جنگِ عظیم دوم، لگ بھگ 750 نُوری سال کے فاصلے پر موجود observer کےلیے نبی پاک (ص) کی ہجرتِ مدینہ اور 130 ملین نُوری سال کے فاصلے پر موجود observer کےلیے ڈائنوسارز کا زمین پر وجود یہ تمام واقعات ایک ساتھ واقع ہو رہے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ یہ تمام مفروضات حقیقتاً تب ہی ممکن ہونگے جب انسان روشنی کی رفتار حاصل کرلے گا۔ فی الحال تو انسان روشنی کی رفتار کا صرف 0.005 فیصد ہی حاصل کر پایا ہے۔ صرف واقعہء معراج ثابت کرتا ہے کہ نبی پاک (ص) نے روشنی کی رفتار سے بھی کئی گُنا زیادہ رفتار سے سفر کیا تھا اور اسی وجہ سے وقت رُک گیا تھا۔ آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹیویٹی بھی یہی بتاتی ہے کہ اگر آپ سپیڈ آف لائٹ کا 100 فیصد حاصل کرلیں تو وقت صفر ہو جاتا ہے یعنی رُک جاتا ہے۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ وقت نہ بہہ رہا ہے اور نہ گُزر رہا ہے۔ درحقیقت ہم وقت کے اندر سفر کر رہے ہیں یعنی وقت میں سے گُزر رہے ہیں۔
وقت ایک واہمہ ہے اور relevant ہے absolute نہیں ہے۔
وقت نے ایسے گُھمائے اُفق آفاق کہ بس
محورِ گردشِ سفّاک سے خوف آتا ہے
شکل بننے نہیں پاتی کہ بگڑ جاتی ہے
نئی مٹّی کو نئے چاک سے خوف آتا ہے
اب آتے ہیں انسانی عُمر کی طرف اور جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے۔
یہ عُمرِ گُریزاں کہیں ٹھہرے تو مَیں جانوں
ہر سانس میں مُجھ کو یہی لگتا ہے کہ تُم ہو
مشہور شاعر احمد فراز کے اس شعر کو اگر مجازی کی بجائے عشقِ حقیقی کے معنوں میں لیا جائے تو شاید ہمیں عُمرِ رواں کی حقیقت کا ادراک ہو جائے تاہم اگر سائنسی نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو عُمر یعنی aging کا تعلق انسانی جسم اور اس کی بُنت کاری میں شامل اجزاء کی شکست و ریخت کے حیاتیاتی عمل کا نام ہے۔ انسانی جسم کا 99 فیصد حصّہ کُل 6 قسم کے elements سے مل کر بنا ہے۔ یہ اجزاء آکسیجن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، کاربن، کیلشیم اور فاسفورس ہیں۔ ان تمام اجزاء کی شکست و ریخت کا حیاتیاتی عمل اپنی جگہ تاہم طبعیاتی طور پر انسانی عُمر کا تعلق کوانٹم فزکس کے تحت subatomic particles کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ مادہ اور توانائی پر مُشتمل اس کائنات میں ہر چیز حرکت پذیر ہے۔ انسانی جسم بھی کوانٹم لیول پر حرکت میں ہے اور زمین پر رہتے ہوئے زمین کی گریویٹیشنل فورس نے اسے اپنے ساتھ باندھ کر رکھا ہوا ہے۔ جب تک ہمارے پاؤں زمین کی گریویٹی کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں تب تک ہماری مکینیکل حرکت جاری ہے۔ ہم زمین کے ساتھ بندھے ہونے کی وجہ سے زمین کی اپنے محور کے گرد حرکت کیساتھ ڈائریکٹ جُڑے ہوئے ہیں۔ زمین جب اپنی ہی spin کے ساتھ اپنے ہی axis کے گرد ایک چکّر پُورا کرتی ہے تو اُس 24 گھنٹوں کو ہم ایک دن کا نام دیتے ہیں۔ گویا گریویٹی کے ذریعے زمین کے ساتھ بندھے رہنے اور بائیولوجیکلی 24 گھنٹے زندہ رہنے پر انسانی جسم کی عُمر ایک دن ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ غور طلب بات ہے کہ زمین اپنے محور کے گرد 24 گھنٹوں یا ایک دن میں روٹیشن پُوری کرنے کے بعد اس سولر سسٹم میں اپنے مرکزی ستارے سُورج کے گرد بھی ایک چکر 365 دن میں پُورا کرتی ہے جسے ایک سال کا نام دیا گیا ہے۔ چنانچہ انسانی جسم اگر زمین کی گریویٹی کے ساتھ جُڑ کر سُورج کے گرد بھی ایک چکّر زندہ رہ کر پُورا کرلے تو اُسکی عُمر ایک سال کہلائے گی۔ گویا انسانی جسم گریویٹی کے تابع ہر 24 گھنٹوں میں ایک بار زمین کے محور کے گرد چکر پُورا کرتا رہے اور پھر یہ عمل 365 دن کےلیے زمین دہراتی رہے تو وہ ایک سال کی عُمر کو پہنچ جاتا ہے۔ زمین کے بعد اب اگر فرض کریں کہ انسانی جسم کسی دیگر سیّارے پر سروائیو کرنے کے قابل ہو جائے تو پھر اس صُورتِ حال میں اُسکی ageing بدل جائے گی کیونکہ ہر سیّارے کی گریویٹی الگ الگ، اُسکی اپنے ہی محور کے گرد روٹیشن اور پھر سُورج کے گرد روٹیشن کے دورانیے بھی الگ الگ ہیں۔ مثال کے طور پر سیّارہ مُشتری (Jupiter) اپنے محور کے گرد 10 گھنٹوں میں ایک چکّر پُورا کرتا ہے اور یُوں مُشتری کا 1 سال زمین کے 12 سالوں کے برابر ہے۔ گویا اگر ایک بچّہ زمین پر پیدا ہو اور دوسرا مُشتری پر تو 5 سال بعد مُشتری والے بچّے کی عُمر تو 5 سال ہوگی لیکن زمین والا بچّہ 60 سال زندگی گُزار چُکا ہوگا۔ ہمارے سولر سسٹم میں ہر سیّارے پر انسانی عُمر کی کیلکولیشن مختلف ہے۔ عُمرِ انسانی کا تعلق بھی اس بات سے ہے کہ انسان کائنات میں کس مقام پر موجود ہے اور کس قسم کی گریویٹی کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔
اس مُہیب اور لامحدود کائنات میں انسان اگر خُود کو وقت اور عُمر کی قید سے بےنیاز یا آزاد کرنا چاہتا ہے تو اُسے اپنے مدار میں یعنی اپنی حدود کے اندر اپنی ہی خاص فریکوئینسی اور وائبریشن کے ساتھ متحرک رہنا ہوگا۔ اُسے یہ سوچتے رہنا ہوگا کہ اُس کےلیے کچھ بھی absolute نہیں ہے ہر چیز relevant ہے with reference to something ہے۔ اور وہ reference خلقِ خُدا ہے جس کے ساتھ جُڑے رہنے میں ہی عافیت ہے۔ حیاتِ جاودانی کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ بقولِ غالب۔۔
وہ زندہ ہم ہیں، کہ ہیں رُوشناسِ خلق اے خضر!
نہ تُم، کہ چور بنے عُمرِ جاوداں کےلیے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں