کچھ اہم باتیں ۔۔۔محمد فیاض حسرت

ہمیں خدا سے اور خدا کے آخری رسولؐ سے محبت ہے ، خدا اور اس کے آخری رسولؐ سے عشق ہے ۔ خدا کرے کہ ہمیں خدا اور اس کے رسولؐ کے ساتھ سچا عشق نصیب ہو ۔   خدا گواہ ہے کہ یہ محبت ، یہ عشق ہم ان سے کتنا کرتے ہیں ؟ خدا کے حکموں کا ذرا بھی خیال نہیں کرتے ،اس خدا کے آخری رسول ؐ نے بار بار جو نصیحتیں کیں۔۔ہم ان کا بھی ذرا خیال نہیں کرتے ، تو پھر کیسی محبت ؟ کیسا عشق ؟ کیا خدا اور اس کے رسولؐ کے ساتھ عشق کی یہی ایک دلیل ہے کہ باقی اُن کے سبھی فرمانوں کا خیال نہ کریں یعنی عمل پیرا ہونے کی کوشش بھی نہ کریں اور بس ایک اس معاملے پہ وہ بھی بغیر کسی غور و فکر کے اپنےجذبات کو ایسی ہوا دیں کہ عقل سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت کھو دے اور یہ ثابت کرنا چاہیں کہ واقعی ہمیں عشق ہے ۔ ممکن ہے یہ نا فرمانبرداری والی بات آپ پہ گراں گزری ہو لیکن کِیا کیا جائے ۔ آپ اپنے طور پر تھوڑی سی تحقیق اپنی اور دوسروں کی کر لیں تو بات واضح ہو جائے گی ۔
اصل میں ہم بڑی ہی غلط روش اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ اتنے شریف اور سادہ لوح لوگ ہیں کہ کوئی عام آدمی بھی اپنے مقاصد کے لیے بڑی آسانی سے استعمال کر سکتا ہے اور ہم بھی بڑی شان  سے اس کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ ہمارے شریف ہونے کے لیے کیا اتنا کم ہے کہ ہم کسی بھی بات کا کسی بھی وقت یقین کر لیتے ہیں ، صرف یقین ہی نہیں یقینِ کامل کر لیتے ہیں ۔ ہمارے ذہنوں میں یہ بات تو سرے سے موجود ہی نہیں کہ کسی بات پہ یقین کرنے سے پہلے کم سے کم کوئی غور و فکر کر لیں، کوئی تحقیق کر لیں اور اس کے بعد اس بات کو صحیح یا غلط کہیں ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ آ پ کے بڑوں نے جو بات کر دی وہ ہر طرح سے صحیح ہی ہے اور اس بات کو لیکر آپ کچھ بھی کر جائیں وہ بھی صحیح ہی ہے ۔صحیح ہونے کی دلیل یہ دیتے ہو کہ آپ کے بڑوں نے کہا اور آپ فوراً  بغیر سوچے ،سمجھے عمل پیرا ہوئے سو ان کا کہنا اور ہمارا کرنا تو بالکل درست ہے ۔
سوال کیا گیا ، ہم کب تک اسی طرح سادہ لوح رہیں گے ؟
جوابا ً کہا گیا ، ہم تب تک ایسے ہیں رہیں گے بلکہ اس سے بھی آگے حدیں پار کرتے جائیں گے جب تک ہماری شعوری سطح موجودہ سطح پر ہی برقرار رہے گی اور اگر یہ سطح منفی پوائنٹ سے مثبت کی طرف بڑھنا شروع ہوئی تو تبھی ہماری موجودہ حالت کسی بہتری کی طرف سفر کر پائے گی ۔
اسی مقصد کی خاطر کن باتوں کا  ہونا ضروری ہے ؟
سیکھنے کا عمل صحیح معنوں میں شروع کیا جائے ۔
سننے کے عمل میں ایسے مشق کیجائے کہ کسی  بھی شخص کی بات کو بغیر کسی دقت کے سن پائیں ۔
سمجھنے کے عمل میں د ماغ کی ری کنڈیشننگ کی جائے ۔ تاکہ وہ جو کسی بات کو سمجھنے سے پہلے ہی دماغ ایک ڈائریکشن دے دیتا ہے کہ اس بات کو اس طرح سمجھا جائے ، یعنی سمجھ کے نیتجہ یہ نکا لا جائے اس سے بچ پائیں اور ٹھیک طرح سے بات کو سمجھ پائیں ۔
آخری بات ، یہ بڑی خوش نصیبی کی بات ہے کہ جب کہیں غلط یا صحیح کا فیصلہ کرنا ہو تو ہم درست فیصلہ کر پائیں ۔

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply