آسیہ بی بی اور توہینِ رسالت۔۔۔۔۔عمران بخاری

محمد الرسول اللٰہٌ کی ذات اور اس سے محبت مسلمانوں کے لیے ہمیشہ ہی سے ایک حساس مسئلہ رہا ہے۔ مسلم اور غیر مسلم میں فرق کی بنیاد نہ نظریۂ توحید ہے اور نہ ہی نظریۂ آخرت۔ مسلم اور غیر مسلم میں فرق کرنے والی چیز محمد الرسول اللٰہٌ کی رسالت پر ایمان ہے۔ جو شخص محمدٌ کو اللٰہ کا نبی اور وہ بھی آخری نبی مانتا ہے ہم اسے مسلمان سمجھتے ہیں اور جو اس عقیدے کا قائل نہیں ہم اسے غیر مسلم مانتے ہیں۔ یعنی ایک شخص اللٰہ پر ایمان رکھتا ہو، آخرت پر ایمان رکھتا ہو، فرشتوں پر ایمان رکھتا ہو، تمام الہامی کتابوں پر ایمان رکھتا ہو لیکن محمد الرسول اللٰہ کی نبوت اور ان پر نازل کی گئی کتاب (قرآن) کا انکار کرے تو اسے کسی صورت مسلمان تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اس حیثیت سے محمد الرسول اللٰہٌ کی ذات مسلم ملت کا مرکز و محور کا مقام رکھتی ہے۔ دوسرے انداز میں کہوں تو محمد الرسول اللٰہٌ کی ذات مسلم شناخت میں پیوست ہے۔ اور ہر انسان اپنی شناخت کے معاملے میں حساس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی محمد الرسول اللٰہٌ کی شان میں گستاخی کرے یا اُن کی توہین کی جسارت کرے تو اس پر اپنی شناخت کے بارے ہر حساس مسلمان کا جذباتی ردِعمل عین فطری ہے۔

کسی بھی ردِعمل کے صحیح یا غلط ہونے کا اندازہ اس سے پیدا ہونے والے نتائج سے لگایا جاتا ہے۔ جذباتی ردِعمل اگر شعور کے تابع ہو گا تو نتائج بھی مثبت پیدا ہوں گے اور اگر ردِعمل میں نِری جذباتیت ہو گی تو نتائج اور ان کا طریقۂ کار بھی منفی ہی ہو گا۔ شعوری نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اگر ہمیں دنیا کو محمد الرسول اللٰہٌ سے اپنی وابستگی کا صحیح ادراک اور احساس دلوانا ہے تو پہلے ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیاں سیرتِ محمدٌ کا عملی نمونہ پیش کرتی نظر آتی ہیں؟ کیا ہماری اجتماعی زندگی میں عدل و انصاف، اخوت، مساوات اور رواداری کے معاملے میں کہیں بھی محمد الرسول اللٰہٌ کی سیرت کا کوئی پرتو نظر آتا ہے؟ کیا ہمارے انفرادی کردار محمد الرسول اللٰہٌ کی سیرت کے سانچے میں ڈھل چکے ہیں؟ اگر انہیں تو پھر محمد الرسول اللٰہٌ سے وابستگی کا پہلا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو محمد الرسول اللٰہٌ کی سیرت کے سانچے میں ڈھالیں اور دنیا کو آپٌ کی رحمت اللعالمینی کا عملی نمونہ دکھائیں۔ اگر ہم ایسا نہیں نہیں کریں گے تو اپنے مقدس نبیٌ کی سیرت اور تعلیمات کی توہین کے سب سے پہلے مرتکب تو ہم خود ہیں۔

دنیا کے لیے موجودہ منظر نامہ تو یہ ہے کہ محمد الرسول اللٰہٌ کے چاہنے والے سرکاری اور لوگوں کی ذاتی املاک کو جلا رہے ہیں، راستے بند کر کے عام لوگوں کی تکلیفوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ روڈ بلاک ہونے پر ایک بچہ ہسپتال نہ پہنچ سکنے کی وجہ مر جاتا ہے اور روڈ بلاک کرنے والے انتہائی بے حسی سے کہتے ہیں کہ عشقِ رسول کی خاطر ایک تو کیا بلکہ کئی جانوں کی قربانی بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اپنی جانیں اتنی عزیز ہیں کہ دھرنا ختم کرنے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی رکھوائی جاتی ہے کہ ہم پر قائم پرچے ختم کیے جائیں اور دوسروں سے زبردستی جانوں کی قربانی وصول کی جاتی ہے۔ اگر کوئی گاڑی سوار غلطی سے دھرنے کے مقام کے قریب سے بھی گزرنے کی جسارت کر بیٹھے تو عاشقانِ رسول “دین آیا دین آیا” کی للکار کے ساتھ بلا تفریقِ مرد و زن گاڑی پر ٹوٹ برستے ہیں۔

کسی کی جان لینے یا چھوڑنے کا اختیار ریاست کے پاس ہے۔ یہ اختیار فرد کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو نتیجہ فساد اور انتشار کے سوا کچھ نہیں نکلنے والا۔ ریاست کے لیے پہلی ترجیح یہ ہونا چاہئیے کہ فرد سے یہ اختیار لے کر اپنے قبضے میں لیا جائے۔ دو چار عبرت کی مثالیں قائم کر دی جائیں تو آئیندہ کوئی بھی شخص یا جماعت انتشار کا یہ راستہ اختیار کرنے سے پہلے دس مرتبہ سوچیں گے۔صحیح طرزِ عمل یہ ہو گا کہ اگر کوئی یہ محسوس کرتا ہے کہ موجودہ نظام عدل کے تقاضے پورے نہیں کر رہا تو پر امن جدوجہد کے ذریعے اس نظام کو بدل کر نظامِ عدلِ اجتماعی قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔

نظامِ عدل کے لیے پہلا لوازمہ یہ ہے کہ عدالتوں کو کسی بھی قسم کے پریشر سے آزاد ہونا چاہئیے۔ جب ججوں کے قتل کے فتوے دیے جائیں گے تو عدلیہ کیسے آزاد ہو کر فیصلہ کر سکتی ہے۔ ججوں کو قتل کی دھمکیاں اور فتوے دراصل نظامِ عدل کی گردن دبوچنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح اپنے ملک کا دفاع کرنے والی فوج کے سربراہ کے عقیدے کے بارے سنسنی اور بداعتمادی پھیلا کر فوج کو اس کے خلاف بغاوت پر اکسانا انتشار اور فساد پھیلانے کی مذموم کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری طرف ریاست کے دائمی اداروں کو بھی اپنی سابقہ روش پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو اپنے وقتی مفادات کی خاطر ایسے شرپسند عناصر کو سپورٹ نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ وقت شاہد ہے کہ یہی عناصر بعد میں ان کے اپنے ہی گلے کی ہڈی بن گئے۔ دوسری طرف ریاست کے دائمی اداروں کو یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے اور آئین و قانون کی حکمرانی کو یقینی نہیں بنائیں گے تو عوام میں اس کا ردعمل لازماً ظاہر ہو گا اور اس بغاوت کو کوئی بھی مفاد پرست ٹولہ یا ملک اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حال ہی میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی نامی ایک عیسائی خاتون کو توہینِ رسالت کے الزام سے بری کیا ہے۔ سیشن کورٹ نے اسے توہینِ رسالت کا قصور وار ٹھہرا کر سزائے موت سنائی تھی اور ہائیکورٹ نے سیشن کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔ میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ سیشن کورٹ اور ہائیکورٹ کا فیصلہ درست تھا یا سپریم کورٹ کا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر پیدا ہونے والے ردعمل کو دیکھتے ہوئے میں خلافتِ راشدہ کے دور سے ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ عام لوگوں کی رہنمائی ہو سکے کہ صحیح طرزِ عمل کیا ہے۔ حضرت علی رضی اللٰہ عنہہ خلیفۂ وقت تھے اور ان کی زرہ چوری ہو گئی۔ معاملہ قاضیِ وقت کی عدالت میں چلا گیا۔ حضرت علی نے ایک یہودی پر الزام لگایا اور زرہ کی نشاندہی کے لیے بطور گواہ اپنے بیٹے حضرتِ حسن رضی اللٰہ عنہہ کو پیش کیا۔ قاضی نے فیصلہ حضرت علی کے خلاف سنا دیا اور توجیہ یہ بیان کی کہ بیٹے کی گواہی قابلِ سند نہیں۔ ذرا تصور کریں کہ حضرت علی اور حضرت حسن کے بارے کوئی سوچ بھی سکتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے تھے عدالت میں؟ نہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ حقیقت اور قانون ایک دوسرے کے مقابل آن کھڑے ہوتے ہیں۔ قانون شہادتوں کا محتاج ہوا کرتا ہے۔ حضرت علی اگر قانونی تقاضہ پورا نہیں کر سکے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ نعوذ باللٰہ غلط بیانی کر رہے تھے۔ حضرت علی یا مسلمانوں نے قاضیِ وقت کے خلاف احتجاج شروع نہیں کر دیا اور نہ ہی کسی نے اسے واجب القتل قرار دیا کہ اس نے خلیفۂ وقت کے خلاف فیصلہ کیسے دے دیا۔ حقیقتِ امر یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللٰہ عنہہ نے اور مسلمانوں نے عدالت کے فیصلے کو قبول کیا۔ اخلاق اور اصول کے اس بلند معیار کو دیکھ کر یہودی اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اپنا جرم خود ہی مان لیا اور بعد میں مسلمان بھی ہو گیا۔ جب تک یہ کردار ہم اختیار نہیں کریں گے تو اس وقت تک نہ تو ہم بحیثیت قوم ترقی کر سکیں گے اور نہ ہی ہم دوسروں کو اپنے نبیٌ کی توہین سے روک سکیں گے۔ اسی طرح لوگوں کی جان اور مال کو غیر محفوظ کرنا اور راستے بند کر کے لوگوں کی روزمرہ زندگی کو مفلوج کر دینا کسی بھی طرح سے احتجاج کا مثبت طریقۂ کار نہیں۔

Facebook Comments

عمران بخاری!
لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply