• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا چین سوپر پاور بننے جارہا ہے؟۔۔۔۔سلمیٰ اعوان

کیا چین سوپر پاور بننے جارہا ہے؟۔۔۔۔سلمیٰ اعوان

مکالمہ پیج پر   سائرہ نعیم کے ایک مضمون کی پوسٹ شیئر کی گئی ۔جسے پڑھتے ہی میری یادیں مجھے اُٹھا کربالائی ہنزہ کی وادی پھسو کے اُس گھر میں لے گئی جہاں میں سنکیانگ کے مشہور شہر اُرمچی سے1995ء میں وہاں ہونے والے فسادات سے بددل ہو کرنقل مکانی کرکے یہاں آ بسنے والے ایک اسماعیلی خاندان کے ہاں اپنی سیاحت کے دوران مہمان ہوئی تھی۔ان لوگوں کے ہجرت کر کے آنے کی وجہ رات کے کھانے پر زیرِبحث آئی تھی کہ کاشغر کے مشہور شہر شوفو سے آئے ہوئے اُن کے عزیز عُمرے پر جانے کیلئے ان کے پاس آکر ٹھہرے ہوئے تھے۔مزے کی بات یہ رشتہ دار حنفی مسلک سے تھے۔
اب باتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
چین عظیم دوست، چینی قابلِ اعتماد ساتھی۔جب سے ہوش سنبھالا تھا یہی سُنتے آئے تھے۔یوں ایک بار کہیں دانشوروں کی محفل میں ایک بڑے تجزیہ نگار کی یہ بات ٹھک سے دل کو لگی تھی کہ ہر مُلک اپنے مفادات کا تابع ہوتا ہے۔دوستی انہی دائروں کے گرد گھومتی ہے۔پاکستانی جذباتی قوم ہے۔فوراً توقعات کے پہاڑ کھڑے کر لیتی ہے۔

تاہم اِس دوستی میں شکوک و شبہات، تھوڑی تلخی، گِلے شکوے کا عنصر اس وقت اُبھرا جب سنکیانگ میں چینی مسلمانوں کا اضطراب2009ء میں سامنے آیا۔اُن پر ٹینک توپیں چلیں۔چینی حکومت کا کہنا تھا کہ اِن شرپسندوں کی پُشت پناہی پاکستان کر رہا ہے۔گو پاکستانی میڈیا نے اِن خبروں کو اُچھالا نہیں تھا مگر کہیں نہ کہیں تھوڑی بہت بدگمانی کا عنصر ضرور تھا۔اس شورش پر چند پاکستانی صحافیوں نے کھل کر لکھا ضرور تھا۔
صاحب خانہ بہت بالغ نظر اور واقعات کو تعصب کی عینک اتار کردیکھنے کے قائل تھے۔ان باتوں کو سنتے ہوئے میں نے انہیں دیکھا اورگہرائی جانچنے کے لیے کچھ سوال کیے۔وہ رسان سے بولے تھے۔پاکستان اِن معاملات میں توازن اور اعتدال کا دامن چھوڑ دیتا ہے۔اُس کی مسلمانیت ہمیشہ اُس کے لئیے آگ میں بلا سوچے سمجھے کود پڑنے کا کہتی ہے۔یقینا ہلاّ شیری ہوئی ہوگی۔ایسا ممکن نہیں کہ چین بلاوجہ ایسے اعتراضات کرے۔

اُس شب میرے لیے بہت سارے سنسنی خیز انکشافات  ہوئے تھے۔چین کے انتہائی مغرب میں یغور Yaughor(تُرک)خود مختار علاقہ سنکیانگ کہلاتا ہے۔چھ لاکھ پینتیس ہزار آٹھ سو مربع میل پر مشتمل یہ علاقہ تُرکوں ہن یا ہان قازق،تاجک، ازبک اور تاتاری مسلمانوں کا وطن ہے جو اُرمچیUrumchi،کاشغرKashghar،یارقندYarkand،آکسوAksoاور کلدجہKuldajaمیں بکھرے ہوئے ہیں۔ مشہور ریت کا صحرا تکلامکان اسی سنکیانگ میں واقع ہے۔پہلے اِسے چینی ترکستان بھی کہا جاتا تھامگر اب یہ سنکیانگ یعنیBorder Landکہلاتا ہے۔گو یہ لوگ امن پسند اور صلح جو قسم کے ہیں مگر اِن میں کچھ قوموں کے شرپسند بھی گُھس آئے ہیں جو ان کی مسلمانیت کو بلیک میل کرنے اور انہیں شورش بپا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اب میں ایک دوسرے نقطہ نظر سے شناسا ہورہی تھی۔ کِس قدر حسرت اور کتنا دُکھ بھرا لہجہ تھا شوفو خاندان کے اُس سربراہ کاجب وہ چینی حکومت کے رویوں بارے بات کرتے تھے۔ترجمانی کے فرائض ڈاکٹر عزیزشاہ نے کیے تھے جو میرے ساتھ ہنزہ سے چلے تھے اور اس گھر کے رشتہ دار تھے۔

عمرہ حج پر جانے اور مذہبی رسومات کی ادائیگی پر کتنی پابندیاں ہیں بتانا مشکل ہے۔کوئی پانچ بار کی درخواست کے بعد اب کہیں اجازت مِلی ہے۔گزشتہ ماہ تاشفورغن سے بیس نوجوان لڑکوں کو پکڑ کر لے گئے۔اُن پر الزام تھا کہ پاکستانی طالبان سے اُن کے مراسم ہیں۔کہیں انہیں القاعدہ کے ساتھ جوڑنے کی کوشش ہوتی ہے۔اقلیتوں کو اگر مراعات دی جائیں، ان کے اعتقادات کا خیال رکھا جائے تو انہیں کیا غرض ہے کہ وہ حکومت کے خلاف ہوں۔
کہیں افغانی طالبان سے کہیں ازبک یا تاجکوں سے ذرا سا کِسی پر شَک ہوا تو اس کے ساتھ دس بندے اور لپیٹ میں لے آتے ہیں۔اب افغانستان کے لوگوں سے ان کے تعلقات ہی نہیں رشتے داریاں بھی ہیں۔

کمیون یعنی دیہی اشتراکی تنظیم کا بنیادی کام علاقے میں رفاہِ عامہ کے کاموں یعنی سکول، شفاخانے،معذور افراد کی روزی کے وسائل کی دیکھ بھال اور دیگر مسائل کے حل سے ہے۔کمیون دراصل ایک قسم کی سیلف گورنمنٹ Self Governmentہے۔زیادہ اہمیت اقتصادی مسائل کی ہے۔پورے مُلک میں تقریباََ ساٹھ ہزار کمیون قائم ہیں۔ہمارے علاقے میں قائم کمیون سیاست میں گھُسی رہتی ہے۔مقامی مسلمانوں کے مسائل کی طرف توجہ دینے کے وہ اُن کی تعداد گھٹانے اور ہُن چینیوں کو اُن پر غالب لانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔صبح سو کر اُٹھیں تو گلیوں بازاروں میں پوسٹر دیواروں پر چسپاں نظر آتے ہیں۔میرے خیال میں اپنے شہریوں کو خوف ذدہ کرنا کچھ پسندیدہ کام نہیں۔مثبت نتائج نہیں نکلتے۔لوگوں کی بڑی اکثریت اب اپنے تشخص،اپنی بقا اور اپنے حقوق کیلئے اپنے اپنے علاقوں میں متحد ہو کر کام کر رہی ہے۔

صاحب خانہ نے اِس دفعہ پھر کہا دیکھو جب آپ کِسی ملک میں رہتے ہیں تو اُس قوم اور ملک کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کریں۔جب انہوں نے اپنے لوگو ں پر مذہب بین کیا ہوا ہے تو پھر اقلیتوں سے بھی توقع ہوتی ہے کہ وہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے پر امن رہیں۔آپ اُن کی دانائی اور بصیرت دیکھیے انہوں نے 2009 میں جماعت اسلامی جیسی جماعت کو نوروزہ دورے کی دعوت دی اور ہر سطح پر اُن سے مذاکرات کیے۔انکی باتیں سنیں اور اپنی سُنائیں۔آپ لوگ اُن کے عملی اور غیر جذباتی ہونے کا اِسی امر سے اندازہ لگالیں۔
اس میں شک نہیں اگر جذباتیت سے ہٹ کر دیکھیں اور تجزیہ کریں تو محسوس ہوگا کہ چین امریکہ کی طرح قطعی احسان فراموش قوم نہیں۔ایک بار نہیں بارہا ان کی اعلیٰ قیادتوں نے کھلے عام اس کا اعتراف کیا کہ وہ پاکستان کے احسانات کو کبھی نہیں بھلا سکتے جو اس نے ابتدائی مراحل میں دنیا اور خاص کر امریکہ کے ساتھ چین کے تعلقات استوار کرنے میں کردار ادا کیا۔آپ اس کے برعکس امریکہ کو دیکھ لیں۔کیسے آپ کی سرزمین کو لہو میں نہلا دیا۔کیسے آپ کو استعمال کیا اور کیسے آپ کو پھینک کر چلتا بنا۔پاکستانی قوم کو جذبات سے اوپر اٹھ کر سوچنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔وقت بدل رہا ہے۔آنے والا وقت چین کا ہے۔اِس سپر پاور کی تیاری کیلئے قدرت خود راہیں ہموار کررہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں مانتا ہوں امریکہ میں مذہبی رواداری اور احترام ہے۔آپ مسجدیں بنائیں،مندر بنائیں۔میں گزشتہ سال اپنی بیٹی کے پاس نیویارک گیا ہوا تھا۔رمضان میں کیا رونقیں تھیں۔مسجدیں آباد اور درس و تدریس کے سلسلے جاری تھے۔ہر علاقے کے مسلمان اپنے بچوں کوقرآن پاک کی تعلیم کیلئے مسجدوں میں بھیجتے ہیں۔تراویح ہوتی ہیں افطاریوں اور سحریوں کا اہتمام ہوتا ہے۔یار لوگ باگ فٹ پاتھوں پر جہاں جی چاہے سجدہ دے سکتے ہیں۔کوئی روک ٹوک کوئی پابندی نہیں۔مگر یہ انکے چہرے کا ایک رُخ ہے۔دوسرا رُخ آپ دیکھتے ہیں کتنا خوفناک اور گھناؤنا ہے۔اِن لوگوں کے دہرے تہرے معیار ہیں۔کتے کے پلّے اور بلّی کے بلونگڑوں کیلئے یہ لوگ مرے جاتے ہیں مگر عراق،فلسطین،کشمیر کے مظلوموں پر ٹینک توپیں چلیں انکی انہیں پرواہ نہیں۔ حکومتوں اور طاقتوں کے اپنے اپنے فلسفے اور اپنے عزائم ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply